’’غلط کا روں کو سخت سزا ضرور ملے گی‘‘

اس قتل کے مرتکب افسروں،ا ہلکاروں اور ان کے کمانڈروں نے بڑی ہنر مندی کے ساتھ ا پنی درندگی پر پردہ ڈالتے ہوئے مشہور کر دیا کہ یہ لوگ بم د ھماکے میں ہلاک ہوئے ہیں۔معروف ا مریکی میگزین ’’ٹائم‘‘نے ما رچ کے شمارے میں شائع ہونے والی تفصیلی رپورٹ میں عینی شا ہدوں کے بیانات اور ویڈیو فلم کی مدد سے ا نکشاف کیا کہ مرنے والے بم دھما کے کا نہیں بلکہ قریب سے گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔سب کے سروں اور سینوں میں گولیاں لگی تھیں۔واقعہ کی فوری تحقیقات کا حکم دے دیا گیا اور شہنشاہ عالم پناہ نے کہا ہے کہ ’’غلط کا روں کو سخت سزا ضرور ملے گی‘‘لیکن آج تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ 
۳۹ برس پہلے لیفٹیننت کیلی نے بھی ایسے ہی بھیانک جرم کا ارتکاب کیا تھا اور اسے بھی ایسی ہی’’ سخت‘‘ سزا ملی تھی ۔یہ کہا نی ایک انگر یزی اخبار میں شائع ہو ئی ہے جسے نجا نے آج دہرانے کوکیوں جی چا ہتا ہے۔ با جوڑ کا وہ سفا کا نہ واقعہ جس نے دل و دماغ اور روح تک کو جھنجھو ڑ کر رکھ دیا تھا ،شاید وہ یتیم، معصوم اور بے گناہ مفلسی کے ہا تھوں مجبور بچے جو مسجد میں قرآن حفظ کرنے اور دینی تعلیم کیلئے جمع تھے اور شہنشاہ عالم پناہ کی بہادر سپاہ کے ایسے ہی ظالمانہ حملے کے میزائل کا شکار ہو گئے تھے،قطار اندر قطار خون میں لت پت چھو ٹے چھو ٹے ان گنت ٹکڑوں میں نا قابل شاخت حالت میں کھڑے آج بھی مجھ سے سوال کر رہے ہیں کہ جس ’’قلم‘‘ کی رب العزت نے قسم کھا ئی ہے تمہارے ہا تھوں میں آ کر اس میں لغزش کیوں آ جا تی ہے؟قصر سفید کے فرعون کے حکم کی بلا چون و چراں تعمیل اور اس کی بزدل سپاہ کے ہا تھوں سر انجام پا نے وا لے قبیح جرا ئم کوآخر ہما را فاسق کمانڈو نے ا پنے کھاتے میں کیوں ڈال لیاتھا؟ایک ہی ظا لم کے ہا تھوں سر انجام ہو نے وا لے واقعات میں کس قدر مماثلت ہو تی ہے۔
انگر یزی اخبارنے یہ کہا نی شا ئع کر نے کی جرأت تو کر لی لیکن کیا میرے ملک کے غیور عوام کے ووٹوں سے منتخب جمہوری حکومتیں بھی اپنے ا مریکی دورے میں کسی ایجنڈے میں یہ شامل کر نے کی ہمت کی کہ وہ ا پنے ان بے گناہ مظلو موں کی ہلا کت کے معا ملے کو اٹھا ئے اور ایسے ظا لموں کو بھی سخت سزا کیلئے کسی عدالتی کا روائی کا بندوبست کر سکے؟یہاں تو جمہوریت کوسب سے بڑاانتقام کہنے والے خود این آر او کی پاکستان کش جیکٹ پہن کر پاکستان کے حکمران بن گئے۔شاہانہ اقتدارکی غلا ما نہ ذہنیت ہا تھوں میں ما نگنے کا کشکول تھام کر سب سے پہلے خودداری کو دفن کرتے ہیں پھر اس کے بعد آقا کے تمام احکام کی تعمیل باعث فخر سمجھی جا تی ہے ۔
یہ ۱۴ ما رچ ۱۹۶۸ء کی ایک بد قسمت سہ پہر کا ذکر ہے!
ا مریکی فوج کے گیا رہویں ڈویژن کی چا رلی کمپنی کے مسلح سپاہی و یت نام کے صوبہ’’کوانگ نا گی‘‘کے علا قے سے گذر رہے تھے کہ سڑک کے کنا رے نصب ایک بم پھٹ جا نے سے ایک ا مریکی فوجی ہلا ک ہو گیا۔دو دن کی مسا فت کے بعد چارلی کمپنی ’’ما ئی لا ئی‘‘ گا ؤں کے قریب سے گزری تو ۲۴ سا لہ پلا ٹون کما نڈر لیفٹیننٹ و لیم کیلی نے ا نتقام لینے کی ٹھا نی۔اس کمپنی کو ویت نام میں آئے ہو ئے صرف چار ماہ ہوئے تھے لیکن اس مختصر سی مدت میں وہ کئی د یہا توں کو نذر آتش کر نے ،کئی نہتے افراد کے پر خچے اڑانے،کئی کنوؤں میں زہر ملا نے اور کئی عورتوں کی بے دریغ عصمتیں لو ٹنے کے ’’کا رنا مے‘‘ سر انجام دے چکی تھی۔
’’ما ئی لا ئی‘‘ کے خوفزدہ لو گوں نے گھروں سے نکل کر کھیتوں اور ٹیلوں کے نشیب میں پناہ لے لی۔پلا ٹون کما نڈر لیفٹیننٹ و لیم کیلی کی سر براہی میں فو جیوں نے ا نہیں گھیرے میں لے لیا ۔گا ؤں کے سب لوگ نہتے تھے ،کسی کے ہا تھ میں لا ٹھی تک نہ تھی۔بھا ری تعداد نہتے بچوں،عورتوں اور بوڑھوں کی تھی۔ لیفٹیننٹ و لیم کیلی نے حکم دیا کہ ان کو بھون ڈا لو ۔گولیوں کی بوچھا ڑ نہتے بچوں،عورتوں اور بوڑھوں پر شروع کر دی گئی۔یہ بے گناہ بچے،عورتیں اور بوڑھے گر نے،‘ تڑپنے او رپھڑکنے لگے۔کیلی خود ا پنی آٹو میٹک را ئفل کی میگزین پے در پے خالی کر تا اور نشا نے لگاتا رہا۔ذرا دیر بعد مکمل خا مو شی چھا گئی جو کبھی کبھار و لیم کیلی اور اس کے سا تھیوں کے ا بلیسی قہقہوں سے ٹوٹ جا تی تھی ۔’’ما ئی لا ئی‘‘ کے چھوٹے سے قصبے کی کل تعداد چھ سو کے لگ بھگ تھی ۔آج وہاں بنائی گئی یادگار پر امریکی قتل عام کا لقمہ اجل بن جانے وا لے ۵۰۴/ افراد کے نا م کنندہ ہیں ،ان میں ۱۸۲ خواتین(جن میں۱۷حاملہ تھیں )۱۷۳ کمسن بچے تھے ،۱۵ کے قریب جسما نی معذور تھے اور ۶۰ سال سے زا ئد عمر کے ۶۰ بوڑھے بھی شا مل تھے۔
امریکی فوج نے بڑی فنکا ری اور مہا رت سے یہ معا ملہ دبا دیا۔اکتوبر ۱۹۷۰ء میں ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں شائع ہو نے وا لی سٹوری نے اس بہیما نہ قتل عام کا بھا نڈہ پھوڑ دیا۔دنیا بھر میں کہرام مچ گیا ۔پلا ٹون کما نڈر لیفٹیننٹ و لیم کیلی کو گر فتار کر کے ا مریکہ لا یا گیا۔۱۷ نومبر ۱۹۷۰ء کو ’’ما ئی لا ئی کے قتل عام ‘‘کے حوا لے سے کو رٹ ما رشل کی کاروائی شروع ہوئی۔ عدالت ایک کر نل،چار میجر اور ایک کپتان پر مشتمل تھی۔سماعت کے دوران سفاک و لیم کیلی کو اسی عمارت کے آراستہ و پیراستہ اپارٹمنٹ میں رکھا گیاجہاں اسے دوستوں سے ملنے،دعوتوں کا اہتمام کر نے اور اپنے مداحوں کو خطوط لکھنے اور ٹیلیفون کالز کا جواب دینے کی مکمل آزادی تھی۔تحقیقاتی کمیٹی کے سر براہ کرنل نے بتایا کہ ہلاک ہو نے والے تقر یباً سبھی افراد بچے،بوڑھے اور عورتیں تھیں ۔چا رلی کمپنی کے ایک سپا ہی،ڈینی کو نٹی نے گواہی د یتے ہو ئے کہا کہ’’ پلا ٹون کما نڈر لیفٹیننٹ و لیم کیلی اور میڈلو سا تھ ساتھ کھڑے ہو گئے، وہ لوگوں پر سیدھا نشانہ لیکر فائر کر نے لگے،چیخ و پکار کی آوازیں اٹھنے لگیں ۔لوگ لڑکھڑانے،چکرانے اور زمین پر ڈھیر ہو نے لگے۔کیلی اور میڈلو خاص طور پر سروں کا نشانہ لیکر گو لیوں کی بو چھاڑ کر تے ہوئے قہقہے لگا رہے تھے۔ میں نے سروں کے ٹکڑے،گوشت کے لوتھڑے،کٹے ہو ئے با زو اور جسم کے دوسرے اعضاء فضا میں اڑتے ہوئے دیکھے۔‘‘ 
اس قتل عام میں شریک پال میڈلو نے گواہی دیتے ہو ئے کہا کہ’’میں نے بھی اس قتل عام میں حصہ لیا تھا۔کیلی نے مجھے ایسا کر نے کا حکم دیا تھا۔وہ خود بھی اپنی آٹو میٹک رائفل سے لوگوں کو نشانہ بنا رہا تھا ،میں اس وقت کیلی کے سا تھ کھڑا تھا، فا ئرنگ سے مر نے والے بچوں،عورتوں اور بو ڑھوں کی تعداد اس سے زیادہ تھی جتنی اس فرد جرم میں بتا ئی جا رہی ہے ‘ ‘ میڈلو کو وعدہ معاف گواہ کا درجہ دے دیا گیا اور قتل عام میں شریک با قی فو جیوں سے کو ئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔
ولیم کیلی نے ا پنے تحفظ میں کہا ’’میرے سا منے بچے،بوڑھے اور عورتیں نہیں تھیں بلکہ میرا دشمن کھڑا تھا ،میں نے ا پنے بڑوں کے حکم پر عمل کیا ،مجھے یہی تر بیت دی گئی تھی کہ را ستے میں آنے وا لی ہر شے اور ہر شخص کوغارت کر دو۔میں نے کوئی غلط کا م نہیں کیا ،اسی تر بیت کا عملی مظا ہرہ کیاہے۔‘‘
یہ امریکی تا ریخ کا سب سے طویل کورٹ ما رشل تھا۔ایک سال سا ڑھے چا ر ماہ بعد ۲۹ ما رچ ۱۹۷۱ء کو فو جی عدالت نے ولیم کیلی پر فرد جرم عائد کر دی اور اسے کم از کم ۲۲ بے گناہ افراد کا قاتل قرار دے دیا گیا۔ا گلے دن ولیم کیلی نے کمرہ عدالت میں کھڑے ہو کر اپنی صفائی میں ایک بار پھر وہی دلیل دہرائی جو وہ اپنے بیان میں پہلے کہہ چکا تھا ’’وہ میرے دشمن تھے اور مجھے ا نہیں مارڈا لنے کی تر بیت دی گئی تھی۔‘‘
یکم ا پریل ۱۹۷۱ء کو فو جی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ فو جی عدالت نے ولیم کیلی کو عمر قید کی سزا سنائی۔اسے جیل بھیج دیا گیا۔دو دن بعد ۳ /اپریل ۱۹۷۱ء کو اس وقت کے شہنشاہ عا لم ر چرڈ نکسن نے حکم جا ری کیا کہ لیفٹیننٹ ولیم کیلی کوجیل کی بجائے گھر منتقل کر دیا جائے جہاں وہ ا پنے پر آسائش گھر میں ا پنے پیاروں کے ساتھ رہنے لگا۔دو سال بعد ۱۹۷۳ء میں ولیم کیلی کی سزا کم کر کے دس سال کر دی گئی ۔ایک سال بعد ۹ ستمبر ۱۹۷۴ء کو ولیم کیلی پیرول پر ر ہا کر دیا گیا۔اس نے مجموعی طور پر پچاس گھنٹے جیل اور سا ڑھے تین سال ا پنے پرُ آسائش گھر میں ا پنے پیاروں کے ساتھ نظر بندی میں گزارے ۔پا نچ سو ویت نا میوں کے خون نا حق اور قتل عام پر پچاس گھنٹوں کی جیل کے معنی یہ ہیں کہ لیفٹیننٹ ولیم کیلی کوہر ویت نا می کے قتل کے عوض پرمحض صرف چھ منٹ قید بھگتنا پڑی ۔
ولیم کیلی اب۷۹ سال کا ہو گیا ہے ۔وہ اب سلطنت امریکہ کا معزز شہری ہے اوراپنی اولاد کے ساتھ کو لمبس میں زیورات کی کئی ایک دکانوں کامالک ہے۔
۴۴سال بعدعراقی قصبے حدیثہ میں ،سات سال پہلے پا کستان کے قبائلی علاقے با جوڑ میں بھی ’’مائی لائی‘‘کی کہا نی دہرائی گئی ۔معروف اور مشہور ا مریکی صحافی رابرٹ فسک کا کہنا ہے کہ ’’یہ تو پہاڑ کے مقابلے میں محض ایک رائی ہے‘‘ایسی کہا نیاں تو فلوجہ و بغداد کے ہر کو چے ،ہر گلی اور ہر گھر میں بکھری پڑی ہیں۔
اور ایک مرتبہ پھرقصرسفیدکے فرعون ،شہنشاہ عا لم نے کہا ہے کہ’’غلط کا روں کو سخت سزا ملے گی۔‘‘
سنا آپ نے شہنشاہ عا لم نے پھرکہا ہے کہ’’غلط کا روں کو سخت سزا ملے گی۔‘‘غلط کاروں کویقیناًسخت سزا ملے گی کہ میرے رب ذوالجلال کے ہاں دیر تو ہے اندھیر نہیں۔اس کا ’’کورٹ ما رشل‘‘ تو بڑا ہی عبرتناک ہو تا ہے۔وہاں تو مظلوم و بے بس کشمیریوں اور افغان مجا ہدوں کی داستا نیں فرد جرم کے طور پر محفوظ ہو رہی ہیں ۔وہاں اس کنٹینر کا حساب بھی دریافت کیا جائے گا جس میں ۲۵۵ مجا ہدوں کو بند کرکے ایک کرین کے ساتھ اٹھا کر زمین سے چند فٹ بلند کر کے نیچے آگ کے الاؤ دہکا دیئے گئے اور اس دہکتی آگ کی حدت سے ان سب کو بھون کر رکھ دیا گیا،وہاں تو یہ بھی پوچھا جائے گا کہ اس ظلم کا انداز تم نے کہاں سے سیکھا کہ مخالف افراد کے گلے میں تیز دھار نوکیلے آلے سے سوراخ کر کے پٹرول انڈیل کر آگ دکھا دیتے تھے اور ان افراد کے دہماکوں سے پھٹنے پر تم لطف اندوز ہو تے تھے۔کشمیر جسے جنت نظیر سے موسوم کیا جا تا تھا اس کو جہنم کس نے بنایا ہے،لا کھ سے زیادہ بے گناہ کشمیری قربان ہو گئے ہیں۔ا نسا نیت سے عا ری ہندو بنئے کی عسکری فورسزنے پندرہ ہزار سے زائد جوان اور بوڑھی کشمیری خوا تین کو بلا تمیز عصمت دری کے ہتھیار سے ا دھیڑ کر رکھ دیاہے۔وہاں یقیناًان سے بھی باز پرس ہو گی جو آج جہاد افغانستان کو محض اس لئے مطعون کر رہے ہیں کہ قصر سفید میں بیٹھا ہوا فرعون جن کو وہ خود کل ’’مجاہدین‘‘ کے لقب سے یاد کرتا تھا آج ان پر دہشت گرد کا لیبل لگا کر ا پنے استعماری عزا ئم پورے کرنے کیلئے اس نے ’’تورابورا‘‘میں ایک بھیانک جرم کاارتکاب کیااوراب دس سال کے بعد نکلنے کیلئے بات چیت کیلئے خواستگارہے۔
نہ جا اس کے تحمل پر کہ بے ڈھب ہے گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا
افغانستان میں توجہاد کی شروعات ہوئی ہیں،یہ سلسلہ ختم کہا ں ہوگا کوئی نہیں جا نتا ۔دنیا کی تما م مظلوم اقوام نے اسی میں اپنی عافیت جا نی کہ ا پنے آج کو قربان کر کے اپنے کل کو سرخرو کیا جا سکتاہے۔پا کستان کی عمارت جغرا فیائی لحاظ سے اس وقت دو بلند و بالا عمارات کے درمیان کھڑی ہے۔ایک عمارت کے زمیں بوس ہونے پر اس کے ملبہ کا پا کستان پر گرنا ایک قدرتی امر تھا۔ہما رے ذمہ داروں نے ملبہ کے گر نے کی سمت کا صحیح اندازہ نہ لگایااور آج دوسری بلند عمارت کے مکیں جن کی سلا متی اور بلندی کیلئے ان غیور ا فغان کے سا تھ سا تھ ہم نے بیش بہا قربا نی دی ،جس چمن کی اپنے خون سے آبیاری کی آج اس چمن کے گل و گلزار کے کا نٹوں پر بھی ہما را حق تسلیم نہیں کیا جا رہا۔پا کستان کے ایک صاحب نظر کو دیوار برلن کا ٹکڑا موصول ہوا،گویا ایک نظریہ کے پاش پاش ہونے کا پیغام پہنچا یا گیا کہ اب دوسرے مسلم کش نظریہ کے ختم ہو نے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اندھی قوت کا حامل سرخ ر یچھ کو تاشقند اور ماسکو میں پناہ نہ مل سکی اب بھلا اس لا دینی سرما یہ داری نظام کو واشنگٹن اور لندن کیا سہا را دیں گے۔ ذمہ داری سنبھا لنے کا وقت آن پہنچاہے،آگے بڑھ کر حکمت اور بصیرت کے سا تھ کر دار ادا کر نے کا ا نتظار ہو رہا ہے۔وقت ہا تھ سے نکلا جا رہا ہے۔آپ کو مطلع کر نا ہما رے ذمہ تھا صاحب! آگے میرے رب کی مرضی!

«
»

حد قذف(احکام و شرائط)

’’بوکوحرام تنظیم ،،کاوجود :منظر پس منظر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے