امریکاکااصل مقصد القاعدہ یاطالبان کوشکست دینانہیں بلکہ افغانستان میں منشیات کاکاروبار،تیل وگیس سمیت معدنیات کے بڑے ذخائراس کانشانہ ہیں ۔این بی سی کادعویٰ ہے کہ امریکا۲۰۱۴ء میں انخلاء کے بعدافغانستان میں اپنے پندرہ ہزارفوجیوں اورسینکڑوں خفیہ اہلکاروں کی مددسے تیل وگیس اورمعدنیات کے ذخائرسمیت افیون کی ملک بھر میں کاشت کے نیٹ ورک کو کنٹرول کرکے نہ صرف اربوں ڈالرزکمانے بلکہ خطے میں چین ،روس،ایران ،پاکستان اور روس سے آزادی حاصل کرنے والی چھ مسلم ریاستوں پربھی نظررکھنے کے ساتھ ساتھ کئی دہائیوں تک اپنی اجارہ داری قائم کرنامقصودہے۔
ایک رپورٹ میں امریکی جریدے سان فرانسسکوکرونیکل نے لکھاہے کہ انخلاء کے سال میں افغانستان میں ریکارڈمقدارمیں افیون کی کاشت اورپروسس سے اس حقیقت کااندازہ لگایاجاسکتاہے کہ افغانستان میں سیکورٹی کی صورتحال کس حدتک خراب ہے اورامریکی اوراتحادی افواج کے لاکھوں سپاہی منشیات کی پیداور کی روک تھام میں کس قدرمخلص اور کامیاب ہیں کہ اس سال اقوام متحدہ کی رپورٹ میں تسلیم کیاگیاہے کہ ۲لاکھ ہیکٹررقبے پرپوست کاشت کی گئی جس کے نتیجے میں ساڑھے پانچ ہزارٹن افیون کی پیداوارہوئی ہے۔ افغانستان کے حوالے سے برطانوی جریدے ’’ٹیلی گراف‘‘نے دعویٰ کیاہے کہ امریکاکے ساتھ سیکورٹی معاہدے پردستخط کے معاملے پرافغان صدرحامدکرزئی اورقبائلی عمائدین کے درمیان شدیدبحث ہوئی ہے۔حامدکرزئی امریکاکے کے ساتھ طے کئے جانے والے معاہدے پرچھان پھٹک کے بعدتاخیرسے دستخط کرناچاہتے ہیں لیکن امریکی رابطوں میں موجودلویہ جرگہ میں شریک تمام قبائلی رہنماء اورعمائدین نے حامدکرزئی پرزوردیاہے کہ وہ امریکاکے ساتھ کئے جانے والے معاہدے پرفی الفوردستخط کردیں لیکن حامدکرزئی فوری فیصلہ کرنے کے حق میں نہیں،اپریل میں صدارتی انتخابات تک اپنی حیثیت اوراہمیت قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
برطانوی جریدے ٹیلی گراف کادعویٰ ہے کہ لویہ جرگہ میں شریک درجنوں افغان عمائدین کے دباؤ پرحامدکرزئی نے انہیں بتایاکہ امریکانہ توان(کرزئی)پراعتمادکرتاہے اورنہ ہی وہ امریکا پراعتماد کرتے ہیں۔اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ اگلی مدت کے الیکشن اورصدرکے انتخابات تک معاملہ کومؤخرکردیاجائے تاکہ نیاافغان صدراپنی سمجھ کے مطابق اس معاہدے پر دستخط کرنے یانہ کرنے کا فیصلہ کرے تاہم امریکی نوازشات کالطف اٹھانے والے درجنوں افغان عمائدین،قبائلی رہنماؤں اورجنگجوسرداروں نے حامدکرزئی پرالگ الگ ملاقاتوں میں زوردیاہے کہ وہ اس معاہدے پرفوری دستخط کردیں لیکن حامدکرزئی نے کسی کادباؤ قبول کرنے سے انکارکردیاہے جس پرنہ صرف افغانستان بلکہ واشنگٹن میں بھی پریشانی اور تشویش کی لہردوڑگئی ہے۔
گلوبل ریسرچ کااپنی اس رپورٹ میں کہناہے کہ افغانستان پرقبضے کیلئے نائن الیون کاڈرامہ رچایاگیاحالانکہ سب ہی جانتے ہیں کہ القاعدہ یا طالبان میں سے کوئی بھی براہِ راست امریکاکیلئے خطرہ نہیں تھااورنہ آج ان کی جانب سے امریکی سلامتی کیلئے کوئی خطرہ ہے لیکن امریکاکی افغانستان پرچڑھائی کامقصدوہاں پوست کی کاشت ،اس کی پروسیسنگ اور فروخت کے اربوں ڈالرزکے کاروبارپرقبضہ جماناتھا،جس میں آج وہ کامیاب ہے۔امریکا کی نظریں ان قیمتی معدنیات پربھی لگی ہوئی ہیں جوافغانستان کے مختلف علاقوں میں تواتر سے دریافت ہورہی ہیں۔ تھنک ٹینک گلوبل ریسرچ کاکہناہے کہ امریکی سی آئی اے نے اس وقت افغانستان میں پوست کی کاشت اورکاروبارپرمکمل قبضہ کیاہواہے اور حیرت انگیزطورپرامریکی واتحادی افواج کی موجودگی میں افغانستان میں ریکارڈ مقدارمیں پوست کی پیداوارکی خبروں سے ثابت ہوجاتاہے کہ سارابکھیڑاسی آئی اے کاہے جوبگڑتی ہوئی امریکی معیشت کوسنبھالادینے کیلئے اس سال پوست کی ریکارڈ پیداوارمیں کامیاب ہوئی ہے۔سی آئی اے پوست کی آمدن سے نہ صرف امریکی معیشت کوبچاناچاہتی ہے بلکہ منشیات کی اربوں ڈالرزکی آمدن سے افغانستان میں فوجی اڈے بناکراس خطے کے تمام ممالک کی نگرانی کرنا بھی مقصودہے۔
ادھرامریکاکے ساتھ معاہدے پردستخط میں تاخیرکے حوالے سے افغان صدرحامدکرزئی کاکہناہے کہ وہ اپریل ۲۰۱۴ء تک اس لئے بھی انتظارکرناچاہتے ہیں کہ افغان عمائدین کے ساتھ عوام بھی دیکھ لیں کہ کہ امریکی حکام افغانوں کے ساتھ کئے جانے والے معاہدوں میں کتنے مخلص ہیں۔اپنی رپورٹ میں گلوبل ریسرچ کے تجزیہ نگار’’سٹیفن لینڈمین‘‘کا دعویٰ ہے کہ حامدکرزئی امریکاکے خلاف بیان بازی اپنے مفادکیلئے کررہے ہیں حالانکہ سب ہی جانتے ہیں کہ وہ خودایک امریکی مہرہ ہیں اوران ہی کی کوششوں کے نتیجے میں افغان عمائدین نے امریکاکے ساتھ ایک ایسامعاہدہ کیا ہے جوعام افغانوں کوبھی قطعاًقبول نہیں ہے کیونکہ اس میں امریکی فوجیوں،تمام سول اورنیم فوجی اہلکاروں کومقامی افغان عدالتوں اور قوانین سے بطورخاص استثنیٰ دلوایاگیاہے جبکہ امریکی اہلکاراس بات کاحق رکھتے ہیں کہ وہ کسی بھی افغان کے گھرکسی بھی وقت گھس جائیں جبکہ امریکی صدراوبامانے افغان سویلین کی ہلاکتوں پرمعافی مانگنے سے بھی انکارکردیاہے۔
جریدہ سان فرنسسکو کرونیکل کادعویٰ ہے کہ امریکی حکام کی جانب سے لویہ جرگے میں شریک ڈھائی ہزارکے لگ بھگ عمائدین سے الگ الگ اوراجتماعی طورپربھی رابطے کئے گئے تھے جس میں ان سے امریکی معاونت کی درخواست کی گئی تھی۔ادھرایرانی نیوزچینل پریس ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں الزام عائدکیاہے کہ امریکی سی آئی اے نے دس سالہ جنگ افغانستان میں پوست کی پیداوارپرمکمل کنٹرول حاصل کرلیاہے اوراب سی آئی اے کسی بھی قیمت پراربوں ڈالرکی کمائی کاذریعہ اپنے ہاتھوں سے کھونانہیں چاہتی۔امریکی سی آئی اے کے مقامی ایجنٹ اورحکام،قبائلی عمائدین کوپوست کی کاشت کی اجازت اس شرط پردے رہے ہیں کہ وہ امریکی اوراتحادی انخلاء کے بعدطالبان،جنگجوؤں اوراسلامی شدت پسندوں کے خلاف کاروائیوں میں امریکیوں کاساتھ دیں گے۔
اب امریکیوں کواس بات کایقین ہوگیاہے کہ ان کی جانب سے قبائلی عمائدین اورافغان زعماء سے کئے جانے والے رابطے رائیگاں نہیں گئے ہیں کیونکہ یہی عمائدین اب کرزئی کو جلد ازجلداس معاہدے پردستخط کرنے پرمجبورکررہے ہیں جس کے تحت امریکی افواج اوراسپیشل اہلکاروں کو افغانستان بھرمیں چھاپوں اورانتہائی ضروری معاملات میں افغان گھروں میں گھس کرمشتبہ افراد اور جنگجوؤں کی گرفتاری کی اجازت ہوگی اورامریکی اہلکاروں کے کسی اقدام کومقامی عدالتوں میں چیلنج نہیں کیاجاسکے گا۔جنگ مخالف آن لائن جریدے ’’اینٹی وار‘‘کاکہناہے کہ کرزئی سے جھگڑنے والے بیشترافغان عمائدین کے امریکی سی آئی اے سے بہت مضبوط روابط ہیں اوروہ براہِ راست یا بالواسطہ طورپرافغانستان میں پوست کی کاشت کے کاروبارسے منسلک ہیں۔
اس خطے میں حالیہ ڈرامائی تبدیلیوں کے بعدجوڑتوڑکی سیاست عروج پرپہنچ گئی ہے ۔ نوازشریف کے ہنگامی چندگھنٹوں کے افغان دورے میں حامدکرزئی کو یقین دلایاہے کہ نیٹوانخلاء کے بعدامریکی افواج کواڈے دینے کامعاہدہ نہ کیا جائے توحزب اسلامی اورافغان طالبان بھی کرزئی حکومت سے تعاون کریں گے ، اس یقین دہانی پرکرزئی نے انتخابات ملتوی کرنے پرغورشروع کردیا ہے ۔ دراصل حامدکرزئی کوبھی یہ احساس ہوگیاہے کہ اپنی جان بچانے اورافغانستان میں پائیدارامن کی خاطرانہیں طالبان اورحزب اسلامی کو مذاکرات کی میزپر لانے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھاناہوں گے جس کے جواب میں کرزئی کی جانب سے مولوی فقیرمحمدکوپاکستان کے حوالے کرنے ،پاکستان اورطالبان کے درمیان مذاکرات کوتسلیم کرنے،افغان سرزمین پربھارتی رسوخ کم کرنے اور پاکستان کو زیادہ اہمیت دینے جیسی شرائط پرآمادگی ظاہرکی گئی ہے۔ذرائع کاکہناہے کہ حامد کرزئی کی ہدائت پر مولوی فقیرمحمدکومشرقی افغانستان کے ایک انتہائی خفیہ مقام پر منتقل کردیاگیاہے کیونکہ افغان حکومت کوخطرہ ہے کہ امریکاانہیں بھی مولوی لطف اللہ کی طرح اغوا نہ کرلے، انہوں نے افغان حکام کو مزیدہدائت کی ہے کہ وزیراعظم پاکستان نوازشریف کے ساتھ جن اقدامات پراتفاق رائے ہواہے اس پرفوری عملدریقینی بنایاجائے۔
ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اسی سبب کنٹرمیں مقیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولوی فضل اللہ دیگررہنماؤں کے سمیت شمالی وزیرستان پہنچ گیاہے اورفوری طورپر شوریٰ کااجلاس بھی متوقع ہے اوردوسری جانب خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھنے والی ایک اہم اوربااثرشخصیت (جومولوی فضل اللہ،مولوی خالدحقانی،قاری ضیاء الرحمان اورمولانااسد سمیت کئی اہم طالبان کے استاد ہیں)وہ نواز شریف کے بھی انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں،نے مذاکرات کیلئے ٹی ٹی پی سے رابطے شروع کردیئے ہیں جبکہ حامدکرزئی نے نہ صرف ان مذاکرات میں مثبت کرداراداکرنے کی یقین دہانی کروائی ہے بلکہ ان مذاکرات کے طے پاتے ہی مولوی فقیرمحمدکوپاکستان کے حوالے کردیاجائے گا۔ اس نئی صورتحال کے بعدیقیناامریکااوراس کے حواری بالخصوص بھارت خاموش نہیں بیٹھیں گے توکیاہمارے ہاں اس سے نمٹنے کی مکمل تیاری کرلی گئی ہے؟
جواب دیں