گولی کان کے پاس سے نکل گئی

حفیظ نعمانی

صحافت سے کسی نہ کسی شکل میں ساٹھ برس کی رشتہ داری کے دوران طرح طرح کے تجربے ہوئے ہیں۔ ان میں نہ جانے کتنے برس پوری ذمہ داری رہی اور برسوں معاون بن کر کام کیا۔ اتنے دنوں میں نہ جانے کتنے نام چھپوانے کے شوقین ناراض ہوئے اور کتنے زندگی کے اچھے ساتھی بن گئے۔ اس زمانہ میں یہ دیکھا کہ جو اپنی تعریف اور قصیدہ خوانی سے خوش ہوتا ہے وہ کہیں نہ کہیں اور کبھی کبھی بہت نقصان اٹھاتا ہے۔ پروردگار کا احسان ہے کہ اتنی طویل مدت میں شاید ہی کوئی موقع ایسا آیا ہو کہ کسی کی تعریف سے طبیعت متاثر ہوئی ہو اور یہ اس احسان کا ہی نتیجہ ہے کہ کل سے اب تک رب کریم کا شکر ادا کررہا ہوں کہ گولی کان کے پاس سے نکل گئی۔
یہ بات 2016 ء کی ہے یہ یاد نہیں کہ مہینہ کون سا تھا لیکن یہ یاد ہے کہ گرمی تھی۔ دن میں بنگلور سے ایک ٹیلیفون آیا کہ بنگلور سے نکلنے والے روزنامہ سالار میں روز اور سیاست میں اکثر آپ کے مضامین برسوں سے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ہمارے ایک بہت بڑے دینی حلقہ میں اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ پورے ملک میں ملت کے لئے لکھنے والوں میں صرف آپ ہیں جو کسی کی طرفداری نہیں کرتے اور پوری دیانتداری سے مسئلہ کے نشیب و فراز کو ظاہر کردیتے ہیں اورہماری اطلاع یہ ہے کہ ملک کی ملت اسلامیہ صرف آپ کے اوپر اعتماد کرتی ہے۔ وہ جتنی دیر قصیدہ پڑھتے رہے میں یہ کہتا رہا کہ میں صرف کوشش کرتا ہوں اورپروردگار نے اخراجات کی طرف سے بے نیاز کردیا ہے اس لئے میں اپنے ضمیر کا سودا کیوں کروں؟ میں خود تو مریض ہوں لیکن میرے چاروں بیٹے اپنی محنت کی ساری کمائی میرے اوپر لٹانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
فون کرنے والے نے کہا کہ ہم نے بھی مسلمانوں کو سود کی لعنت سے نکالنے کی ایک اسکیم بنائی ہے جو بہت مقبول ہورہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے ایک رفیق کو لے کر بنگلور تشریف لے آئیں۔ ہوائی جہاز کا ٹکٹ آپ کی خدمت میں آجائے گا اور ایئرپورٹ پر ہم سب استقبال کریں گے اور قیام پانچ ستارہ ہوٹل میں ہوگا۔ آپ جیسا کمرہ پسند کریں گے اس کا انتظام ہوجائے گا اور ایک گاڑی اور ڈرائیور آپ کے ساتھ رہے گا آپ تشریف لاکر یہ ملاحظہ کرلیں کہ ہم نے کس طرح مسلمانوں کے سونے کو سود سے بچایا ہے اور گارنٹی دی ہے کہ نقصان نہیں بلکہ بہت معقول فائدہ ہونے کے بعد بھی ہر وقت ان کا سونا محفوظ رہے گا۔
میں نے انہیں بتایا کہ میں سفر کے قابل نہیں ہوں بارہ برس سے گھر میں خانہ قید جیسی زندگی گذار رہا ہوں۔ اس کے جواب میں وہ ضد کرتے رہے کہ آپ اپنے اعتماد کے دو حضرات کو بھیج دیجئے۔ میں نے عرض کیا کہ پیسے کے معاملے میں میں اپنے بھائی پر بھی اعتماد نہیں کرسکتا کیونکہ لکھنا مجھے ہے اور اس کی ذمہ داری میری ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی پوری اسکیم اور کارگذاری ڈاک سے بھیج رہے ہیں۔
چند روز کے بعد ایک پیکٹ آیا جسے دیکھ کر اور پڑھ کر آنکھیں پھٹ گئیں عمارت شوروم کاریں منتظمین کی شان و شوکت اردو اور انگریزی میں ہر چیز کی تفصیل سونے سے بھری تجوریاں، زیور بناتے ہوئے کاریگر اور آفس میں کام کرتے ہوئے ورکر۔ دو دن کے بعد پھر ان کا ٹیلیفون آیا کہ آپ نے کارگذاری ملاحظہ فرمالی ہوگی اور جب آپ کسی کو نہیں بھیج رہے تو ہم اپنے دو ذمہ داروں کو بھیج رہے ہیں وہ فلاں تاریخ کو ہوائی جہاز سے لکھنؤ پہنچیں گے اور آپ سے مفصل گفتگو کرکے آپ کو مطمئن کردیں گے۔ اور موعودہ تاریخ کو دوپہر میں فون آیا سلام کے بعد کہا کہ ہم بنگلور سے آئے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں آپ کے مالک سے کہہ چکا تھا کہ میرا اپنا ہوٹل ہے اگر آپ کو ضد ہے تو ان کو تاکید کردیجئے گا کہ وہ ہوٹل ردا آکر منیجر سے میری بات کرادیں۔ انہوں نے کہا کہ تم لوگ کسی بھی ہوٹل میں رک جانا نعمانی صاحب کا ایک پیسہ بھی ہم خرچ نہیں کرائیں گے۔ ہم نے کہا کہ دھوپ تیز ہے آپ شام کو پانچ بجے آجائیں۔
چونکہ بات بہت سنجیدہ ہوگئی تھی اس لئے میں نے عزیز دوست پروفیسر شارب ردولوی سے کہا کہ شام کو ساڑھے چار بجے میرے پاس آجاؤ بہت اہم مسئلہ ہے دوسرا فون میں نے اطہر میاں کو کیا جو بہت معاملہ فہم ہیں شام کو میرے دونوں دوست آگئے تو میں نے ان کی فائل دکھائی اور پورا واقعہ ان کو سنا دیا اور کہا کہ میں یہ گفتگو تنہائی میں نہیں کرنا چاہتا اس لئے آپ کو زحمت دی ہے میری پوری گفتگو سن کر اور فائل دیکھ کر دونوں نے کہا کہ تم سے تائیدی نوٹ لکھوانے کے لئے لاکھوں روپئے کا اس بیدردی سے خرچ سمجھ میں نہیں آیا۔ آخرکار پانچ بجے وہ دونوں آگئے اور میرے پاس دو دوستوں کو دیکھ کر ذرا چونکے۔ پھر گفتگو شروع ہوئی تو وہ صرف یہ بتاتے رہے کہ پورے کرناٹک میں اس کی کیسی دھوم ہے اور مسلمان کتنا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اور ہمارے صاحب یہ چاہتے ہیں کہ جیسے کرناٹک کے مسلمان فائدہ اٹھا رہے ہیں ایسے ہی پورے ملک کے مسلمان فائدہ اٹھائیں اور سود کے گناہ سے بچیں۔ انہوں نے ہر طرف سے معلوم کرایا تو سب نے مانا کہ نعمانی صاحب کے مضامین پورے ملک کے اردو اخباروں میں چھپتے ہیں جن کو مسلمان پڑھتے ہیں اور ان کی ہر بات پر بھروسہ کرتے ہیں۔
میں نے بات شروع کی اور کوشش کی کہ اندر کی بات معلوم ہوسکے لیکن وہ اسی دائرہ میں گھومتے رہے اور میں کہتا رہا کہ نہ مجھے یہ غلط فہمی ہے اور نہ اسے میں تسلیم کروں گا۔ دوسری بات یہ کہ اگر میرے لکھنے سے ملک کے دوسرے مسلمان بھروسہ کرکے اپنا سونا آپ کو دے دیں گے تو میرے پاس وہ کون سی طاقت ہے جو کسی طرح کی بے اطمینانی کے بعد ان کا سونا واپس کراسکوں۔ اور آخری بات یہ ہے کہ میں نے آج تک نہ کسی پارٹی کی ذمہ داری لی ہے نہ سوسائٹی کی اور نہ کسی کاروبار کی یہ باتیں وہ ہیں جو اشتہار میں کہی جاتی ہیں اور اشتہار کی ذمہ داری ایڈیٹر پر نہیں ہوتی۔
میرے بعد اطہر میاں نے کچھ قانونی باتیں کیں روپئے کی ہر دن ہونے والی کمی سے سونے چاندی کی قیمت پر فرق کی تفصیل بتائی۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے مالک سے بات کرلیجئے۔ اور انہوں نے اپنا موبائل ملایا۔ میں نے شارب صاحب سے کہا کہ تم بات کرو وہ دونوں کافی دیر بات کرتے رہے آخر میں شارب نے یہ کہا کہ آپ کے لٹریچر اور آپ کے منیجر کی باتوں سے تو اندازہ ہورہا ہے کہ آپ مسلمانوں کو سود کی لعنت سے بچانے کے لئے لاکھوں روپئے خرچ کررہے ہیں۔لیکن یہ کہیں سے نہیں کھلتا کہ محض مسلمانوں کو سود کی لعنت سے بچانے کے لئے آپ اتنا نقصان کیوں اٹھا رہے ہیں؟ اس روپئے سے آپ کوئی اور کام کیجئے۔ جب شارب نے کافی دیر جھنجھوڑا تو انہوں نے کہا کہ ہم اس سونے کا چھوٹا زیور بنواکر سال بھر بیچتے ہیں اور سال پورا ہوتے ہی ان کو ان کے سونے کا حساب بھیج دیتے ہیں وہ اگر نفع لینا چاہتے ہیں تو روپیہ بھیج دیتے ہیں اور اگر اس نفع کو بھی سونے میں ملاکر اسے بڑھانا چاہتے ہیں تو بڑھا دیتے ہیں۔ تب شارب نے سرد لہجے میں کہا کہ تو پھر یہ کہئے کہ آپ مسلمانوں کے سونے کا سال بھر زیور بنواکر بیچتے ہیں اور دوسرے کے سونے سے اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ اس پر وہ پھٹ پڑے اور کہا کہ آپ کو مطمئن کرنے کے لئے مجھے خود آنا پڑے گا خدا حافظ۔ اور اپنے آدمیوں سے کہا کہ تم لوگ واپس آجاؤ۔
اس واقعہ کو تین برس ہوگئے اس کے بعد نہ ان کا فون آیا نہ کوئی آدمی اور ہم بھی کیا یاد رکھتے۔ تین مہینے پہلے ایک اشتہار دیکھا کہ سونے کے زیور کے ایک بہت بڑے شوروم جس میں ٰ بڑے بڑے شو کیس اور زیور بناتے ہوئے کاریگر اور ان کے درمیان میں ہر سائز کا مولوی یہ کہتا ہوا کہ ہر کام پوری دیانتداری سے کیا جارہا ہے۔ اور ہر کام کو اس طرح دیکھتا ہوا جیسے یہ سونے کی دکان نہ ہو فتوے کی کوئی کتاب دیکھتا ہوا مفتی ہو۔ بنگلور کا نام دیکھتے ہی تین برس پرانی ساری باتیں یاد آگئیں اور سمجھ گئے کہ خریدے ہوئے مولویوں سے تائید کرارہے ہیں شاید کچھ گڑبڑ ہے۔ اور کل کے انقلاب کے صفحہ وطن پر چار کالمہ خبر نظر سے گذری کہ- ایک لاکھ لوگوں سے تیرہ ہزار کروڑ ٹھگ لئے۔ اور پھر فریبی منصور خاں کے کالے کارناموں کی پوری تفصیل۔ ہم نے پروردگار کا بار بار شکر ادا کیا کہ ہم قصیدہ خوانی اور لاکھوں کی جھلک کے فریب کو سمجھ گئے اور شارب صاحب اور اطہر صاحب کو پورے معاملہ کا گواہ بنا لیا اگر ہم تعریفوں کے فریب میں آجاتے تو ایس آئی ٹی کے کارندے ہمارے اردگرد بیٹھے ہوتے کہ آپ نے کس بنیاد پر ان کی دیانتداری کو سند دی تھی؟ پروردگار کا کرم ہے کہ ساٹھ برس میں جتنا لکھا اس کی پاداش میں نہ ایک دن کی سزا ہوئی اور نہ ایک روپیہ جرمانہ۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے

 18جون2019(فکروخبر)
 

«
»

اردو،ہندی کے اولین شاعر امیرخسرو

راہل استعفے پر بضد رہے تو کانگریس ختم ہوجائے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے