وہ نریندر مودی کابینہ میں ایک اہم قلمدان وزارت رکھتی ہیں اور جب انھوں نے کوئی بیان دیا ہے تو ظاہر ہے کہ پختہ اطلاعات اور ثبوتوں کی بنیاد پر دیا ہوگااور اس معاملے کی انکوائری ہونی چاہئے اور اگر وہ جھوٹ بول رہی ہیں تو پھر ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ ظاہرہے وہ جس ایشو کو اٹھا رہی ہیں وہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک کی سلامتی سے جڑا ہوا ہے اور کوئی بھی ذمہ دار شہری یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ ملک کی سلامتی خطرے میں پڑے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اب تک انھوں نے اس اہم معاملے کو پوشیدہ کیوں رکھا اور جو وہ کہہ رہی ہیں اس کی جانکاری انھیں کہاں سے ملی ہے، کب ملی ؟ ان تمام سوالوں کے جواب انھیں عوام کے سامنے رکھنا چاہئے۔ وہ کوئی عام آدمی نہیں ہیں جس کی بات کو بکواس سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے۔ حالانکہ مرکزی حکومت نے اب تک اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی نوٹس لینے کے موڈ میں نہیں ہے۔ کیا ہی بہتر ہوکہ کوئی شہری اس معاملے کو لے کر کورٹ میں پی آئی ایل فائل کرے اور منیکا گاندھی اپنا جواب کورٹ کے سامنے پیش کریں۔اگر وہ جھوٹی ثابت ہوں تو انھیں گرفتار کیا جانا چاہئے۔
منیکاگاندھی کا کھیل
منیکا گاندھی نے ایک اہم ایشو اٹھایا ہے جو ملک کی سلامتی سے جڑا ہوا ہے باوجود اس کے مرکزی سرکار خاموش ہے اور وزارتِ داخلہ بھی کوئی کھوج خبر نہیں لے رہی ہے۔ خود بی جے پی کے اندر یہ خبر گرم ہے کہ انھوں نے یہ بیان گایوں کو نہیں بلکہ’ بچھڑے‘ کو بچانے کے لئے دیا ہے۔ ان دنوں ان کے بیٹے ورون گاندھی بی جے پی لیڈر شپ کے عتاب کا شکار ہیں اور انھیں حاشئے پر ڈال دیا گیا ہے۔امت شاہ کی قیادت میں جو نئی کمیٹی بنی ہے اس میں انھیں کوئی جگہ نہیں ملی ہے جب کہ پہلے وہ پارٹی کے جنرل سکریٹری تھے اور الیکشن پرچارکی ذمہ داری بھی ان کے کندھوں پر ہوتی تھی۔ ان کی ماں منیکا گاندھی تو بیٹے کو یوپی کا وزیر اعلیٰ دیکھنا چاہتی ہیں مگر پارٹی انھیں زیادہ توجہ نہیں دینا چاہتی۔ اس کا ایک سبب یہ بتایا جارہا ہے کہ ورون گاندھی پچھلے دنوں راہل اور پرینکا گاندھی سے ملے تھے جس سے بی جے پی کے لیڈر ناراض ہیں اور انھیں شک ہے کہ ورون جلد ہی کانگریس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ اپنے بیٹے کو فرنٹ لائن پر لانے کے لئے سنگھ پریوار کی خوشامد میں منیکا گاندھی نے مذکورہ بالا بیان دیا ہے۔ اس بیان کے ذریعے وہ اس سلسلے کو آگے بڑھانا چاہتی تھیں جو یوگی آدتیہ ناتھ اور ساکشی مہاراج نے شروع کیا ہے۔ یعنی ’لوجہاد‘مدرسوں پر نشانہ اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی، مگر ان کا داؤ الٹا پڑ گیا ہے۔ بی جے پی کو حال ہی میں ضمنی الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور پارٹی اس کے لئے ان لیڈروں کی اشتعال انگیزیوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔منیکا گاندھی ماضی میں بھی مسلم مخالفت کی سیاست کرتی رہی ہیں مگر اب تو ان کی سیاست کا مرکز ہی مسلم دشمنی بن گئی ہے۔ حالانکہ اس بار ان کی چال الٹی پر گئی ہے۔ وہ ہندووں کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی تھیں کہ گوشت اکسپورٹ کرنے والے مسلمان ہیں اور وہ اس پیسے کو دہشت گردی پھیلانے میں لگا رہے ہیں مگر سچائی یہ ہے کہ گوشت کے کاروبارسے وابستہ بیشتر افراد ہندو ہیں۔ مسلمانوں کو اکسپورٹ کا لائسنس آسانی سے نہیں ملتا جب کہ ہندووں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ گوشت اکسپورٹ کرنے والی ملک کی سب سے بڑی کمپنی ’الکبیر ‘کا مالک بھی ہندو ہے۔ کہاجاتا ہے کہ سابق مرکزی وزیر کپل سبل کی بیوی کی بھی گوشت اکسپورٹ کی کمپنی چلاتی ہیں۔مسلمان تو ان سلاٹر ہاؤسیز میں صرف نوکری کرتے ہیں۔
چند گوشت اکسپورٹ کرنے والی کمپنیاں
یوں تو اس ملک میں ہزاروں کمپنیاں ہیں جو بیرون ملک گوشت بھیجتی ہیں اور ان میں سے بیشتر ہندووں کی ہیں۔یہان ہم مثال کے طورپرصرف چند کا ذکر کرتے ہیں۔
ABBOTT COLD STORAGES PVT LTD کے مالک ہیں مسٹر ابوٹ جو ایک ہندو ہیں۔ اس کمپنی کا رجسٹرڈ دفتر جن پتھ (نئی دلی) میں ہے اور اس کے کئی سلاٹر ہاؤس پنجاب میں ہیں۔ النوراکسپورٹس کا دفتر دلی کے صفدر جنگ ڈیولپمنٹ علاقے میں ہے اور اس کے مالک کا نام ہے مسٹر اجے۔ اس کمپنی کے سلاٹر ہاؤسیز شیر نگر، ضلع مظفر نگر میں ہیں۔ AMIT ENTERPRISESکا رجسٹرڈ دفتر سانتا کروز ممبئی میں ہے اور اس کے سلاٹر ہاؤسیز بھی مہاراشٹر میں ہیں، جب کہASHOK KUMAR FOODS (PROP GANGOLY INV. PVT. LTD.)کا رجسٹرڈ دفتر بھی ممبئی میں ہی ہے۔ AMK AGROPRO TRADING IMPEX PVT LTDکا دفتر دلی کے آیا نگرمیں ہے جس کے مالکان ہیں اوتار کرشن کول، میرا کول اور اشیش کول۔ AMROON FOODS PVT. LTD.کا دفتر غازی آباد(یوپی) میں ہے اور اس کے مالک ہیں شیام ڈھنگرا۔ اس کمپنی کے تین سلاٹر ہاؤس صاحب آباد، رام پور اور لکھنو میں ہیں۔ AOV EXPORTSدلی کی کمپنی ہے جس کے سلاٹر ہاؤسیز کانپور ، اناؤاور مرادآبادمیں ہیں۔ ASVINI AGRO EXPORTSکا دفتر گاندھی نگر ،چنئی میں ہے۔ ASVINI AGRO EXPORTS کا دفتر کولکاتا کے کینینگ اسٹریٹ میں ہے اور سلاٹر ہاؤس بھی مغربی بنگال میں ہی ہے۔ علی گڑھ میں بہت سی گوشت اپکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں کے سلاٹر ہاؤس ہیں۔ہم نے جن کمپنیوں کا ذکر کیا ان کے علاوہ بھی ہزاروں ایسی کمپنیاں اس ملک میں کام کر رہی ہیں جن کے مالکان ہندو ہیں اور وہ گائے،بھینس وغیرہ کے گوشت بیرون ملک بھیجتی ہیں۔ ایسی کمپنیاں گجرات، مدھیہ پردیش اور راجستھان سمیت پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔
گوشت پرسیاست
جب گوشت اکسپپورٹ کرنے والے اور سلاٹر ہاؤسیز چلانے والے بیشتر ہندو ہیں تو پھر مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراکر سیاست کیوں کی جاتی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے عام انتخابات کے دوران گوشت کے کاروبار کا معاملہ بھی اٹھایا تھا۔ انھوں نے بہار، یوپی اور مدھیہ پردیش میں جن علاقوں میں گوالوں کی زیادہ آبادی ہے وہاں اس معاملے کا ذکر اپنے خطابات میں کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ہم وائٹ انقلاب چاہتے ہیں اور کانگریس پنک انقلاب چاہتی ہے۔ حالانکہ کانگریس کی طرف سے جواب دیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ گجرات سب سے زیادہ گوشت اکسپورٹ کرتا ہے۔ بہارکے سابق وزیر اعلیٰ نتیش کمارنے جواب میں کہا تھا کہ بی جے پی کے بیشتر نیتا گوشت خور ہیں۔ انھوں نے کئی نیتاؤں کا نام بھی لیا تھا۔ اسے بی جے پی کا دوہرا رویہ کہا جائے گا کہ ایک طرف تو وزیر اعظم نے گؤ رکشا کے ایشو پر الیکشن لڑا تو دوسری طرف انھیں کے ایک وزیر نتن گڈکری نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ ملک کے اندر مزید سلاٹر ہاؤس کھولے جائینگے اور گوشت کے کاروبار کو بڑھاوا دیا جائے گا۔ اس کے بعد ایک مرکزی وزیر کا یہ کہنا کہ گوشت اکسپورٹ کی آمدنی دہشت گردی میں صرف ہورہی ہے کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔
گوشت کے کاروبار میں بھاجپائی سب سے آگے؟
بی جے پی کے دور حکومت میں گوشت اور جانوروں کے کاروبار کو بڑھاوا ملا ہے اور آج بھی ایسا ہو رہا ہے۔ وہ ہندووں کو مشتعل کرنے کے لئے گؤ کشی کا معاملہ اٹھاتی ہے مگر بارہا اس کے لیڈران ہی اس کاروبار میں ملوث پائے گئے گئے۔ مودی جن دنوں گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے ، انھیں دنوں ایک ایسی کار پکڑی گئی جس پر بی جے پی کا جھنڈا لگا ہوا تھا،اس کا الیکشن نشان کنول بنا ہوا تھا اور اس میں گائے کا گوشت غیر قانونی طور پر لے جایا جارہا تھا۔ اس اسٹیم کار کا نمبر تھاGJ-1-HN-739
مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے ایک نیتا وپن بھلا(سابق ضلع کنوینر) کو گرفتار کیا گیا جو اپنی گاڑیوں سے گایوں کو غیر قانونی طور پر کہیں لے جارہے تھے۔ان پر قانون انسداد گؤ کشی کی دفعہ 4
جواب دیں