غدری بابوں کے سو سال

پھر بھی ان نوجوانوں نے شمالی امریکہ سے لیکر جالندھر، ہوشیارپور، فیروز پور، لاہور، پشاور اور یہاں تک کہ لائل پور اور سرگودھا کے چک نمبر چار میں بھی غلام ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کی آگ جلائی ہوئی تھی۔
ان نوجوانوں میں کسان مزدور بھی تھے، تارکین وطن مزدور پیشہ بھی تو کولمبیا اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے نکلے ہوئے اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی۔ ان میں صرف سکھ اور پنجابی ہی نہیں تھے۔ ان میں برکت اللہ اور کریم بخش جیسے مسلمان بھی تھے تو ونیش گنیش پنگلے بالمعروف وی جی پنگلے جیسے مہاراشٹری، کانسی رام اور امریکہ میں غدر پارٹی کے امریکہ میں بانی لالہ ہردیال اور تارک امرناتھ جیسے بنگالی ہندو تو ویساکھ سنگھ ،سوہن سنگھ بھکنا، کرتار سنگھ سرابھا اور بھگت سنگھ جیسے سینکڑوں سکھ نوجوان بھی۔یہ گردوراروں میں بھی تھے تو پشاور سے کلکتے تک ریلوے یونین ، ہندوستانی رائل نیوی کے دیسی جہازیوں میں بھی تو پنجاب کی چھاؤنیوں، کیلیفورنیا کے کھیتوں میں اور وینکوور کینیڈا میں بھی۔
امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں اب بھی وہ جگہ ایک یادگار کے طور پر موجود ہے جسے غدر پارٹی ہال کہا جاتا ہے جہاں آج سے ٹھیک ایک سو سال قبل ایسے نوجوانوں نے اردو اور گورمکھی زبانوں میں ایک اخبار ’غدر‘ کے نام سے شروع کیا تھا جس سے آگے چل کر غدر پارٹی کی بنیاد پڑی۔
یکم نومبر انیس سو تیرہ کو امریکہ میں بنیاد رکھی جانیوالی غدر پارٹی کا یہ سوواں سال ہے ہیں اور دنیا بھر میں غدری بابوں کے چاہنے والے اس کی صد سالہ تقریبات منا رہے ہیں۔یہ بھی عجب کہانی ہے کہ بیسویں صدی کی دوسری دہائی کی شروعات میں جب ابھی انٹرنیٹ تھا نہ مواصلات کی جدید ذرائع تو غدر اخبار امریکا میں سان فرانسسکو سے سفر کر کے جالندھر، لدھیانہ، لاہور، ہوشیار پور، امرتسر، فیروز پور یہاں تک کہ لائلپور اور سرگودھا کے چک نمبر چار، سندھ میں میر پور خاص، ٹنڈو جان محمد اور سانگھڑ کے گاؤں گوٹھوں تک جا پہنچتا تھا۔
اور تو اور اس کی خفیہ ترسیل کی گواہی تب سرگودھا کی فوجی چھاونی میں بھی ملتی ہے۔
سان فرانسسکو میں غدر پاٹی یادگار دستاویزات میں اپنے ماتھے پر ’انگریزی راج کا دشمن‘ کا نعرہ سجائے ہوئے بیک وقت اردو اور گرمکھی زبانوں میں اس ’غدر‘ نام کی لوح والے ہفت روزہ اخبار کا وہ پہلا پرچہ موجود ہے جس میں میں بہادر سپاہیوں کی بھرتی کے نام سے اشتہار کچھ یوں چھپا تھا: تنخواہ : موت، قیمت: شہادت، پنشن: آزادی، اور میدان جنگ: ہندوستان۔
غدر پارٹی کی یادگار
سان فرانسسکو میں غدر پاٹی یادگار دستاویزات میں اپنے ماتھے پر ’انگریزی راج کا دشمن‘ کا نعرہ سجائے ہوئے بیک وقت اردو اور گرمکھی زبانوں میں اس ’غدر‘ نام کی لوح والے ہفت روزہ اخبار کا وہ پہلا پرچہ موجود ہے جس میں میں بہادر سپاہیوں کی بھرتی کے نام سے اشتہار کچھ یوں چھپا تھا: تنخواہ : موت، قیمت: شہادت، پنشن: آزادی، اور میدان جنگ: ہندوستان۔
غدر پارٹی پر مورخوں کا کہنا ہے اخبار ’غدر‘ سے اکثر ہندوستانی محبت کرتے تھے۔ اگرچہ غدر پارٹی کا مقصد ہندوستان سے بذریعہ طاقت انگریزوں کی حکومت کا بستر گول کرنا تھا لیکن انکا اولین مقصد ہندوستان کو بدیسی حکمرانوں سے آزادی دلوانا تھا۔
غدر پارٹی امریکہ میں تارکین وطن پنجابی و بنگالی قوم پرست ہندوستانیوں نے بناء تھی۔ یہ پارٹی اپنے جوہر میں غیر فرقہ وارانہ یا سکیولر تھی۔ جیسے غدری بابے مشرقی پنجاب کے بہت بڑے کسان لیڈر سوہن سنگھ بھکنہ نے کہا تھا ’غدری نہ سکھ تھے نہ پنجابی۔ غدر پارٹی کا مذہب فقط حب الوطنی تھا۔‘ یہی وجہ تھی کہ اکالی تخت نے غدریوں کے خلاف فتویٰ دیا تھا کہ غدری سکھ پنتھ سے نہیں۔
بھگت سنگھ بلگہ نے غدریوں کے متعلق ایک دستاویزی فلم میں اپنی یادداشتوں میں بتایا تھا کہ پنجابی غدری پنجابی زبان سے پیار وعشق ضرور کرتے تھے اور انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ہر پنجابی کو لکھنا پڑھنا سیکھنا چاہیے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ غدر پارٹی کا امریکہ جیسے ملک میں بنیاد رکھنے کا مقصد دنیا کی اس سب سے پرانی جمہوریت کی آزادیوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا تھا جس سے غدری کیلیفورنیا سے لیکر کلکتہ، ہانگ کانگ اور جاپان سے لے کر مشرقی و جنوبی افریقہ اور یورپ کے ساحلوں تک ہندستانیوں میں اپنی آزادی کی جدوجہد کا پیغام پہنچا سکیں لیکن بقول غدریوں کے میدان جنگ ہندوستان ہو۔
غدر پارٹی کا جوبن بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے دس برسوں تک ہندوستان میں رہا تھا اور ہر ہندوستانی کے زد زبان عام تھا لیکن اس کا مرکز شمالی امریکہ ہی تھا۔
آج بھی کیلیفورنیا میں غدر پارٹی شروع کرنے والے کریم بخش کی قبر موجود ہے۔پنجابی شاعر اونکار سنگھ ڈومیلی نیویارک میں مجھ سے کہہ رہے تھے ’غدری بابوں نے جو مشن شروع کیا تھا وہ ابھی ختم نہیں ہوا۔‘میں سوچ رہا تھا کہ آزادی میں کام آنیوالے لدھیانے اور جالندھر کے نوجوانوں کے بجائے جالندھری جرنیلوں نے ملک پر قبضہ کیا اور لاہور کی سڑک پر بھی غدری بابوں کا نام رکھنے کا ملک پاکستان روادار نہیں۔

«
»

اخوان کوابھی اوربڑی قربانی کی ضرورت ہے!

صلیبی انجام کی جانب بڑھتا اسرائیل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے