اگر ان کے مطابق سسرال نہیں ملتا تو علیحدگی ہی صحیح سمجھتی ہیں اور دوسری وجہ ہے کہ والدین کی محبت ایک طرف شادی کے وقت لڑکی کے والدین کہتے ہیں آج سے ہماری لڑکی پرائی ہوگئی ہے اور دوسری طرف بدائی کے دوسرے دن سے ہی بلانے کے لیے جدوجہد کرنے لگتے ہیں، بے جا رسمیں چاند دیکھنے اور سورج گہن جیسی رسموں سے گھر میں گہن لگ جاتا ہے، لڑکی کی ماں خاص طور پر سسرال کے معاملے میں دخل اندازی کرنے لگتی ہے۔ اگر لڑکی کے گھر والے صاحب حیثیت ہیں تو لڑکا بھی خاموش رہتا ہے۔ ’’ایڑا بن کر پیڑہ کھاتا ہے‘‘۔ مگر دیکھنے کو ملتا ہے غریب والدین جو کرائے کے مکان میں رہتے ہیں جن کے گھروں میں برتن نہیں برتن ہے تو ڈھکن نہیں ، بنا پیندے کے لوٹے نا تو بینک بیلنس ہے نا پراپرٹی ہے اور بیٹی کو بھی داماد سے چھڑا کر گھر میں بیٹھا لیا ہے یہ لکیر کے فقیر خود کے کھانے کے واندے اور بیٹی کو بھی سر پر بٹھا لیا ہے۔ میاں بیوی میں بات چیت بند ہے، لڑکا شادی شدہ ہوتے ہوئے ’’کنواروں‘‘ کی زندگی گزار رہا ہے۔ والدین کی ضد ہے اگر ہفتے میں تین دن ہماری لاڈلی بیٹی کو نہیں بھیجو گے تو ہم لڑکی کو نہیں بھیجیں گے، ہم کو بہت لڑکے مل جائیں گے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پہلے رشتہ طے کرنے میں چپل گھس گئی ان کی ضد سے آئے دن میٹنگ بٹھائی جاتی ہے اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے ، کچھ لڑکیاں تو ماں کے یہاں جانے کا بہانہ تلاش کرتی رہتی ہے۔ اگر ہلکا سا بخار یا بیمار پڑتی ہے تو دوا لانے کے لیے میکے ہی جاتی ہے کہتی ہیں میرے کو ماں کے یہاں کے ڈاکٹر کی ہی دوا فائدہ کرتی ہے۔ کچھ ایسی عقل سے پیدل ہوتی ہے جب تک ماں کے یہاں نہیں جاتی ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا، کچھ لڑکی اتنی چالاک ہوتی ہے اپنے ماں باپ بھائی کی ناک اونچی رکھنے کے لیے اپنے شوہر کی محنت کی کمائی سے ڑحدا ہوا سامان کپڑا کھلونا یا الیکٹرونک چیزوں کو میکے سے ملا ہے بتاتی ہے کچھ گھروں میں لڑکی ماں کے یہاں نہیں جاتی تو ماں خود بوریا بستر لے کر بیٹی داماد کے یہاں چلی آتی ہے۔ لڑکا داماد گلف سعودی، دبئی میں ہو تو دونوں ہاتھ میں لڈو۔ ان سب باتوں سے ہی جھگڑے کی شروعات ہوتی ہے۔ شادی صرف دو انسانوں کے درمیان رشتہ قائم نہیں کرتی بلکہ دوخاندانوں کو بھی ملاتی ہے۔ میاں بیوی کا رشتہ خوبصورت اور نہایت ہی نازک رشتہ ہوتا ہے اس کا حسن نکھارنے کے لیے محبت اور اعتماد سے کام لیجئے ورنہ آپ کا بے رویہ آپ کی خوبصورت زندگی کو برباد کرکے رکھ دے گا اتنا میٹھا مت بنو کہ دنیا نگل جائے اور اتنا بھی کڑوا مت بنوں کہ دنیا تھوک دے۔ ان سب باتوں کے بعد لڑکیوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ اگر ان میں اونچے اونچے خواب ہیں یا شادی کے بعد والدین کے گھر میکے میں رہنے کی خواہش مند ہے تو وہ لڑکیاں ہرگز ہرگز شادی نہ کریں بلکہ اکیلے ہی زندگی گزاریں دوسروں کی زندگی جہنم بنانے سے بہتر ہے وہ گھر میں ایک ملازمت بن کر تنہا زندگی گزاریں خود بھی سکون سے رہیں اور دوسروں کو بھی سکون سے رہنے دیں۔ میرے خیالات معاشرے کی اصلاح کے لیے ہیں کسی کی دل شکنی میرا مقصد نہیں۔ طلاق کے بعد دونوں خاندان کو کتنا قلبی دکھ ہوتا ہے۔ جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی رہتی
قدر کھو دیتا ہے روز روز کا آنا جانا ۔
جواب دیں