’’غاروں کا قصاب ‘‘

اطالوی ملٹری ٹربیونل نے پریبکے کے خلاف الزامات کی سماعت 1996ء میں شروع کی تھی۔ 1998ء میں اپیل کی سماعت پر بھی اس نے اپنی ظالمانہ کارروائیوں پر پچھتاوے کا اظہار کرنے سے انکار کیا تھا۔ایرش پریبکے کو دوسری عالمی جنگ میں قتل عام میں ملوث ہونے پر 1998ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس پر الزام ثابت ہوا تھا کہ وہ مارچ 1944ء میں روم میںآرڈیٹینے کے غاروں میں ہونے والے قتل عام میں ملوث تھا جس کے نتیجے میں 75 یہودیوں سمیت 335 افراد مارے گئے تھے۔ پریبکے کو ’’آرڈیٹینے کے غاروں کا قصاب‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔اس نےآرڈیٹینے کے غاروں میں لوگوں کو ان کی گردنوں میں گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا۔پریبکے خانہ جنگی کے بعد فرار ہو کر ارجنٹائن گیا۔ اس نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا کہ وہ تو صرف احکامات بجا لاتا رہا۔اس نے اٹلی کے ملٹری ٹربیونل کے سامنے ایک بیان میں اعتراف کیا کہ’’حکم براہ راست برلن میں ہٹلر کی جانب سے ملتے تھے۔ ان سے انکار کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف ایس ایس کارروائی کر سکتی تھی۔‘‘عدالت میں اْس نے کہا ’’اگر میں اس خوفناک عمل کو روک سکتا تو روک دیتا۔ میری موت سے ان معصوموں کی جانیں نہیں بچتیں۔‘‘طویل العمری اور خراب صحت کی وجہ سے اس کی عمر قید کو نظر بندی میں تبدیل کر دیا گیا تھا جو وہ اپنے وکیل پاوآلو یکینی کے گھر پر کاٹ رہا تھا۔اپریل 2011ء میں اٹلی کے ایک میگزین اوگی نے اس کی کچھ تصاویر شائع کر دی تھیں جن میں اس سابق نازی اہلکار کو ایک ریستوران میں دوستوں کے ساتھ بیٹھے، موٹر سائیکل چلاتے اور ایک سپر مارکیٹ میں خریداری کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ایک اطالوی میگزین میں شائع ہونے والی تصویروں میں پریبکے کوآزاد گھومتے دکھانے پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔آخر کار موت کا یہ سوداگر خود ہی اس کا شکار ہو گیا۔یہ عبرت کا نشان ہے اور ظالموں کو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔

«
»

نئے بھارت کا مسلمان چیلنج اور خطرات

ڈرون حملے غیر قانونی اور بعض جنگی جرائم کے زمرے میں بھی آتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے