مذاکرہ کا وقت تین بجے شام بتایا گیا تھا۔ خیال تھا کہ رات تک کوئی بتادے گا کہ کون کون آیا اور کیا کیا ہوا؟ رات تک جب کوئی خبر نہیں آئی تو صبر کرلیا اور سو گیا دوسرا دن بھی آدھا گذر گیا تب میں نے ہی وصی صاحب کو فون کرکے معلوم کیا انہوں نے بہت تکلف کے ساتھ بتایا کہ آپ کے مضمون سے سب سے زیادہ حسام صاحب نے اختلاف کیا اور بار بار مداخلت کی، آخر میں رائے صاحب نے بھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اسے کمیونل بتایا۔ صبح کے اودھ نامہ میں جو بہت محتاط الفاظ میں اس کی روداد چھپی تھی اس میں بھی صرف ایک لفظ تھا کہ حفیظ کے مضمون پر حسام صاحب نے اسے منفی سوچ قرار دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے علاوہ اور کیا ہے کہ اردو کے معروف صحافی اور مسلم مسائل کے نبّاض حسام الاسلام منفی سوچ اور مثبت سوچ کے استعارے استعمال کریں وہ بھی ایک کم علم حفیظ نعمانی کی تحریر کے لئے؟ انہوں نے ہی مجھے یہ بھی بتایا کہ حسام صاحب نے ڈاکٹر ہارون رشید کو حکم دیا کہ اسے اودھ نامہ میں چھاپیئے گا نہیں۔ شاید ان کا خیال تھا کہ اس کے چھپتے ہی وہی ہوگا جو 31 جولائی 1965 ء کو ندائے ملت کے دفتر حفیظ نعمانی کے گھر اُن کے پریس اور ڈاکٹر آصف قدوائی کے گھر ہوا تھا کہ ہر جگہ 300 مسلح سپاہی پانچ پانچ ٹرک میں بھرکر آئے تھے اور رات بھر تلاشی کے بعد سب کو گرفتار کرکے لے گئے تھے پھر حفیظ 9 مہینے جیل میں پڑے رہے تھے۔
یہ تفصیل سن کر میں لرز گیا اور میں نے اپنے اس مضمون کو پھر پڑھا جس کا عنوان تھا ہاشم پورہ کے ذمہ دار راجیو گاندھی۔ جب مجھے اس میں کچھ نہیں ملا تو میں نے بخدا پھر پڑھا اور پھر پڑھا اور جب یہ سطریں لکھنے بیٹھا ہوں تو پھر پڑھ کر بیٹھا ہوں اور میں چیلنج کرتا ہوں کہ لکھنؤ ہائی کورٹ میں جو بدتر سے بدتر، سخت سے سخت اور سب سے بڑے مسلم دشمن اور اردو دشمن وکیل ہوں ان میں سے تین وکیلوں کا پینل بنا دیا جائے اس کے اخراجات کانگریسی وزیروں سے سوٹ کیس بھر بھرکر تحائف لینے والے عزیزم حسام الاسلام صاحب ادا نہ کریں فقیر حفیظ نعمانی کے کوئی دو بیٹے ادا کردیں گے۔ ان سے کہیں کہ اس کے خلاف مقدمہ قائم کریں اور حفیظ کو سزا دلادیں اور میں حفیظ نعمانی اس کے لئے بالکل تیار ہوں کہ عمر کے آخری سنہ و سال جیل میں گذاروں اور زیادہ بڑا دہشت گرد ثابت ہوجاؤں تو افضل گرو کی طرح جیل میں ہی ایک گڈھا کھودکر داب دیا جاؤں۔
حسام صاحب تو جتنے بڑے صحافی ہیں وہ ہم خوب جانتے ہیں اگر بات صرف ان کی ہی ہوتی تو خدا کی قسم ہم ہنس کر ٹال دیتے اس لئے کہ ایسے صحافیوں کو بہت جھیلا ہے۔ لیکن جب کہا گیا کہ مسٹر وبھوتی نرائن رائے نے بھی اسے کمیونل انداز بتایا تو تیر کلیجے کے پار نکل گیا۔ مسٹر رائے نے بھی تو وہی کہا ہے کہ۔ عدالت کے فیصلے پر انہیں حیرت نہیں ہے اور ہم نے بھی یہی کہا ہے کہ جیسے ہندوؤں کے خلاف مسلمانوں کے ہر مقدمہ میں ہوتا ہے وہی اس میں ہوا۔ ہم نے کہا ہے کہ ایک یا 50 پولیس والے اپنے کسی بڑے افسر کے حکم کے بغیر ایک گولی بھی نہیں چلا سکتے۔ یہی رائے صاحب نے کہا ہے کہ ایک سب انسپکٹر کی یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ اتنی سنگین واردات انجام دے سکے۔ یقیناًاس میں بہت بڑے لوگوں کا منصوبہ اور سازش کارفرما رہی ہوگی۔ انہوں نے فرمایا کہ پھر سے تفتیش ہو تو سچ ظاہر ہوجائے گا۔ رائے صاحب کو بھی معلوم تھا کہ اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ اس کے مجرم ہیں اور انہوں نے راجیو گاندھی کے کہنے سے یہ سارا خون بہایا ہے۔ لیکن عمر بھر سرکاری نوکری کرتے رہنے کی وجہ سے نام لینے کی ہمت نہیں کرسکے۔ انہوں نے بڑے لوگوں کا منصوبہ اور سازش کہہ کر بات ختم کردی اور ہم نے سب کے نام گنادیئے۔
اور آج ہم یہ بھی لکھنے کی جرأت کررہے ہیں کہ اگر بابری مسجد کا تالا نہ کھلتا اور پوجا شروع نہ ہوتی تو مسجد شہید بھی نہ ہوتی اس شہادت کے ذمہ دار نرسمہا راؤ ہی نہیں راجیو گاندھی بھی ہیں۔ جو دہلی میں بیٹھے رہے اور میرٹھ نہیں گئے۔ ہم وبھوتی نرائن رائے صاحب کے بہت قدردان ہیں انہوں نے کم از کم اتنی ہمت تو کی کہ وہ سب لکھ دیا جو ہر فساد کے موقع پر پولیس کرتی ہے اور انہوں نے کم از کم ہماری اس طرح کی سوگ سبھاؤں میں شریک ہوکر اتنا تو کردیا جتنا اردو کے ادیب اور شاعر مسلمانوں سے واہ واہ لینے اور نذرانے قبول کرنے کے لئے اردو کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں اور ان کے بچے ان کی ہزاروں اردو کتابوں کو ردّی میں بیچ کر کمرہ میں من پسند چیزیں رکھ دیتے ہیں۔ ہم تو دیش پتا مہاتما گاندھی کے بھی اس قول کو اسی خانہ میں رکھتے ہیں جو انہوں نے کانگریسیوں سے کہا تھا کہ حکومت کرنا ہے تو عمر فاروقؓ کی سیرت پڑھو اور ان کی سی حکومت کرو۔ باپو تاریخ کا وہ واقعہ تھا جب حضرت عمرؓ نے رات میں گشت کے دوران ایک گھر کے بچوں کو بھوک سے روتا دیکھا تو بیت المال سے ایک بوری اناج کی اپنی پیٹھ پر رکھوائی اور اس گھر کی طرف جانے لگے۔ غلام نے عرض کیا۔ امیرالمومنین یہ مجھے لے جانے دیجئے آپ ساتھ میں تشریف لے آیئے۔ حضرت عمر نے فرمایا تھا کہ کیا میدان حشر میں بھی تو میرا بوجھ اٹھائے گا۔ باپو نے واقعہ تو پڑھ لیا لیکن کیا انہوں نے معلوم کیا کہ میدان حشر کیا ہے اور وہاں کون ہوگا؟ وہ تو جب گولیاں کھاکر گرے تو موجود لوگوں نے بتایا کہ ان کے منھ سے ’’ہے رام‘‘ نکلا تھا۔
ہم اور ہمارے لاکھوں کم عقل مسلمان بھائی بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ فلاں غیرمسلم نے حضور اکرمؐ کی شان میں یہ لکھا ہے اور یہ لکھا ہے۔ فلاں عیسائی ڈاکٹر یا ہندو ویدوں نے لکھا ہے کہ روزے صحت کے لئے کتنے مفید ہیں۔ ملک میں ہونے والے نعتیہ مشاعروں میں نہ جانے کتنے ہندو شاعر نعت پڑھتے ہیں اور سر پر ادب میں رومال رکھ لیتے ہیں۔ ہم مسلمان انہیں ہزاروں روپئے نذرانہ دیتے ہیں اور ہفتوں ایک دوسرے کو سناتے ہیں کہ ایک ہندو نے کیسا شعر کہا ہے؟ ایک سال جلسہ شہدائے اسلام کے آخری دن نعتیہ مشاعرہ میں جب پکارا گیا کہ اب حضرت سکھدیو پرشاد بسملؔ الہ آبادی ہدیۂ نعت پیش کریں گے تو ایک سفید بالوں والے شاعر پدھارے بلامبالغہ ان کی مونچھیں بالوں کا چھپر تھیں۔ اور جب انہوں نے نعت رسولؐ شروع کی تو ان کی پاٹ دار آواز سے ماحول گونج گیا اور جب انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ
اگر اب حشر بھی مجھ کو اٹھائے اُٹھ نہیں سکتا
بڑی مشکل سے ڈیوڑھی ہاتھ آئی ہے محمدؐ کی
تو کئی طرف سے آواز آئی کہ خدا کی قسم ان کی تو شفاعت کی جائے گی۔ شاید ابھی بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے فردوس ادب کا نعتیہ مشاعرہ 11 ربیع الاوّل کی شب میں امین الدولہ پارک میں سنا ہوگا۔ چار پانچ سال کے بعد اس کے پوسٹر میں چھپا تھا کہ کسی ایسے شاعر کو مدعو نہیں کیا جائے گا جو شراب پیتا ہو۔ اس کا مقصد بھی ہندو شاعروں سے معذرت کرنا تھی اور وجہ یہی تھی کہ وہ مسلمانوں سے بڑھ کر شرک کی حد تک کہہ دیتے تھے اور کم علم مسلمان آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے۔
ہم دل پر جبر کرکے لکھ رہے ہیں کہ ہمارے محترم وبھوتی نرائن رائے صاحب کو کئی راتوں تک نیند نہیں آئی وہ تیرتی ہوئی لاشیں دیکھتے رہے۔ ہر بات سے وہ واقف ہیں تو اس پورے عرصے میں انہوں نے کیا کیا؟ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ اور سیکڑوں فوٹو رائے صاحب کی کتابیں اور تقریریں تو مقدمہ پر کوئی اثر ڈال نہیں سکیں اگر وہ سروس میں رہتے ہوئے ان وکیلوں کی مدد کردیتے جو مسلمانوں کا مقدمہ لڑرہے تھے تو بہت کچھ ہوسکتا تھا۔ رہی یہ بات کہ اب پھر الف سے سبق پڑھا جائے نئے سرے سے تفتیش شروع کی جائے۔ تو تین تو مرگئے اب کی تفتیش میں وہ 16 بھی مرجائیں گے اور ان 42 کے رونے والے بھی۔ بس یہ رہ جائے گا کہ مسٹر رائے نے سزا دلانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر کوئی زندہ ہی نہیں رہا تو پھانسی کسے دلاتے۔ میں وصی صدیقی اور سید وقار رضوی سے شرمندہ ہوں کہ میری تحریر کی وجہ سے ان کا جلسہ بدمزہ ہوا۔ یا ان کی وجہ سے جن کی سمجھ میں میری بات نہیں آئی۔
جواب دیں