از : مولانامحمدقمرانجم قادری فیض
عصرحاضرمیں گودی اور زعفرانی میڈیا، چاہے وہ الکٹرانک ہویاپرنٹ میڈیاہو،ہندی میں ہو یاانگلش میں اسلام اورمسلمانوں کیلئے بہت ہی بڑا چیلنج ہیاس وقت تواورہی زیادہ چیلنج بناہوانظرآرہاہے، اس کے ذریعیاسلام اور مسلمانوں کاچہرہ مسخ کرکے پیش کیاجارہاہے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کی مکمل کوشش کی جارہی ہے،جسکی وجہ سے آج کینئی نسل کیبیشترافرا دذہنی وفکری ارتدادکیشکارہوتیجارہیہیں۔اورآپس میں نفرت وعداوت پیداہورہی ہے، جن سے ان کو بچانا اور ممسلمان کیمسخ شدہ چہریکو صاف وشفاف کرناوقت کا اہم ترین تقاضہ ہے،یہ تاریخ کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ گودی میڈیاکبھی بھی مسلمانوں کادوست نہیں رہاہے۔ان کے خلاف ہمیشہ سازشیں اور پلان تیارکرتا رہاہے،مزید اس نے ہمیشہ مسلمانوں کے دینی مذہبی اورداخلی معاملات کوپوری شدت کیساتھ اچھال کرمسلمانوں کوبدنام کرنیکی مشن اور مہم چلائی ہے نیزحقائق کو توڑمروڑکرپیش کرنا اس کا قدیم وطیرہ رہاہے
اردومیڈیاتوکسی قدر مسلمانوں کی مثبت تصویرپیش کرتاہے مگر ہندی اور انگلش میڈیامسلمانوں کا کھلا ہوا دشمن ہے، یہ کوئی بھی موقع یو کرادرکشی کا عَلَم ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں، اور مسلم دشمن آقاؤں کی سرخروئی حاصل کرتیہیں،جیساکہ آپ حضرات کو معلوم ہی ہوگاکہ گودی میڈیاکا چینل زی نیوزاپنیچینلوں پرکسی طریقے کی نیوزچلارہی ہیایسالگ رہاہے کہ جیسے میڈیاکو ایک مشن ملاہے مشن کیا ملاہے؟؟ کہ پورے ملک کیلوگوں کو یہ بتاناہیکہ اگر کورونا وائرس پورے ملک میں پھیلاہے تووہ نظام الدین مرکزسیپھیلاہے تبلیغی جماعت والوں نے پھیلایا ہییا پورے ہندوستان کیمسلمانوں نیاس چھوڑیسیجرثومیاور نہ دکھائی دینیوالیوائرس کوپھیلایا ہیکتنیافسوس کی بات ہے کہ ان گودی میڈیاوؤں نے اپنے چینلوں پر بہت زیادہ اور چابک دستی کیساتھ تبلیغی جماعت کولیکرمرکزنظام الدین کو لیکرمسلمانوں کو لیکرفیک نیوزبھی چلائی ہے، جھوٹی خبریں بھی چلائی ہیں، جسکی وجہ سے مسلمانوں کیاندرخوف وہراس پایا گیا۔ہندومسلم کیاندرنفرت پھیلانیکی مکمل کوشش کی گئی ہے اور ابھی کی جارہی ہے مگر کہتے ہیں کہ زیادہ دن تک جھوٹ چھپ نہیں سکتا ہے اور زیادہ دن تک کسی کا جھوٹ چلتابھی نہیں ہیوہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی دن پکڑا بھی جاتاہیاب ایک گودی میڈیاکا چینل جس کانام زی نیوزہے اس کا جھوٹ پکڑا گیاہے، کیاتھاجھوٹ؟؟ اور کیا جھوٹ بولاتھا اورکیسے پکڑاگیاہے؟ پھر اس کے بعد زی نیوزنے پورے ملک کے مسلمانوں سے معافی بھی مانگی اور کس طریقے کی معافی مانگی ہے،جھوٹ کیا پھیلائی تھی زی نیوزنے، جھوٹ یہ تھا کہ اروناچل پردیش میں کوروناوائرس سے متاثر گیارہ جماعتی مریض ملے ہیں، یعنی گیارہ جماعتیوں کوروناوائرس کی بیماری ہوگئی ہے اروناچل پردیش میں زی نیوزنیاپنے چینل سے یہ جھوٹی اورمذموم خبر چلائی تھی۔جس وقت اس چینل پر یہ خبر چلائی گئی، اور جس جس نے بھی یہ دیکھا،اس وقت تو اسے یقین ہوگیا ہوگا کہ سچ میں جماعتیوں کے اندر کوروناوائرس ہے، اور انہین کی وجہ سے پورے ملک میں یہ وائرس پھیلاہے،اور یہ خبر سچی اور پکی ہے کیونکہ زی نیوزنے دکھائی ہے،
مگر زی نیوز نے اس خبر کو فرضی چلایاتھا، لیکن یہ کیسے معلوم ہواکہ یہ خبر جھوٹی یے؟ توہوایوں اور ایسے معلوم ہوا کہ اینی نیوزکا جو نمائندہ اروناچل پردیش کی خبریں دیتاہے وہ9 اپریل کو ٹوئٹرکیذریعے اس خبر کو پھیلاتا ہیٹوئیٹ کرتاہے کہ پورے اروناچل پردیش میں صرف اورصرف ایک جماعتی کوروناوائرس کامریض پایا گیا ہے، اس لئے زی نیوزنے جو یہ خبر چلائی تھی کہ یہاں 11جماعتی کوروناوائرس کیمریض پائیگئے ہیں وہ سراسرغلط اور فرضی وجھوٹی خبر ہے،اس خبرکیاندربلکل بھی صداقت نہیں ہے،
تو اسکے بعدسے زی نیوزکولوگ ٹرول کرنیلگیپھر زی نیوزکی بدنامی ہونیلگی،اس وجہ سے زی نیوزکی خوب جگ ہنسائی اور بیعزتی ہوئی، زی نیوزاپنیچینل کے ذریعے پھیلائیہوئیاس پروپیگنڈہ کو دئکھتیہوئے نیزاپنی وقاراور میڈیا کی ساکھ کو بچانیکیلئے ملک کے سارے مسلمان اور جماعت والوں سے معافی مانگی ہے،کیا معافی مانگی تھی،، لکھا تھا کہ، اروناچل پردیش میں کوروناوائرس سیمتاثرصرف ایک مریض کی تصدیق ہوئی ہے، بھول کرزی نیوزنیاروناچل پردیش میں تبلیغی جماعت کے11لوگوں کوکوروناوائرس سے متاثرہونیکی خبردکھائی تھی، اس غلطی پرہمیں بیحدافسوس ہے،، اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیاہے، اور ملک کے سارے لوگوں سے معافی مانگی ہے، کہ آپ ہمیں معاف کردیں، ہم سے بھول سے یہ غلطی ہوئی۔لیکن مجھییہ کہنیمیں کوئی ڈر اور جھجھک نہیں ہے کہ یہ تم لوگوں کی بھول نہیں ہے،تم لوگوں کا کام ہی ہے ہندومسلمان کرنا، انکیبیچ تفرقہ پیدا کرنا، اور اس خطرناک ماحول کو مزید خراب کرنا،کہتے ہیں کہ اس وقت ہندوستان میں دو وائرس ہیں،پوراملک دودو وائرسوں سیلڑرہاہے ایک کورونا وائرس، اور ودسرا میڈیا وائرس،
کورونا وائرس سے صرف مریض ہی پریشان اوربیحال نظرآتاہے، مگر میڈیاوائرس سے ساراہندوستان اور مسلمان پریشان نظرآتاہے۔اگرہم اس بیماری سیبچ بھی گئے تو میڈیاوائرس سے نہیں بچ پائیں گے،
اندھوں کی بستی میں ایک ہی روناہے،پنڈت چھینکیں تو کھانسی مولوی چھینکیں تو کوروناہے۔
ہندوستان میں سب سے پہلا کوروناوائرس کاکیس 29 جنوری کو ملاتھا، 24 فروری کو ٹرنپ اور مودی احمدآباد میں لاکھوں لوگوں کا پروگرام کرتے ہیں
آج گجرات میں 421سے زیادہ کیسیسزہیں ان میں سے 194 احمدآبادکیہیں۔سب نمستے ٹرنپ کا اثر ہے، جماعت کا نہیں، ایک طرف جہاں فیک نیوزکی بھرمارہوتی ہے، دوسری طرف حکومت کے اشاریپر خبریں شائع ہوتی ہیں، ایسی سازشی اور خوف زدہ دورمیں اردوڈیجیٹل صحافت کی اہمیت و افادیت مسلم ہے، اورہندوستان میں اردو زبان میں ڈیجیٹل صحافت کی موجودہ صورت حال اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کے زیرِ اثر اس کے امکانات بہت حدتک بہترین ہیں،
اور دراصل صحافت انبیاء کی وراثت ہے۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور حق بات کو سامنے لانے کا کام سماج کے سبھی ذمہ دار شہریوں سیامیدہوتی ہے مگرخاص کر صحافیوں سییہ امیدزیادہ ہی کچھ ہوتی ہے، قران کریم میں اللہ تعالیٰ نیپچھلے انبیاء کرام پر اتارے گئے احکامات کو صحیفہ کہا یے اور صحافت اور صحافی کی اصل عربی کا لفظ صحیفہ ہے۔
۔اگرصحافت کے اجزائپرغوروفکرکرتیہیں تو ڈیجیٹل صحافت کے چار اجزائے ترکیبی ہوتیہیں۔ انفارمیشن (Information)یعنی مواد، پیکیجنگ (Representing)یعنی پیش کش، ٹیکنالوجی اور ریوینیو یعنی آمدنی۔ مگر آج کل جو خبریں ہم تک پہنچتی ہیں وہ دراصل سرکاری ایجنسیوں کے PR Products ہوتے ہیں۔ اصل خبریں وہ ہوتی ہیں جو عوام سے کلی طورپرخفیہ رکھی جاتی ہیں۔ ایک صحافی کا بنیادی کام یہ ہے کہ اصلی خبروں کو باہر نکال کر عوام تک پہنچاۓ۔ یعنی جوخبرچلائیوہ حق وصداقت پر مبنی ہو-اس کام میں رائٹ ٹو انفارمیشن (معلومات کا حق) سب سیبڑا نیزموثر ہتھیار یے۔
ڈیجیٹل صحافت ٹیکنالوجی پر منحصر یے۔ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی بالخصوص انٹرنیٹ پر مکمل دسترس ہے ملٹی میڈیا کا صحیح طریقیسیاستعمال ڈیجیٹل صحافت کی بنیادی ضروریات ہیں۔ڈیجیٹل صحافت کو ریئل ٹائم ہونا چاہئے تاکہ اس کی افادیت واہمیت برقرار رہے۔ ڈیجیٹل صحافت میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کی ساخت انگریزی زبان کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کی گئی ہے اور اردو زبان اور رسم الخط کے تقاضے یکسر مختلف ہیں لہذا اس ٹیکنالوجی سے اردو کو ہم آہنگ کرنے میں خاصی دشواریوں کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ اردو ڈیجیٹل صحافت کو زبان کے معاملے میں لبرل ہوناضروری ہوتاہے۔ عام فہم اور قارئین کو آسانی سے سمجھ میں آنے والی زبان کا استعمال اس میڈیم کو زندہ رکھنے کیلئے نہایت ضروری ہے۔ انفارمیشن کو پیش کرنے سے قبل اس کی جانچ پڑتال بہت ہی زیادہ ضروری شئی ہے۔
خبر انسان کی فطری ضرورت ہے۔ خبروں کے تعلق سے فکرمندی زندگی کی علامت ہے اور لاتعلقی موت ہے۔ اردو دنیا میں خبروں سے بے خبری پربہت تشویش ہوتی ہے ڈیجیٹل صحافت کیعصری تقاضوں کو پورا کرتے ہوۓ یہ بھی ضروری ہے کہ اردو کو زندہ رکھیں اور اردو کی نشرواشاعت نیز بقا کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ اسے عام زندگی میں اتارا جاۓ۔زیادہ سے زیادہ اس کا استعمال کیاجائیاور فری ڈیٹا کے اس عصرمیں جو باتیں خبروں کی شکل میں لوگوں تک پیش کی جا رہی ہیں وہ انتہائی قابلِ تشویش ہیں۔اور قابل افسوس بھی۔ڈیٹا فری ہوسکتا ہے لیکن ہماری مشترکہ تہذیب وتمدن اور ثقافت فری نہیں ہیں۔سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ استعمال سماج کے لیے انتہائی نقصان دہ اور مضر ہے اور یہ لاقانونیت پھیلاتا ہے۔ لہذا خبروں کی ترسیل وارسال سے پیشتر اپنی ذمہ داری اور اپنی صحافی حیثیت کو سمجھنالازم وضروری ہے۔
اردو صحافت آج کسی سے پیچھے نہیں ہے نئی نسل کو صحافت کے میدان میں آنے کی اشدضرورت ہے میڈیا کا غیر جانب دار رہنا ضروری ہے۔ اس میدان میں سرمایہ داروں کی اجارہ داری نہیں ہے۔ اور یہ حکومت کے شکنجے سے باہر ہے۔ اس کی رسائی پوری دنیا میں بکھرے ہوۓ قارئین تک ہے جہاں روایتی میڈیا نہیں پہنچ پاتاہے ڈیجیٹل صحافت کیلئے سب سے بڑا چلینج قارئین کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ قارئین کی عدم سنجیدگی بھی ایک مسئلہ ہے۔ ڈیجیٹل صحافت کے میدان میں ابھی تک سرمایہ کاری کی کمی ہے۔ آج کیاس نفرت وخوف زدہ ماحول میں میڈیا میں اخلاقی اقدار کی پامالی کی جارہی ہے کس طرح ڈیجیٹل میڈیا اخلاقی اقدار کو نظر انداز کر لوگوں کی تکالیفوں کو اپنے صارفین کی تفریح،لہوولعب اور ذہنی عیاشی کا سامان بنا کر پیش کرتا ھے جو انتہائی مذموم نیز افسوس ناک حرکت ہے کس طرح صحافت میں استعمال ہونے والی زبان مختلف میں اپنے معنی بدل دیتی ھے۔ صحافت اور معیشت کے باہمی رشتے اور وجود کی درجہ بندی میں صحافت کی حیثیت مسلم ہے صحافت میں اخلاقیات کا مقام بہت ہی اعلی واونچا ہے۔ کسی بات کو بلا تحقیق آگے بڑھانے سے اجتناب کا حکم بھی ہے اور یہی صحافت کا اصول زریں بھی ہے۔ ڈیجیٹل صحافت اور دوسری قسم کی صحافت میں بعض دفعہ خبریں بعدہ تحقیق فیک نیز غلط ثابت ہوتی ہیں، اس لیے ہمیں کسی بھی خبر کو آگے بڑھانے سے پہلے تحقیق وجستجوکرنا لازمی ہے۔کسی بھی ملک و قوم کی فلاح وبہبودی و ترقی کے لیئے چار اہم ستون گردانیگئیہیں، تعلیم، تجارت، سیاست اور صحافت، ان چاروں ستونوں کے بغیر ترقی کی کوئی عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی۔
نوٹ : مضمون نگارسدھارتھ یونیورسٹی سدھارتھ نگریوپی کے ریسرچ اسکالرہیں۔ ان کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
18 ؍ اپریل 2020
جواب دیں