گرانی سے زیادہ حرص وہوس کی مارسے عوام پریشان

ہندوستان میں گذشتہ چھ دہائیوں کے دوران جس رفتار سے گرانی میں اضافہ ہوا اسی تیزی سے ذرائع آمدنی بھی بڑھے ہیں مثلاً تنخواہوں کی موجودہ شرح کو دیکھتے ہوئے آج کے اخراجات کا تناسب ماضی کے مقابلہ میں بہت زیادہ درہم برہم نہیں ہوا ہے تقریباً یہی حال دوسرے شعبوں کا ہے جہاں آمدنی پہلے کے مقابلہ میں ۱۰ سے ۵۰ گنا تک بڑھ گئی ہے جبکہ گرانی میں بھی تقریباً اسی قدر اضافہ ہوا ہے۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں سوچنا پڑتا ہے کہ پھر آخر اتنی بے چینی اور بے اطمینانی کا سبب کیا ہے جو موجودہ گرانی کی بدولت نظر آرہی ہے غور کرنے سے جو پہلو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ آج کی نسل مہنگائی میں اضافہ اور آمدنی میں کمی کے نتائج سے زیادہ بدکرداری، بددیانتی، حرص وہوس اور مسابقت کے مسلط کئے ہوئے عذاب اور اس کے نتائج سے دوچار ہے۔
آزادی کے بعد ملک کے ہر گوشے اور شعبہ میں تعمیر وترقی کا جو کام انجام دیا گیا ہے اس کی بدولت ناجائز آمدنی کے نت نئے مواقع اور وسیلے دریافت ہوگئے یا کرلئے گئے ہیں جبکہ ان پر نگرانی اور گرفت کا سارا نظام ڈھیلا ڈھالا اور بغیر محاسبہ کے چھوڑ دیا گیا ہے چنانچہ ٹیکسوں میں چوری، ٹھیکوں میں بدعنوانی، اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، اشیاء خورد ونوش میں ملاوٹ اور ایسے ہی دیگر ناجائز آمدنی کے طریقوں کے باعث اربوں، کھربوں روپے کا کالا دھن ملک کی معیشت میں گرد ش کررہا ہے اور اس کا استعمال سامانِ تعیش کے حصول اور تن آسانی کے لئے اندھا دھند طریقہ سے ہورہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قناعت اور اعلیٰ خصائص کی دولت سے محروم سوسائٹی میں آج کا انسان گرانی سے اس قدر پریشان نہیں جتنا کہ اس حرص وہوس میں پاگل ہوا جارہا ہے کہ اس کے پاس ہمسایہ جیسا شاندار مکان کیوں نہیں؟ رنگین ٹی وی اور ریفریجیٹر کا مالک وہ کیوں نہیں؟ پھر یہ سامان تعیش اسے حلال کی کمائی سے نہیں ملتا تو وہ نمبر دو کی آمدنی سے اسے حاصل کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے اور اس طرح بدکرداری اور بوالہوسی کا ایک طوفان ہے جس کے ابلتے ہوئے چشمہ پر اخلاق، کردار، قناعت اور نیک خصلتی کی ہزاروں برس پرانی عمارت تنکوں کی طرح ڈھائی جارہی ہے۔ 
گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات کی جو رپورٹیں ملیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے متمول اور مالدار طبقہ نے بھی لوٹ مار میں کھل کر حصہ لیا ہے، لوگ اپنی کاروں میں بیٹھ کر آتے تھے اور فساد زدگان کا سامان اس میں رکھ کر لے جاتے تھے یہی نہیں موبائل فون سے اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی بلا لیتے تھے۔
اسے اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہی کہاجائے گا تشویش اور خطرے کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ بدعنوانی کے اس سیلاب پر بندھ باندھنے کی کوئی شکل فی الحال موجود نہیں اور اس سے بھی زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ اگر یہ سیلاب تھما نہیں تو کل یہ ہمارے پورے معاشرے اور اس کی جملہ خصائص وخوبیوں کو بہا کر لے جائے گا اور یونان جیسے مغربی معاشروں سے زیادہ بری حالت ہمارے ہندوستانی معاشرہ کی ہوگی لیکن افسوس کہ ہندوتوا کے نشہ میں چور عناصر کو اس اخلاقی زوال کا ذرا بھی احساس نہیں ہے۔(یو این این)

«
»

ہائے اللہ ! یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں ؟؟

شب قدر ۔ایک رات جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے