(فکروخبر/ذرائع)غزہ پر اسرائیلی قابض افواج کی وحشیانہ بمباری، انسانیت سوز محاصرہ اور مکمل فوجی یلغار نے ظلم و بربریت کی وہ مثال قائم کر دی ہے جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ صہیونی ریاست نے جہاں ایک طرف معصوم فلسطینی عوام کو اجتماعی بھوک، پیاس اور بیماریوں کے شکنجے میں جکڑا ہے، وہیں سچ اور انصاف کی آواز بلند کرنے والے صحافیوں کو بھی وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنا رہی ہے۔
اتوار کے روز جبالیہ النزلہ میں واقع اپنے گھر پر ہونے والی بمباری میں معروف صحافی اور "برق غزہ” نیوز ایجنسی کے ڈائریکٹر حسان مجدی ابو وردہ اپنے اہل خانہ سمیت شہید ہو گئے۔ اس المناک واقعے کے بعد 7 اکتوبر 2023 سے شہید ہونے والے فلسطینی صحافیوں کی تعداد 220 ہو چکی ہے، جو قلم اور کیمرے کے ذریعے حق و صداقت کا پرچم بلند کرتے ہوئے صہیونی جارحیت کی بھینٹ چڑھ گئے۔
دوسری جانب غزہ پر اسرائیلی محاصرے کو 84 روز مکمل ہو چکے ہیں، جس دوران تقریباً 46,200 امدادی ٹرک غزہ پہنچنے چاہیے تھے، مگر صرف 100 ٹرک داخل ہو سکے – جو انسانی ضرورت کا صرف 1 فیصد ہے۔ اسرائیلی ریاست نے نہ صرف خوراک، ادویات اور ایندھن کی ترسیل روکی، بلکہ اس پر مکمل کنٹرول کر کے "بھوک کو ہتھیار” بنا لیا ہے۔ غذائی قلت اور طبی سہولیات کے فقدان نے اب تک 58 افراد کو بھوک سے مار دیا، جبکہ 242 افراد دوا اور خوراک کی کمی سے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ 300 حاملہ خواتین کے حمل ضائع ہو چکے ہیں۔
انسانی المیے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فوج نے غزہ میں اپنی پوری اسٹینڈنگ آرمی اور بکتر بند بریگیڈز تعینات کر دی ہیں، جن میں گولانی، گیواتی، پیرا ٹروپرز، کمانڈو، نہال، کفیر، 7ویں، 188ویں اور 401ویں بریگیڈز کے علاوہ ریزرو یونٹس بھی شامل ہیں۔
حکومتی میڈیا دفتر اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں نے اس ہولناک صورت حال پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ، صحافتی انجمنوں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے، تاکہ اس نسل کشی کو روکا جا سکے، صحافیوں اور معصوم شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے، اور جنگی جرائم کے مرتکب اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کو عالمی عدالتوں میں انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔