جرمن اسکولوں میں اسلام کی تعلیم

"سفیر” معاصر مذہبی تعلیم کے ضمن میں صفِ اوّل کی کتاب شمار ہوتی ہے کیونکہ اس میں فروعی مسائل کی بجائے معاشرے کے مرکزی دھارے کی زندگی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ ارلینگن نورمبرگ یونیورسٹی کے جرمن نو مسلم ہیری ہارون بحر کا کہنا ہے ” یہ کتاب پڑھانے کا مقصد طلبہ کو محض عقیدے کی تعلیم دینا نہیں بلکہ انہیں عقیدے سے متعلق ذمہ دارانہ فیصلے کرنے کا اہل بنانا ہے۔”
ہارون بحر انٹر ڈسپلنری مرکز برائے اسلامی مذہبی تعلیم میں تدریس کے پیشے سے وابستہ ہونے کے خواہشمند افراد کو پڑھاتے ہیں۔ وہ ارلینگن ، بے روتھ، فیورتھ، نورمبرگ اور اس سال کے ا?غاز سے میونخ میں قائم ہونے بیورین اسکولوں میں اسلام کی کلاسوں کے لئے تدریسی پلان تیار کرنے والوں میں بھی شامل ہیں۔ 
ہارون کا کہنا ہے کہ اسلامی تعلیم کی کلاس میں طلبہ کواپنا مذہب انتہائی قریب سے سمجھنے کا موقع دینا چاہیے۔ یونیورسٹی کے اس لیکچرر کا یہ بھی خیال ہے کہ قرا?ن کے صرف لغوی معانی پڑھانا تدریس کا پائیدار نمونہ نہیں ہے کیونکہ قرا?ن کی ہر تحریر کا ایک تاریخی حوالہ ہے۔ 
ابھی تک جرمنی کے سرکاری اسکولوں میں اسلام کو ایک باقاعدہ مضمون کی حیثیت سے صرف ا?زمائشی طور پر پڑھایا جارہا ہے۔ جرمنی کے ا?ئین کی شق 7 کے پیراگراف 3 کے مطابق مسلمانوں کو ریاست کی زیرِ نگرانی اپنے بچوّں کو اسلامی تعلیم دینے کا حق حاصل ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے عیسائیوں کو حاصل ہے۔ لیکن مسلمانوں میں مناسب شریکِ کار نہ ملنے کے باعث گزشتہ کئی عشروں سے یہ حق استعمال نہیں کیا جا رہا تھا۔
1999 میں نارتھ رہائن۔ ویسٹ فیلیا میں کم و بیش 140 اسکولوں میں تقریباً دس ہزار مسلم طلبہ کو اسلامی تعلیم دینے کا ا?غاز کیا گیا۔ تاہم یہ اسلامی تعلیم جرمن ا?ئین میں تجویز کئے گئے مذہبی نصاب کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔ لیکن اب ا?کر اسلامی تنظیموں کے اشتراک سے مذہبی تعلیم کا نصاب وضع کیا جارہا ہے۔ 
بیوریا، بیدن۔ ورتمبرگ اور رہائن لینڈ۔ پیلیٹینیٹ نے ایلیمنٹری اور ہائی اسکولوں میں ا?زمائشی طور پر یہ پروگرام شروع کئے ہیں۔ اسی طرح پچھلے سال سے شلزوِگ۔ ہولسٹین کی ریاست میں بھی علما کے تعاون سے مذہبی تعلیم دی جارہی ہے۔ 2003 سے بریمن نے بھی ریاستی اسکولوں میں اسلام کی تعلیم کا اپنا تصور وضع کیا ہے۔
برلن کے اسکولوں میں جو ماڈل نافذ کیا گیا ہے وہ ہنوز متنازعہ ہے کیونکہ وہاں کے لگ بھگ تیس سرکاری اسکولوں میں مذہبی تعلیم کی نگرانی صرف اسلامی فیڈریشن کے سپرد ہے جب کہ برلن کی ریاست کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ البتہ اسلامی فیڈریشن جرمن سیکورٹی سروسز کے تحت چلنے والے نگران ادارے ملّی گوروْز کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اسلامی فیڈریشن جو تعلیم دے رہی ہے وہ طلبہ میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے اور ا?زادانہ سوچ کو فروغ دینے کے مقاصد پورے نہیں کرتی۔
جرمنی کی باقی تمام ریاستوں میں نصابِ تعلیم ماہرین کی ٹیمیں اور اسلامی تنظیمیں تعلیمی اور ثقافتی امور کے حکام کے تعاون سے تیار کر رہی ہیں۔
مارچ 2008 میں وزیرِ داخلہ وولف گینگ شاؤبل کی زیرِ صدارت اسلام پر جرمن کانفرنس منعقد ہوئی جس میں جرمنی کے تمام سرکاری اسکولوں میں جرمن زبان میں اسلام کی تعلیم کا جامع پروگرام شروع کرنے پر زور دیا گیا۔ ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے کہ جرمن یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل اساتذہ کے توّسط سے جرمن زبان میں اسلامی تعلیم دینے سے ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔
اس کے برعکس کوئی بھی یقین سے نہیں بتا سکتا کہ مختلف مساجد میں قائم کئے گئے مذہبی اسکولوں میں کیا پڑھایا جا رہا ہے۔ روایتی طور پر وہاں طلبہ کو قرا?ن کی سورتیں اور ا?یات صرف یاد کرائی جاتی ہیں لیکن ان کے بارے میں تفصیل سے کچھ نہیں بتایا جاتا۔ جب کہ دوسری طرف سرکاری اسکولوں کے اساتذہ بچّوں کو روشن خیال اسلام کی تعلیم دیں گے جسے جرمنی کے حالات کے مطابق ڈھالا گیا ہے۔
اسکولوں میں اسلامی کلاسیں شروع کرنے کے بارے میں والدین کا ردِّ عمل عمومی طور پر مثبت ہے اور وہ اس نئے مضمون کو اکثریتی ثقافت کی طرف سے مسلمانوں کے ثقافتی پس منظر کو تسلیم کئے جانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
لیکن اب بھی جس کی سب سے زیادہ کمی محسوس کی جارہی ہے وہ ہے ایک قابل مذہبی استاد۔ بعض ماہرین کا اندازہ ہے کہ قابل اساتذہ کی مناسب تعداد دستیاب ہونے میں ابھی دس سال لگیں گے۔ فی الوقت پورے جرمنی میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ طلبہ کے لئے صرف ڈیڑھ سو اساتذہ ہیں جن میں سے 80 نارتھ رہائن۔ ویسٹ فیلیا میں ہیں۔ جب کہ مجموعی طور پر اس سے کم از کم دس گنا زیادہ تعداد درکار ہے۔ اسلام کے اساتذہ کو تربیت دینے کے پروگرام صرف میونسٹر، اوسنا بروک اور ارلینگن کی یونیورسٹیوں میں پیش کئے جارہے ہیں۔ لہٰذا ابھی وہ وقت دور ہے جب پورے ملک میں اسلامی کورسز کو عمومی نصاب کا حصّہ بنا دیا جا ئے گا۔ 
نوٹ: کلاڈیا میندے فری لانس رایٹر ہیں

«
»

لاکھوں انسانی جانوں کے محافظ ڈاکٹر یوسف حمیدکو نوبل پرائز کیوں نہیں؟

مالکی اقتدار کا خاتمہ ایک ڈراونے خواب سے نجات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے