جی ڈی چندن کا انتقال…اردو صحافت کا ایک بڑا خسارہ

ان کا پورا نام گوربچن داس چندن تھا اور جی ڈی چندن کے نام سے مشہور تھے۔ ان کے دوست احباب اور بے تکلف ملاقاتی ان کو چندن صاحب کہا کرتے تھے۔ جس طرح چندن کی لکڑی بہت قیمتی ہوتی ہے اسی طرح چندن صاحب کی ذات بھی اردو صحافت کے تعلق سے بہت اہم تھی۔ انھوں نے اگر چہ کسی بڑے اخبار کے دفتر میں زیادہ کام نہیں کیا تھا تاہم اردو صحافت کی تاریخ کا جتنا علم ان کو تھا ہندوستان اور پاکستان میں شائد ہی کسی اور کو ہو۔ ان کی تصنیفات بے حد مقبول ہیں جنھیں حوالوں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ ۸؍ اکتوبر ۱۹۲۲ کو لاہور کے باغباں پورا گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے تقسیم سے قبل لاہور کے انگریزی روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے اور روزنامہ ساگر لاہور میں ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔ انھوں نے اپنے آبائی وطن باغباں پورہ سے منسوب کرتے ہوئے ’’باغباں پورہ کی آواز‘‘ نامی ایک ہفت روزہ اخبار بھی جاری کیا تھا جو جلد ہی بند ہو گیا۔ ان اخباروں سے ان کی وابستگی زیادہ عرصے تک نہیں رہی۔ ۱۹۴۷ میں وہ ہجرت کرکے ہندوستان آگئے۔ اس وقت دہلی سے ایک ہفت روزہ اخبار ’’نیشنل کانگریس‘‘ نکلتا تھا۔ انھوں نے اس کی ادارت کی ذمہ داری سنبھال لی۔ لیکن کسی اچھی ملازمت کی تلاش جاری رکھی، جو بالآخر پوری ہوئی۔ انھیں ۱۹۴۸ میں حکومت ہند کے ایک باوقار ادارے پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) میں ملازمت مل گئی جہاں وہ اردو آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ اگست ۱۹۸۰ میں پی آئی بی کے شعبہ اردو کے چیف کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔ ا س کے بعد ایک عرصے تک حیدرآباد کے معروف اخبار ’’منصف‘‘ کے دہلی میں نمائندے رہے۔
چونکہ وہ پی آئی بی میں اردو آفیسر تھے لہٰذا پورے ملک کے اردو اخباروں اور صحافیوں سے ان کا رابطہ تھا۔ دہلی و بیرون دہلی کے بہت سے ایڈیٹر اپنے کام اور اپنی ضرورتوں کے تحت ان کے دفتر میں ان سے ملتے تھے۔ جس کی وجہ سے ہندوستان بھر سے نکلنے والے اردو اخباروں کے بارے میں ان کی معلومات وسیع ہوتی گئیں۔ جو آگے چل کر ان کے بہت کام آئیں۔ پی آئی بی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے آر این آئی کی سالانہ رپورٹوں تک رسائی ان کے لیے بہت آسان تھی۔ وہ ہر سال کی رپورٹ کا مطالعہ کرتے اور اس کی روشنی میں رپورٹ اور مضامین تیار کرتے جو سند کا درجہ رکھتے۔ ان کی یادداشت بہت تیز تھی۔ ایک بار جو چیز پڑھ لیتے وہ ہمیشہ کے لیے ان کے ذہن میں بیٹھ جاتی۔ اردو صحافت کی ابتدا اور اس کے ارتقا پر وہ ایک اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وہ ایک ایسے صحافی تھے جو صحافت کی تاریخ کی چلتی پھرتی لائبریری تھے۔ ان کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ دہلی اردو اخبار کے مالک وایڈیٹر مولوی محمد باقر کی شہادت کے بارے میں انھوں نے جو کچھ لکھا اسے پوری صحافتی دنیا نے قبول کیا۔ ان کی کتاب ’’جام جہاں نما‘‘ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ ایک معرکۃ الآرا کتاب ہے۔ آٹھ ابواب پر مشتمل اس کتاب کے عنوانات ہیں: اردو کا سب سے پہلا اخبار، پس منظر، ہری ہر دت اور سدا سکھ لعل، جام جہاں نما پر چیف سکریٹری ڈبلیو بی بیلی کا تبصرہ، خبروں کے نمونے، حکومت سے تعلقات، اخبار کا نیا دور اور اردو صحافت کا نقش اول۔ ۲۴۸ صفحات پر مشتمل ا س کتاب میں جہاں اردو کے پہلے اخبار کا بھرپور تعارف پیش کیا گیا ہے۔ وہیں اس سے قبل کی صحافت کی مختلف شکلوں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ ان کی کتاب ’’اردو صحافت کا سفر‘‘ بھی بہت معلوماتی ہے۔ ۳۸۸ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں جام جہاں نما، الہلال، مولوی محمد باقر، تحریک آزادی میں اردو صحافت کا حصہ سمیت کئی مضامین شامل ہیں۔ برطانیہ میں پاکستان کی اردو صحافت پر بھی ایک بے حد عمدہ مضمون ہے جو بر صغیر ہند و پاک سے باہر اردو صحافت کا جائزہ پیش کرتا ہے۔ ان کی دوسری کتابوں میں اردو صحافت پر ایک نظر، اردو صحافت کی ابتدا اور جمنا داس اختر: شخصیت اور ادبی و صحافتی خدمات قابل ذکر ہیں۔ آخر الذکر کتاب مکتبہ جامعہ نئی دہلی کے رسالہ ’’کتاب نما‘‘ کا خصوصی شمارہ ہے۔ صحافت کے موضوع پر ان کے مضامین اکثر و بیشتر اخباروں کی زینت بنتے رہے ہیں۔
وہ گنگا جمنی تہذیب کے ایک جیتے جاگتے نمائندہ اور سیکولر ذہن کے مالک تھے۔ اگر چہ وہ ہندوستان میں شرنارتھی کی حیثیت سے آئے تھے لیکن ان کے دل و دماغ تعصب سے یکسر پاک تھے۔ اہم اور سرکردہ مسلم شخصیات اور مسلم صحافیوں سے ان کے بڑے گہرے مراسم تھے۔ جس طرح لوگ ان کی قدر کرتے اسی طرح وہ بھی دوسروں کی قدر کرتے۔ پہلے ان کا قیام دہلی کے حضرت نظام الدین کے پاس جنگپورہ ایکسٹنشن بھوگل میں تھا۔ بعد کو وہ اپنے بیٹے مسٹر لکھینا کے پاس، جو کہ ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر ہیں، دہلی کے قریب گوڑگاؤں میں رہنے لگے۔ لیکن ادھر دو سال سے وہ اپنی بیٹی کے پاس احمد نگر میں مقیم تھے۔ ان کی پیدائش لاہور کی تھی۔ کرم بھومی دہلی تھی۔ اور آخری وقت احمد نگر مہاراشٹر میں گزرا۔ لاہور کی مٹی مہاراشٹر میں مل گئی۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ موہن چراغی کشمیر میں پیدا ہوئے، دہلی کو کرم بھومی بنایا اور آخری سانس کلکتہ میں اپنی بیٹی کے گھر میں لی۔
جی ڈی چندن اس خاکسار سے بہت انسیت رکھتے تھے۔ انھوں نے میڈیا پر میری کتاب ’’میڈیا روپ اور بہروپ‘‘ کے اجرا کے موقع پر ایک بہت عمدہ مضمون پڑھا تھا۔ اس کے بعد میری کتاب ’’احوال صحافت‘‘ پر بھی انھوں نے گراں قدر رائے کا اظہار کیا تھا۔ دیگر کتابوں کو بھی وہ بہ نظر استحسان دیکھتے تھے۔ جب وہ دہلی میں تھے تو ان کے گھر ان سے میری ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ جب گوڑگاؤں گئے تو ملاقات کا سلسلہ تقریباً ختم سا ہو گیا۔ البتہ ۲۰۱۲ میں عالمی یوم اردو کے موقع پر دعوت اخبار کے ایڈیٹر محمد مسلم صاحب پرتیار ہونے والے مجلہ کے تعلق سے گوڑگاؤں میں ان سے ملاقات ہوئی تھی جو آخری ثابت ہوئی۔ ہمارے ایک صحافی دوست جاوید اختر (یو این آئی) بھی جو کہ اس مجلہ کو تیار کر رہے تھے، ساتھ میں تھے۔ بلکہ چندن صاحب نے انہی کو بتایا تھا کہ محمد مسلم صاحب کے تعلق سے ان کے پاس کچھ مواد ہے جس کی خاطر ہم لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ گھنٹوں کی ملاقات میں جہاں مسلم صاحب کے سلسلے میں انھوں نے بہت سی باتیں بتائیں وہیں انھوں نے اردو صحافت کے ماضی، حال اور مستقبل پر بھی کھل کر گفتگو کی۔ ان سے بذریعہ فون اکثر و بیشتر باتیں ہوتی تھیں۔ اس ملاقات کے بعد بھی ان کے فون آتے رہے یا میں ان کو کرتا رہا۔ جب وہ احمد نگر چلے گئے تو ان کی فون کالس کی تعداد کم ہونے لگی۔ ادھر کم از کم ایک سال سے ان کی کوئی کال نہیں آئی تھی۔ چونکہ ان کا نمبر میرے پاس نہیں تھا اس لیے میں ان کو فون نہیں کر سکا جس کا مجھے افسوس ہے۔ جب ان کے انتقال کی خبر ملی تو دکھ تو ہوا لیکن حیرت نہیں ہوئی۔ کیونکہ وہ پہلے سے ہی مختلف عوارض کے شکار ہو گئے تھے۔ گوڑگاؤں میں قیام کے دوران پھسل کر گر جانے سے ان کو خاصی چوٹیں آئی تھیں جن کی وجہ سے وہ کئی پیچیدگیوں میں مبتلا ہو گئے تھے۔ ان کے انتقال سے ایک بات بہت شدت سے محسوس ہوئی کہ اردو کے اچھے غیر مسلم صحافیوں کی صف رفتہ رفتہ سکڑتی جا رہی ہے جو صحافتی دنیا کے لیے اچھی خبر نہیں ہے:
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی

«
»

سابق جج کاٹجو اور گائے؟

نائیجیریا کی انتخابی بہار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے