گجرات کا انسداد دہشت گردی قانون

ہاں اگر وہ تھوڑی ہمت دکھائیں تو بل کو قانونی صلاح و مشورہ کے لئے سپریم کورٹ بھیج سکتے ہیں ۔ گجرات حکومت کی یہ ضد کچھ کچھ ویسی ہی ہے جیسی سابقہ باجپئی حکومت کی پوٹا(Pota) کے سلسلہ میں تھی اور راجیہ سبھا میں اکثریت نہ ہونے کی صورت میں دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلاکر اسے منظور کرایا گیا تھا اس قانون کا کتنا بے جا اور بے ہودہ استعمال ہوا تھا اس کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتاہے کہ گجرات کے اکشر دھام مندر پر ہوئے حملے کے ملزموں پر اس قانون کے تحت بھی فرد جرم عائد کی گئی تھی اور ذیلی عدالت سے ہی نہیں گجرات ہائی کورٹ تک سے انہیں پھانسی کی سزا ہوگئی تھی لیکن سپریم کورٹ نے نہ صرف ان سب کو بری کردیا بلکہ یہ تلخ تبصرہ بھی کیا تھا کہ اس وقت کے گجرات کے وزیر داخلہ(نریندر مودی) نے ملزمان پر پوٹا لگاتے وقت اپنے دماغ کا استعمال ہی نہیں کیا تھا ۔ لیبریشن ٹائیگرس کی حمایت کرنے پر جے للیتا نے وائیکو کو بھی اس قانون کے تحت جیل بھیج دیا تھا۔2004 میں منموہن سنگھ کی قیادت میں بننے والی حکومت نے اس اندھے قانون کو ختم کیا تھا۔
بی جے پی اور حکومت گجرات کا کہنا ہے کہ کانگریس کی حکمرانی والی مہاراشٹر اور دیگر ریاستوں نے بھی اسے ہی قانون بنائے ہیں اور کانگریس کی مرکزی حکومتوں کے کہنے پر صدر جمہوریہ نے ان سب کو منظوری دے دی جبکہ گجرات حکومت کے ایسے ہی قانون کو دو دوبار مسترد کیا جاچکاہے بی جے پی اس شکایت کے جواب میں کہا جاتاہے کہ ان ریاستوں نے اپنے اپنے یہاں منظم جرائم کی روک تھام کے لئے یہ قانون بنائے ہیں جبکہ گجرات کے قانون میں دہشت گردی کو بھی شامل کیا گیا ہے جو کسی ریاست میں امن عامہ کا نہیں بلکہ ایک ملک گیر مسئلہ ہے اس لئے کوئی ریاست اس کے لئے الگ قانون نہیں بنا سکتی ۔ واضح ہو کہ منموہن حکومت نے دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے ایک ایسے ادارے(NCT) کی تشکیل کا منصوبہ بنایا تھا جس کے ذریعے دہشت گردی کے معاملات میں اطلاعات کی ادلا بدلی اور کارروائی کا مرکزی نظام تیار ہوتالیکن بی جے پی اور دیگر پارٹیوں نے اسے ریاستوں کے دائرہ اختیار میں مرکز کی مداخلت قرار دے کر سخت مخالفت کی تھی اس مخالفت میں نریندر مودی جی بحیثیت وزیر اعلا گجرات پیش پیش تھے مرکزی حکومت چاہے تو وہ اس ادارے کو ٹھنڈے بستے سے نکال کر ضروری ترمیم اور جوازوں کے ساتھ دوبارہ تشکیل کر سکتی ہے ۔
حکومت گجرات کا کہناہے کہ اس کی لمبی سرحد پاکستان سے ملتی ہے جہاں سے ہندوستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کو کنٹرول کیا جاتاہے اس کے علاوہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ منظم جرائم کرنے والے گروہ دہشت گردوں سے بھی سانٹھ گانٹھ کر لیتے ہیں اور دہشت گردی کی چھوٹی موٹی وار داتیں بھی کر دیتے ہیں چونکہ منظم جرائم والے گروپ گجرات میں سر گرم ہیں اس لئے اس قانون کی سخت ضرورت ہے تاکہ ان کی حرکتوں کو روکا جاسکے اور کوئی واردات نہ ہوسکے۔
اس خوفناک بل میں کئی خوفناک جوازوں کو رکھا گیاہے مثلاً اگر کوئی ملزم کسی پولیس افسر کے سامنے کوئی جرم قبول کرلے تو اسے عدالت میں بطور ثبوت پیش کیا جاسکتاہے اب پولیس کیسے جرم قبول کراتی ہے یہ اظہر من الشمس ہے اسی لئے صرف مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا بیان ہی عدالت میں بطور ثبوت قبول کیا جاتاہے دوسرا اہم جواز ٹیلی فون ٹیپ کرنے کا ہے اور فرد جرم دائر کرنے کی مدت 90 دنوں سے بڑھا کر180 دن کردینا ہے۔ ان جوازوں کے مد نظر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر صدر جمہوریہ کابینہ کے دباؤ میں اسے منظوری دے بھی دیں گے تو اگر اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے تو وہ اسے قبول نہیں کرے گا کیونکہ یہ ہندوستانیوں کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ہے جس کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی گئی ہے ۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں آئین اور قانون کی حکمرانی ہی چل سکتی ہے کسی پارٹی یا فرد واحد کی من مانی نہیں ۔ بیشک دہشت گردی ایک قومی بلکہ عالمی مسئلہ ہے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ کوئی رورعایت نہیں کی جانی چاہئے لیکن دہشت گردی سے لڑنے کے لئے کسی حکومت کو بھی دہشت گرد بن جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اسی لئے اس قانون کو صدر جمہوریہ اور پھر سپریم کورٹ کی منظوری ملنا مشکل ہی نہیں مشکل ترہے۔

«
»

سعودی عرب میں مسجد توڑی جاسکتی ہے تو بھارت میں کیوں نہیں؟ سبرامنیم سوامی

کیامصرکا فوجی ڈکٹیٹرالسیسی اسرائیل اور روس کا ایجنٹ ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے