اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے فلسطین کے ایک معصوم بچے شیخ ابو خضیرکا اغوا کرکے اسے زندہ جلادیتے ہیں۔ (حالانکہ ان یہودی بچوں کا اغواء آپسی رنجش کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے یہ بات پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ اسرائیلی بچوں کا اغوا فلسطینیوں نے کیا ہے) معاملہ یہیں پر تھم نہیں جاتا ہے بلکہ اپنے پورے لاؤ لشکرسے غزہ پٹی حملہ آور ہوچکا ہے اور آج حال یہ ہے کہ غزہ پٹی میں اسرائیلی بم باری سے تقریباً 84جام شہادت نوش فرما چکے ہیں۔ اورپانچ سو کے قریب شدید زخمی حالت میں موت وزیست کی اذیت میں مبتلا ہیں ۔ہر طرف دھواں دھواں ہے۔ پورے غزہ ماتم کدہ میں تبدیل ہوچکا ہے۔۔۔ جگہ جگہ جنازے قبر کے منتظر ہیں۔۔۔ سب سے زیادہ بچے ان ظالموں کے نشانہ پر ہیں۔۔۔ فلسطینی بچوں کو اسرائیل جس طرح موت کے گھاٹ اتار رہا ہے اس کی تازہ ترین رپورٹ پیش ہے ’’انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2013ء کے دوران 18 سال سے کم عمر 199 بچوں کو گرفتار کر جیلوں میں ڈالا گیا۔ فروری 2014ء کے آخر تک سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد دو سو تیس تک جا پہنچی ہے۔تنظیم نے کم سن فلسطینی بچوں کے ساتھ روا رکھنے والے ناروا سلوک پر صہیونی ریاست اور اس کے سیکیورٹی اداروں کے کردار پر کڑی تنقید کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی بچوں سے ان کے جینے کا حق بھی سلب کر لیا ہے۔ بیت المقدس، مغربی کنارے کے شہری علاقوں اور دیہات میں فلسطینی مکانات کی مسماری اور ان کی املاک پر غاصبانہ قبضے جیسے واقعات نے نہ صرف فلسطینیوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے، جسے دوسرے معنوں میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے قرار دیا جا سکتا ہے۔رپورٹ میں اسرائیلی پولیس کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کا حوالہ بھی دیا ہے۔ آٹھ جنوری کو جاری کردہ پولیس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران فوج اور پولیس کے اصلاحی مراکز میں 2451 بچوں کو اصلاحی مراحل سے گذارا گیا ہے۔اسرائیل کی فلسطینی نونہالوں کے خلاف جارحیت کے بعض واقعات نہایت افسردہ اور دل دہلا دینے والے ہیں۔ ان ہزاروں واقعات میں محمد جمال الدرہ کی شہادت کے واقعے کو فلسطینی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 30 ستمبر 2000ء کو یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ننھے جمال الدرہ کو اس کے والد کے بازؤں میں گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔ بچے کو اس وقت گولیاں ماری گئی جب وہ گولی سے بچنے کے لیے اپنے والی کے پیچھے چھپ کے بیٹھا تھا۔‘‘ پوری دنیا میں فلسطینیوں کے حق میں صدائے احتجاج بلند ہیں سوائے مسلم ممالک کے ۔ آخر کب تک غزہ ان بے حس حکمرانوں کے لیے اپنے خون کا عطیہ دیتا رہے گا۔۔۔؟ صدر مرسی کے اقتدار میں آنے سے ان معصوم فلسطینیوں کے چہرے کھل اُٹھے تھے کہ چلو اب تو کوئی ہے جو ہماری دادرسی کرے گا ۔۔۔ کوئی تو ہے جو ہمارے حق کے لیے لڑائی میں ہمارا ساتھ دے گا ۔۔۔؟ لیکن وہ بھی خوشی بھی ان سیکولرزم کے پاسداروں کو راس نہ آئی اور صدر مرسی جو باضابطہ ان کے سیکولرزم کے طور طریق کو ا پناتے ہوئے برسراقتدار ہوئے تھے ان کا تختہ اُلٹ دیا۔ ان بے چارے فلسطینیوں کی خوشی کافور ہوگئی کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ السیسی یہودی نواز ہے وہ ہماری کبھی مدد نہیں کرسکتا ۔ اور ہوبھی یہی رہا ہے الیسیسی اس بربریت پر بالکل خاموش ہے بولے بھی تو کیا بولے ان کی زبان سے تو وہی ادا ہوتا ہے جو حاکم وقت امریکہ چاہتا ہے۔ ہمیں ان سے امید بھی نہیں ہے ۔ اور یہی حال سعودی عرب کا بھی ہے جو اگر چاہے تو غزہ پٹی کے مسلمانوں کے لیے بہت کچھ کرسکتا ہے لیکن وہ بھی اپنے بے حسی کا ثبوت پیش کرکے اپنے ضمیر کا غلام ہے۔’’ اللہ رحم کرے ہمارے حکمرانوں پر کاش کہ کوئی ا یوبی پھر ہمارے یہاں آئے اور ہمیں زندان سے نکالے ‘‘یہ بول ہماری ایک بہن ام الثورہ کے ہیں ان کاکہنا ہے کہ ہم ہر روز خدا سے یہ فریادکرتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ایک نہ ایک دن ہماری دعا ضرور مقبول ہوگی۔ ہم ہندی مسلمان بھی صرف ان کے لیے دعا کرسکتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ہمیں دوا بھی کرنی چاہئے اور ہم یہ کرسکتے ہیں جب ہمارے اندر ان کی تڑپ محسوس ہوگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امت مسلمہ ایک جسم کے مانند ہے اگر جسم کے کسی بھی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم درد سے کراہ اُٹھتا ہے لیکن ہم ہندی مسلمانوں پر بھی بے حسی وبے غیرتی کی دبیز چادریں تنی ہوئی ہیں ہم غزہ پٹی کے مجبور مسلمانوں کی مدد تو دور اپنے ملک کے گجرات، آسام، مظفر نگر کے خونین فسادات میں بھی ان کی امداد کو نہیں گئے؟ ۔ عمومی طور پر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ امریکی بربریت یا اور کسی بھی ظالم کی طرف سے ظلم ہو ہمارے رہنما، ہماری تنظمیں صبر کی تلقین کرتی ہیں۔۔۔ واللہ اگر یہ حادثہ ان کی ماں بہنوں کے ساتھ پیش آئے تو یقیناً ان کے صبر کا پیمانہ بھی چھلک جائے گا ۔۔۔اگر تھوڑی سی بھی غیرت کی رمق باقی ہوگی تو۔۔۔؟ نہیں تو یہاں جعفر وصادق جیسے لوگوں سے کوئی امید بھلا ہم کب کرتے ہیں۔ آج ہم نے اپنی بے غیرتی کو صبر کا جامہ پہنا دیا ہے۔ آج ہمارے اندر غیرت نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے اگر ہوتی تو ہم اسی طرح آئے دن ہر ملک ،ہر جگہ ، ہر قبصے میں اپنی ماؤں بہنوں کی لُٹتی ہوئی عصمت پر خاموش بیٹھے رہتے۔۔۔ بلکہ حضور ﷺ کے اس عمل کے مطابق اس یہودی بستی پر یلغار کرتے جس نے ایک صحابیہ کی چادر سے چھیڑ چھاڑ کی تھی، اُس 17سالہ محمد بن قاسم کی طرح ان کی مدد کو آتے جو ایک فا طمہ کی آواز پر راجہ داہر کی فوج کے چھکے چھڑا دےئے تھے۔ اُس طارق بن زیاد کی طرح اپنی کشتی جلادیتے جنہوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے اپنے آپ کو داؤ پر لگا دیاتھا۔ اُس ایوبی کی طرح سینہ سپر ہوجاتے جس کا مشن صرف مسجد اقصیٰ کی بازیابی اور فلسطینی مسلمانوں کو یہودی پنجے سے نجات دلانا تھا۔ کاش ہم اپنی بہن اُم الثورہ کی امیدوں پر اُتریں ہزاروں ام الثورہ کی پکاریں گونج رہی ہیں ۔۔۔ہزاروں ام الثورہ کے بچوں کی دلدوز چیخیں سنائی دے رہی ہیں ۔۔۔ ہزاروں ام الثورہ ماؤں کی پرنم آنکھیں ہم سے امید لگائے ہوئے ہیں۔اور اپنے بے حس حکمرانوں کی بے ضمیری پر خون کے آنسو رو رہی ہیں ۔ اے اللہ ان بے کس ماؤں کی امداد فرما جنہیں عید کی خوشی میں ان کے معصوم لخت جگر کے خون میں لت پت ٹکڑے دکھائی دے رہے ہیں۔
جواب دیں