اور سرکاری نظم ونسق میں ان کا کردار بڑھتا جارہا ہے اس کے علاوہ بھی ہندوستانیوں نے کئی دوسرے شعبوں میں اپنی مہارت کا ثبوت دیکر ملک وقوم کا نام روشن کیا ہے خاص طور پر سائنس ، انجینئرنگ ، علاج ومعالجہ، آئی ٹی اور صنعتوں میں ان کی کارکردگی قابل تعریف رہی ہے۔ اسی لئے ان کی طاقت وصلاحیت کو برسرعام سراہا جانایا ان سے اپنے وطن کی تعمیر وترقی میں مدد کی توقع کرنا مناسب حکمت عملی ہے، جو وزیراعظم نریندرمودی اپنے غیر ملکی دوروں میں کررہے ہیں۔
یہ بھی ایک سچائی ہے کہ اب تک غیر مقیم ہندوستانیوں سے اپنے مادر وطن کو وہ فائدہ نہیں پہونچا جو پہونچنا چاہئے تھا، ہندوستان کی اقتصادیات جو آج دنیا کی چوتھی اقتصادی طاقت ہے اگر اس میں غیر مقیم ہندوستانیوں کا سرمایہ مزید لگنے لگے تو اس سے دونوں کو فائدہ ہوگا، ہمسایہ ملک چین کے مقابلہ میں غیر مقیم ہندوستانی اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے میں کافی پیچھے ہیں، ہندوستان میں جہاں غیر مقیم ہندوستانیوں کی طرف سے اب تک صرف پانچ ارب کی سرمایہ کاری ہوئی ہے، وہیں پوری دنیا کے مختلف علاقوں کے ۵ کروڑ چینی ۶۵ ارب ڈالر کا سرمایہ چین میں لگاچکے ہیں، جب چینی نسل کے لوگ اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرکے چین کی اقتصادیات کو رفتار دے سکتے ہیں تو ہندوستان کے لئے غیر مقیم ہندوستانی پیچھے کیوں ر ہیں؟ یہاں یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ بیرونِ ملک میں آباد چینی اور یہودیوں کا اپنے ملک کی تئیں جو جذبہ ہے وہ ہندوستانیوں میں کم کیوں نظر آتا ہے؟ سب جانتے ہیں کہ موجودہ اسرائیل کی طاقت کا راز غیر یہودیوں کی سرمایہ کاری میں پوشیدہ ہے اسی طرح چین میں سرمایہ کاری کا جو رجحان ہے اس میں ۷۰ فیصد حصہ غیر مقیم شہریوں کا ہے۔
حکومت ہند کی طرف سے دوہری شہریت فراہم کرنے کا ایک مقصد تو یہی ہے کہ جو ہندوستانی دوسرے ملکوں کے شہری بن کر وہاں کی ترقیات میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ ہندوستان کو بھی اپنا سمجھیں اور چین واسرائیل کی طرح اپنی کمائی کا ایک حصہ ہندوستان میں لگائیں۔ یہ یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ضرورت ہے۔ اور اس کو پورا کرنے کے لئے غیر مقیم ہندوستانیوں کی کانفرنسیں ہی کافی نہیں ہونگی، نہ ان کو صرف دوہری شہریت سے نوازے جانے سے کام چلے گا، بلکہ اس کے لئے ان دقتوں کو سمجھ کر دور کرنا پڑے گا، جو آج ہندوستان میں غیر مقیم ہندوستانی قدم قدم پر محسوس کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر غیر مقیم لوگوں کو ہندوستان میں سرمایہ کاری کرتے وقت جہاں سخت پالیسی اور لال فیتا شاہی کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے وہیں مناسب قانونی تحفظ بھی انہیں حاصل نہیں ہوتا، ان سب سے بڑھ کر ہندوستان کے لاعلاج مرض بدعنوانی، رشوت ستانی اور جانبداری سے جب ان کا واسطہ پڑتا ہے تو وہ گھبراجاتے ہیں، اگر ان کمیوں اور کوتاہیوں پر حکومت ہند قابو پالے تو بیرونی سرمایہ کاری کا آج ملک میں انبار لگ سکتا ہے۔
جواب دیں