’میں گوڈسے کے دور میں گاندھی کے ساتھ ہوں‘ قصہ گاندھی اور آر ایس ایس کا

عبدالعزیز

(پیش نظر مضمون گاندھی جی کی 150ویں برسی کے موقع پر لکھا گیا تھا)

     مہاتما گاندھی ایک فرد، ایک شخصیت کا نام ہے۔ ایک فلسفہ، ایک نظریہ، ایک انجمن، ایک جماعت کا نام ہے جو اتحادِ آدم اور اتحادِ انسانیت، امن و سلامتی کا مظہر ہے۔ آر ایس ایس ایک عسکری تنظیم کا نام ہے۔ اس کا ایک فلسفہ ہے، ایک نظریہ ہے جو ہندوتو، جارحانہ قومیت اور انسان دشمنی اور مسلم دشمنی کی علمبردار ہے۔ 2اکتوبر گاندھی جی کی پیدائش کا دن ہے۔ ان کی 150ویں برسی ہندستان بھر میں منائی جائے گی۔ یہ برسی ایسے موقع پر منائی جانے والی ہے جب گاندھی سے دشمنی اور نفرت کرنے والی تنظیم آر ایس ایس کا تیز طراز سابق پرچارک ملک کا وزیر اعظم ہے۔ آر ایس ایس کو سیاسی اور سماجی زندگی پر بالادستی اور غلبہ حاصل ہے۔ 2 اکتوبر کو یقینا وزیر اعظم اور آر ایس ایس اور اس سے منسلک افراد گاندھی کے بارے میں اچھی اچھی باتیں بیان کریں گے اور نیک خواہشات کا اظہار کریں گے۔ جیسے سابق پرچارک نے اقوام متحدہ میں دنیا کے لوگوں کو بتایا کہ گاندھی جی عدم تشدد کے علمبردار تھے اور ہندستان ان کے بتائے ہوئے راستہ پر گامزن ہے (حالانکہ جو کچھ ہمارے ملک میں ہورہا ہے دنیا جانتی ہے)۔
    آج دنیا کو اور خاص طور سے ملک کے باشندوں کو اچھی طرح سے معلوم ہونا چاہئے کہ گاندھی جی جب زندہ تھے تو آر ایس ایس سے یا آر ایس ایس سے ان کا کیسا تعلق تھا۔ گاندھی جی کے مجموعی کام پر مشتمل جو کتاب ہے اس کی 87ویں جلد میں آر ایس ایس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ سال 1947ء کا تھا اور اپریل کا مہینہ تھا۔ دہلی میں ہندو مسلم اتحاد و اتفاق کے ایک جلسہ میں گاندھی جی نے کہاکہ انھیں آر ایس ایس کی طرف سے ایک خط ملا ہے کہ اس جلسہ کے خلاف جس میں قرآن کی آیتیں اور گیتا کے اشلوک پڑھے گئے تھے اور ہندو مسلم کے اتحاد اور رشتہ کی بات کہی گئی تھی جو احتجاج ہوا تھا اس میں آر ایس ایس کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ گاندھی جی نے کہاکہ انکار سے انھیں خوشی ہوئی اور مزید کہا کہ ”کوئی بھی ادارہ یا تنظیم زندگی اور مذہب کی حفاظت نہیں کرسکتی۔ اگر وہ اپنے کام کو اعلانیہ نہیں کرتی“۔ 
    ستمبر 1947ء میں دہلی شہر میں گاندھی جی سے آر ایس ایس کے کارکنوں کے ایک گروپ نے ملاقات کی۔ گاندھی جی نے گروپ کے ارکان سے کہاکہ حقیقی معنوں میں منافع بخش یا سود مند ہونے کیلئے ضروری ہے کہ ایثار و قربانی ایسی ہو جو سچے اور خالص مقصد اور سچے علم و معلومات پر مشتمل ہو۔ گاندھی جی کو معلوم ہوا کہ آر ایس ایس کا ہندستانی مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہے۔ ان کا اپنا خیال تھا ہندومت کوئی خاص مذہب نہیں ہے۔ ہندوؤں کا اسلام سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ گاندھی جی چاہتے تھے کہ آر ایس ایس اپنی سرگرمیوں کو مثبت انداز سے پیش کرے اور اچھے کاموں میں لگائے۔ 
    گاندھی جی آر ایس ایس کے بارے میں متذبذب تھے۔ اس کے برعکس آر ایس ایس کو گاندھی جی پر اعتبار اور بھروسہ نہیں تھا۔ ستمبر 1947ء کے شروع میں ہندو اور مسلمان کے درمیان فساد کو روکنے کیلئے گاندھی کلکتہ میں بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے۔ آر ایس ایس کے ترجمان میگزین ”آرگینائزر“ نے گاندھی جی کے اس امن کی کوشش کا مذاق اڑایا تھا۔ لکھا تھا کہ ”روم جب جل گیا تو نیرو بانسری بجا رہے تھے۔ تاریخ ہماری آنکھوں کے سامنے دہرائی جارہی ہے۔ کلکتے میں گاندھی جی اسلام کی تعریف و توصیف کر رہے ہیں اور اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔ اور چاہتے ہیں ہندو بھی ان کے ساتھ ان کے کاموں میں شامل ہوجائیں۔ جبکہ پنجاب میں نہایت سنگین اور شرمناک قسم کی بربریت اور قتل و غارت گری کا مظاہرہ اسلام کے نام پر اللہ اکبر کے نعرے کے ساتھ ہورہا ہے“۔ 
    حقیقت میں گاندھی جی ہندو اور مسلمانوں کو احساس دلانا چاہتے تھے کہ وہ آپسی جھگڑے کو طول نہ دیں۔ 77سالہ گاندھی جی کی یہ اخلاقی جرأت تھی اور ان کا عقیدہ تھا کہ عدم تشدد ہی کے ذریعہ دونوں فرقوں میں امن و سلامتی کو قائم کیا جاسکتا ہے۔ ہڑتال کے خاتمے کے بعد گاندھی جی دہلی گئے اور وہاں مسلمانوں کو یقین دلایا کہ اس ملک میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا۔ ان کو پاکستان جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ گاندھی جی 9ستمبر کو دہلی پہنچے تھے۔ یہاں انھوں نے آر ایس ایس کا سرسنچالک ایم ایس گولوالکر جو شدت پسند اور باریش تھا جس نے جرمنی کے نازی کی تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ نازی ازم ہندستان کیلئے اور ہندستان کے فائدے کیلئے اچھا سبق ہے۔ اس ملاقات کا ریکارڈ گاندھی جی کی خدمات اور کارگزاریوں کے مجموعے میں موجود ہے۔ 12 ستمبر کوبین المذاہب کی ایک میٹنگ میں گاندھی جی نے تقریر کی۔ شائع شدہ ریکارڈ میں انھوں نے اپنے خطاب کو اس طرح ختم کیا۔ اختتام پر گاندھی جی نے اس کے حوالے اور ڈاکٹر دینشو مہتا کی اس بات کو جو گولوالکر سے ہوئی تھی اس کو دہرایا۔ گاندھی جی کو بتایا گیا تھا کہ اس تنظیم کا ہاتھ خون سے رنگا ہوا ہے۔ گولوالکر نے ان کو یقین دلایا کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ یہ تنظیم کسی شخص یا فرد کی دشمن نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کے قتل کیلئے قائم نہیں کی گئی ہے۔ اس کے قیام کا اصل مقصد ہے کہ ہندستان کو ہر قیمت پر تحفظ کرنے اور بچانے کی کوشش کی جائے۔ یہ امن کیلئے قائم ہوئی ہے۔ گولوالکر نے گاندھی جی سے مطالبہ کیا کہ عوام میں اس بات کو پھیلائیں۔ گولوالکر نے جو گاندھی جی سے کہا تھا وہ بالکل غلط تھا۔ آر ایس ایس اور اس کے لیڈر مسلمانوں سے پیدائشی بیر رکھتے ہیں۔
     مشہور تاریخ داں رام چندر گوہا اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ ستمبر 1947ء سے جنوری 1948ء تک جب گاندھی جی دہلی میں تھے تو ہم نے ان کی کارگزاری کا ریکارڈ جمع کیا اور ان دنوں میں دہلی پولس کا خفیہ ریکارڈ بھی معلوم کرنے کی کوشش کی۔ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ گاندھی جی کی جہاں جہاں میٹنگ ہوئی آر ایس ایس کے لوگ ان میٹنگوں میں پہنچ کر مسلمانوں کو لعن طعن کرتے رہے۔ اکتوبر کے آخری ہفتہ میں پولس نے اس طرح کی رپورٹ درج کی ہے۔ ”سنگھ پریوار کے رضاکاروں کے مطابق مسلمان اسی وقت ہندستان چھوڑیں گے جبکہ ان کو ختم کرنے کیلئے تحریک چلائی جائے گی اور اس کی شروعات دہلی سے ہوگی“۔ کچھ دنوں کے بعد دہلی میں یہ سلسلہ شروع ہوا، یعنی مسلمانوں کی قتل و غارت گری جگہ بجگہ ہونے لگی۔ آر ایس ایس کے کارکنان چاہتے تھے کہ مہاتما گاندھی دہلی سے کسی دوسری جگہ چلے جائیں تاکہ وہ اپنے مقصد کو بروئے کار لاسکیں۔
    بدقسمتی سے گاندھی جی کو وہ پولس رپورٹ معلوم نہیں ہوئی لیکن انھوں نے اپنے ذرائع سے معلوم کیا کہ سنگھ پریوار کے لیڈران جھوٹ بول رہے ہیں۔ 15نومبر کو گاندھی جی نے ’آل انڈیا کانگریس کمیٹی‘ کے سامنے نہایت قابل ذکر تقریر کی۔ گاندھی جی نے کہا کہ ”کانگریس کا اصل کردار یہ ہونا چاہئے کہ وہ ہندو اور مسلمانوں کو متحد کرے، جس کیلئے کانگریس نے 60 سال تک کام کیا۔ انھوں نے کہاکہ کانگریس کو کچھ اس طرح کام کرنا چاہئے کہ مسلمان اس ملک میں محسوس کریں کہ وہ محفوظ ہیں۔ ہندستان میں تشدد پسندی یا بربریت کا مظاہرہ ہر گز نہیں ہونا چاہئے؛ ورنہ نہ ہندو مت کو ہم بچاسکیں گے اور نہ سکھ مت کو۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں نے آر ایس ایس کے بارے میں بہت سی چیزیں سنی ہیں اور معلوم ہوا ہے کہ فسادات میں اس کا ہاتھ میں ہے۔ ہم لوگوں کو بھولنا نہیں چاہئے کہ ہزاروں تلواروں سے بڑھ کر رائے عامہ ہوتی ہے۔ ہندومت قاتلوں کے ہاتھ محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اب آپ لوگ آزاد ہیں، اس آزادی کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر تشدد پسندوں کو چھوٹ دی جاتی رہی تو آزادی ہمارے ہاتھ سے پھر نکل جائے گی۔ لیکن مجھے امید ہے کہ ایسا دن نہیں آئے گا“۔ 
    دوسرے دن کی دعائیہ میٹنگ میں گاندھی جی نے کہا کہ ”مسلم لیگ نے اپنے کردار سے پولرائزیشن کا کام کیا۔ وہی کام ہندو مہاسبھا نے آر ایس ایس کی مدد سے کیا ہے۔ ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کی خواہش ہے کہ مسلمان ہندستان چھوڑ دیں“۔ گاندھی جی اس کے بعد آر ایس ایس کے کردار کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے اور آر ایس ایس نے بھی گاندھی جی کے ساتھ اپنے سخت رویے کا مظاہرہ کیا۔ آر ایس ایس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جو کچھ ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ ہورہا ہے وہی کچھ ہندستان میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ہونا چاہئے۔
    دسمبر 1947ء کے پہلے ہفتہ میں ایم ایس گولوالکر نے ایک میٹنگ کو خطاب کیا اور کہاکہ ”دنیا کی کوئی طاقت بھی مسلمانوں کو ہندستان میں نہیں رکھ سکتی۔ ان کو اس ملک کو چھوڑنا ہوگا۔ کانگریس مسلمانوں کو اس ملک میں بسانا چاہتی ہے تاکہ الیکشن کے موقع پر اس کو فائدہ ہو۔ ایک بھی مسلمان کو ہندستان میں نہیں رہنا چاہئے۔ مہاتما گاندھی ہم ہندوؤں کو گمراہ نہیں کرسکتے۔ ایسے آدمی کو ہمیں خاموش کر دینا چاہئے۔ لیکن ہم ہندوؤں کا رسم و ریتی ہے کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ ایسا نہیں کرتے، لیکن اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو ہم لوگوں کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہوگا“۔ (بحوالہ: رام چندر گوہا) 
    جنوری کے مہینے میں گاندھی جی دہلی میں اسی طرح ہڑتال پر بیٹھ گئے جس طرح کلکتے میں بیٹھے تھے، تاکہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فساد نہ ہو۔ گاندھی جی نے پروگرام بنایا کہ وہ پاکستان بھی جائیں گے جہاں وہ جاکر ہندوؤں اور سکھوں کے تحفظ کیلئے کام کریں گے۔ لیکن ان کا پروگرام دھرا کا دھرا رہ گیا۔ 30 جنوری کو آر ایس ایس کے سابق ممبر ناتھو رام گوڈسے نے انھیں ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا۔ آر ایس ایس پر فوراً پابندی عائد کردی گئی اور گولوالکر سمیت ان کے تمام لیڈروں کو پس زنداں کر دیا گیا۔
     آر ایس ایس کی بائبل "Bunch of Thoughts" (خیالات کا مجموعہ) ہے جو گولوالکر کی تقریروں اور مکالمات پر مشتمل ہے۔ یہ 1966ء میں شائع ہوئی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کمیونسٹوں کیلئے ’کمیونسٹ منشور‘ ہے۔ گولوالکر نے ایک بار گاندھی جی سے کہا تھا کہ ”سنگھ کسی آدمی کا دشمن نہیں ہے“۔ جو بالکل جھوٹ تھا۔ ان کی کتاب (بنچ آف تھاؤٹس) میں صاف صاف لکھا ہے کہ ”ملک کیلئے مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ دشمن ہیں۔ اور ان لوگوں سے قومی تحفظ کو خطرہ ہے“۔ تقسیم ہند کے 20 سال بعد گولوالکر نے مسلمانوں کے بارے میں اور شدت پسندی اختیار کی۔ 
    17ویں صدی کے فرانسیسی رائٹر Laroche foucauld نے کہا ہے کہ ”جو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے اس میں منافقت کا پہلو کہیں زیادہ ہوتا ہے“۔ رام چندر گوہا نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ2  اکتوبر کو ہم لوگ یہی سب کچھ دیکھیں گے۔ آر ایس ایس کے پرچارک سے لے کر پرائم منسٹر تک گاندھی جی کو خراج تحسین پیش کریں گے۔ لیکن وہ یہ جانتے ہیں کہ گاندھی جی کا خیال تھا کہ ”ہندستان صرف ہندوؤں کا ملک نہیں ہے بلکہ تمام عقائد و مذاہب کا یکساں ملک ہے“۔ 
    ایسے وقت میں جبکہ گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کی پوجا ہورہی ہے اور آر ایس ایس اور بی جے پی کے لوگ کھلے عام گوڈسے کو نہ صرف دیش بھکت کہہ رہے ہیں بلکہ گوڈسے کو پسند کرنے والے اور دیش بھکت کہنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور انھیں انعام و اکرام سے نوازا جارہا ہے۔ پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے بھوپال میں جنرل الیکشن کے موقع پر اپنی انتخابی مہم کے دوران ناتھو رام گوڈسے کو دیش بھکت کہا تھا۔ رسماً وزیر اعظم نریندر مودی نے افسوس کا اظہار کیا اور بی جے پی کے صدر اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے پریس والوں کے سامنے کہاکہ پرگیہ ٹھاکر پر کارروائی ہورہی ہے، لیکن آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے مل کر انھیں لوک سبھا تک پہنچا دیا۔ آج بھی ان کی زبان و بیان میں کوئی فرق نہیں آیا۔ پرگیہ ٹھاکر کی طرح سنگھ پریوار کی صفوں میں بہت سے لوگ ہیں۔ گاندھی جی کو نیچا دکھانے اور گرانے کی کوششیں کھلے عام اور درپردہ نہ صرف سنگھ پریوار کے عام لوگوں کی طرف سے ہوتی ہیں بلکہ اس میں وزیر اعظم بھی درپردہ شریک ہوتے ہیں۔ لیکن گاندھی جی کی شخصیت اس قدر عظیم ہے کہ سنگھ پریوار ابھی انھیں گرانے یا نیچا دکھانے میں کامیاب نہیں ہورہا ہے۔ بنارس کے ایک طالب علم آیوش چترویدی نے چند روز پہلے گاندھی جی کی شخصیت پر جو تقریر کی ہے وہ سوشل میڈیا میں زبردست پیمانے پر وائرل ہورہی ہے۔ اس نے کہاہے کہ گاندھی جی سے بڑا کوئی ہندو نہیں ہے اور ان کے ’ہائے رام‘ جو انھوں نے مرتے وقت کہا تھا اس سے کسی کو تکلیف بھی نہیں ہے۔ آخر میں ایک شعر پڑھا تھا  ؎
کس نے یہ کہا آپ سے آندھی کے ساتھ ہوں …… میں گوڈسے کے دور میں گاندھی کے ساتھ ہوں 
19فروری2020
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

’قوم پرستی‘ اور ’بھارت ماتا‘کا نشہ پلایا جارہا ہے

ہندوستان میں جمہوریت کا استحکام کیونکر ممکن ہوا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے