جنرل السیسی کو مصر کا اگلا صدر منتخب کرنے کی مہم

یہ ستم ظریفی ہے کہ جہاں ایک طرف معزول صد ر محمد مرسی کے مخالفین اس مہم میں سرگرم ہیں دوسری طرف اپنے آپ کو روشن خیال اور سیکولر کہلانے والے وہ عناصر بھی جنہوں نے صدر حسنی مبارک کی فوجی آمریت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا اور سینکڑوں جانوں کی قربانی دی تھی ’ جنرل عبدالفتاح السیسی پر تعریفوں کے ڈونگرے برسا رہے ہیں اور یہ دلیل دیتے نہیں تھکتے کہ جنرل السیسی نے صدر محمد مرسی کی برطرفی اور اخوان المسلمین کے خلاف سخت اقدامات میں جس استقامت سے کام لیا ہے ملک کو اس وقت ایسی ہی مضبوط قیادت کی ضرورت ہے۔بہت سے وہ مبصرجو مصر کی سیاست کے درون خانہ رازوں سے آگاہ ہیں ان کی رائے ہے کہ مصر کے عوام کے دلوں میں ایک مضبوط طاقت ور مطلق العنان
حکمران کی خواہش تڑپتی رہتی ہے اور دراصل یہی وجہ ہے کہ 1952ء4 میں جمال عبدالناصر کی قیادت میں فوجی انقلاب کے بعد سے مصر پر فوجی آمر حکمرانی کرتے آئے ہیں اور غیر معمولی طور پر ان کی حکمرانی کا خاصا طویل دور رہا ہے۔ ناصر نے 14 سال تک حکمرانی کی ’ انوار السادات 11سال تک صدر رہے اور حسنی مبارک کا دور 30سال پر محیط رہا۔
سعودی عرب ’ قطر اور خلیج کی دوسری ریاستوں کے حکمرانوں کی بھی یہ خواہش ہے کہ جنرل السیسی مصر کے اگلے صدر منتخب ہوں۔وہ اس رو کو روکنے کے لیے ایک اہم بند سمجھتے ہیں جو عرب انقلاب کے بعد مشرق کی جانب بڑھتی نظر آتی ہے۔ بہت سے لوگوں کو اس پر تعجب ہے کہ سعودی عرب اور قطر نے صدر مرسی کی برطرفی کے بعد اخوان المسلمون کی مخالفت میں نہایت شدت سے آواز بلند کی ہے یہاں تک اسے دہشت گرد جماعت قرار دیا ہے اور ’’ دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ میں مصری افواج کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا۔ان خبروں کے بعد کہ اس بات کا امکان ہے کہ صدر مرسی کی برطرفی کے بعد اخوان کے حامیوں کے مظاہروں کو کچلنے کے لیے جنرل السیسی کی مسلح افواج کی خونریزی سے امریکا ناخوش ہے اور ممکن ہے کہ وہ مصری فوج کو ایک ارب تیس کروڑ ڈالر سالانہ کی جو امداد دیتا ہے وہ اسے بند کر دے یا روک دے۔ اس کے جواب میں سعودی عرب نے مصری فوج کو 5ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا اور قطر نے 3ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔پچھلے دنوں ایک سعودی ٹی وی چینل کے ممتاز کویتی عالم طارق السیدون کی
برطرفی کو خاصی اہمیت دی جارہی ہے۔ طارق السیدون پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ اخوان المسلمون کے حامی ہیں۔ اس سعودی چینل کے مالک سعودی فرما نروا شاہ عبداللہ کے بھتیجے شہزادہ ولید بن طلال نے طارق السیدون کی برطرفی کے خط میں لکھا تھا کہ ان کے ادارہ میں اخوان المسلمون کے رکن کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔اسی دوران شاہ عبداللہ نے تمام عربوں پر زور دیا تھا کہ وہ مصر میں عدم استحکام پیدا کرنے والوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں۔اشارہ ان کا اخوان المسلمون کی طرف تھا۔
جنرل عبدالفتاح السیسی کے عزائم پر سے ذرا سا پردہ اس وقت سرکا جب انہوں نے مصر کا نیا آئین مرتب کر نے والی 50رکنی کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ انہوں نے مسلح افواج کے سربراہ اور وزیر دفاع کی حیثیت سے جو اقدامات کیے ہیں ان پر ان کے خلاف مقدمات سے آئین میں استثنی دیا جائے۔دوسرے معنوں میں وہ صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے اقدام کے خلاف قانونی چیلنج سے بچنا چاہتے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ عمرو موسی نے جو آج کل آئین ساز کمیٹی کے سربراہ ہیں اس تجویز کر رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین میں کسی فرد کا نام لے کر قانونی چارہ جوئی سے استثنی قرار نہیں دیا جاسکتا یہ استثنی صرف ایک ادارہ
کو دیا جاسکتاہے۔
اس مسئلہ کے علاوہ نئے آئین میں مصر کی مملکت کی مذہبی حیثیت پر بھی بحث جاری ہے۔ 923‘ 1923’ 1930’ 1956’ 1964 اور 1971 کے آئین میں اسلام کو مملکت کا مذہب اور عربی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ اسلامی قانون کے اصول ’ قانون سازی کی اساس ہوں گے۔ صدر سادات کے دور میں 1980ء4 میں یہ شق کہ اسلامی قانون کے اصول قانون سازی کی اساس ہوں گے حذف کردی گئی تھی۔ پچھلے سال صدر مرسی کے دور میں جو آئین منظور ہوا اس میں کہا گیا تھا کہ اسلام مملکت کا مذہب ہو گا عربی اس کی سرکاری زبان ہوگی اور اسلامی قانوں کے اصولوں کی بنیاد سنی مکتب فکر
کے مطابق ہوگی۔اب نئے آئین میں یہ شق حذف کیے جانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ’’ اسلامی قانون کے اصولوں کی بنیاد سنی مکتب فکر کے مطابق ہو گی۔‘‘د??لیل یہ دی جارہی ہے کہ دوسرے مکاتب فکر اور خاص طور پر مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے یہ شق حذف کرنی ضروری ہے۔
عام طور پر فوجی آمروں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کا زور توڑنے کے لیے ان میں اختلافات اور خلفشار پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ اخوان المسلمون کے بعض منحرف رہنماوں کو اکسا کر اخوان میں خلفشار پیدا کے لیے ایک نئی تنظیم قائم کی گئی ہے۔نام اس نئی تنظیم کا المنتدی دعم المقاومہ الاسلامیہ QAWEMرکھا گیا ہے یعنی اسلامی مزاحمتی جماعت۔ سربراہ اس کے اخوان کے ایک سابق رہنما محمد الحدیدی ہیں یہ تنظیم جو گزشتہ اگست میں قائم کی گئی ہے اخوان کی ناکامیوں کے بارے میں محمد مرسی اور ان کی قیادت کو دوش دیتی ہے۔ QAWEMاگلے صداری انتخاب میں عبدالمنعم ابو الفتوح کی حمایت کے حق میں ہے۔ عبدالمنعم اخوان کے رہنما تھے انہیں گزشتہ صدارتی انتخاب میں اخوان کی شوریٰ کی اجازت کے بغیر انتخاب لڑنے پر اخوان سے خارج کر دیا گیا تھا۔عبوری حکومت کو امید ہے کہ اس نئی تنظیم سے اخوان کو کمزور کیا جاسکے گااور اس کے خلاف کاروائی آسان ہو جائے گی۔
گو صدارتی انتخاب اگلے سال ہوگا لیکن ابھی سے جنرل عبدالفتاح السیسی کے حق میں مہم جاری ہے اور ان کی تعریفوں کا ہر سمت شور و غوغا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ملک کو دہشت گردی کا جو خطرہ ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جنرل السیسی سے بہتر کوئی شخص نہیں ہے۔ بہت سے لوگ انہیں جمال عبدالناصر سے ملا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس طرح ناصر نے اخوان کو زیرکیا تھا اسی طرح السیسی میں اخوان کو مات دینے کی صلاحیت ہے۔ جنرل؂عبدالفتاح السیسی کے حق میں اس قد تند و تیز مہم جاری ہے کہ میدان میں ان کا کوئی حریف ؂نظر نہیں آتا۔ حتی کہ حسنی مبارک کے دور کے وزیر اعظم جنرل شفیق کا کہنا ہے کہ اگر جنرل السیسی صدارتی انتخاب میں کھڑے ہوئے تو وہ میدان میں نہیں آئیں گے۔ عمرو موسی جنہوں نے گزشتہ صدارتی انتخاب میں محمد مرسی کا مقابلہ کیا تھا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر جنرل السیسی امیدوار ہوئے توکوئی انہیں شکست نہیں دے سکے گا۔ گو جنرل السیسی بار بار یہ کہتے ہیں کہ ان کا صدر کے عہدہ کا انتخاب لڑنے کا ارادہ نہیں لیکن ان کے حامی ان کے حق میں جس انداز سے مہم چلا رہے ہیں اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آخر وقت میں جنرل صدارتی انتخاب کے میدان میں کودنے پر تیار ہو جائیں گے۔ لیکن بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ جنرل السیسی کا انتخاب لڑنا خطرات سے خالی نہیں ہے۔ سب سے بڑاخطرہ یہ
ہے کہ وہ حسنی مبارک کی طرح نہایت جابر آمر ثابت ہوں گے جس کی وجہ سے مصری افواج کی امیج خراب ہوگی اور ممکن ہے کہ ان کے خلاف رائے عامہ بغاوت پر آمادہ ہو جائے۔ پھر یہ صحیح ہے کہ اخوان المسلمون کو اقتدار سے الگ کر دیا گیا ہے اور اس کی قیادت قید میں ہے جسے سنگین مقدمات کا سامنا ہے لیکن مصری عوام میں اخوان کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اتنی آسانی ے اخوان کو زیر نہیں کیا جا سکتا لہذا عوام میں اخوان کی مقبولیت جنرل السیسی کے لیے ایک کٹھن مسئلہ رہے گا اور ممکن ہے کہ اس معرکہ میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑے۔

«
»

اقوام متحدہ مظلوم ودربَدرانسانوں کے لیئے مسیحا

معاشی مسائل سے دماغی صلاحیت محدود

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے