غضب ہوتا ہے جب خود باغباں صیاد ہوتا ہے

تحریر : وزیر احمد مصباحی 

[ شاہین باغ کی جرأت و ہمت، سرد مہری کے چپیٹ میں دم توڑتی قیادت اور گلستان عزیز میں جینے و  مرنے کا امنگ و  حوصلہ ؛ جی ! یہ ساری حقیقتیں  وا ہیں ،بس نشان منزل کا سراغ آپ کو لگانا ہے]

 

      تصور کیجیے کہ جب گلاب، رات کی رانی ،چمپا ،چمیلی  اور کوبرا وغیرہ مختلف رنگ برنگ کے پھول و کلیاں کسی گلستاں کے حدود میں رس گھولتے ہوں گے تو فضا کتنی خوش گوار  اور صحت مند ہو جاتی ہو گی؟  کسی باغ کی چہار دیواری میں جب مالی آرائش و زیبائش کے جذبوں سے سرشار ہوکر اس کے بڑھتے اعضا کو تراش خراش کے ذریعے اپنا فریضہ انجام دیتے ہوں گے تو موسم بہار میں منظر کتنا دیدنی ہوتا ہوگا ؟ جی! اس طرح کے گلستاں میں سکونت پذیر چرند و پرند ضرور کیف آگیں لمحات سے سرخرو ہوکر مستانہ وار جھومتے ہوں گے ۔ یقینا اگر آپ اس طرح کے تصوراتی دھاروں پر نظر جما کر وطن عزیزfik_ ہندوستان کا جائزہ لیں  اور اس کے نشیب و فراز سے متصل غیر مدغم سچی تاریخی حیثیتوں پر تجزیاتی نگاہ دوڑائیں تو پھر اس حقیقت کا اندازہ لگے گا اور پردہ اٹھے گا کہ نہیں! ہمارا ملک بھی اسی گلستاں کی طرح حقیقی قالب سے لیس ہوکر عالمی منظرنامے پر ابھرا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب اسے گلستاں جیسے انقلابی اور روح پرور مفہوم کا مصداق ٹھہرانے کے لیے اشفاق اللہ خان اور رام پرساد بسمل جیسے سرفروشان وطن نے بخوشی  دار و رسن کوچوم لیا تھا۔ جس طرح یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ گلستاں  کا لفظ زبان پر آتے ہی دریچہ تحت الشعور سے ایک ایسی جگہ کا تصور ابھرتا ہے جہاں رنگ برنگ کے پھول کھلے ہوں اور وہ اپنے مختلف رنگ و مہک سے فضا کو صحت مند بنا دیتے ہوں۔ ہاں! اگر کبھی ان میں سے کوئی پھول مرجھا کر ٹوٹ جائے تو پھر وہ اپنے ساتھ اپنی شادابی و تروتازگی لے جانے کی بنا پر عدم موجودگی کا گہرا احساس بھی دلا جاتا ہو ۔ کچھ اسی نوعیت کا روپ  وطن عزیز نے بھی جنگ آزادی کے بعد حاصل کیا تھا ۔ یہاں مختلف اقوام اور تہذیب و برادری نے مسکن اختیار کرکے قومی یکجہتی اور جمہوریت کا حسین سنگم پیش کیا تھا۔ عالمی سطح پر اسے لوگ "سونے کی چڑیا "کہہ کر اظہار رشک کیا کرتے تھے۔ یہ وہ حقیقت بر مبنی باتیں ہیں جن کی ترجمانی شاعرمشرق علامہ اقبال نے اپنے ایک خوبصورت معنوی ترانہ کی صورت میں کیا تھا،جس کا بول یہ ہے ‌‌__

 

            سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا 

             ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

مگر ! جوں جوں گزرتے ایام کے ساتھ ہندوستان کی حکومتی باگ ڈور نا اہلوں وہ فرقہ پرستوں کے ہاتھوں دبوچ لیا گیا ویسے ہی اس مشہور گلستاں کی شادابیاں بھی دم توڑتی چلی گئیں۔اور آج اس کا ثمرہ ہمارے سامنے یہ ظاہر ہوا ہے کہ موجودہ حکومت نے اسے سیاہ قانون کے ذریعہ بالکل سنسان بنانے کی ٹھان لی ہے ۔

      شاہین باغ :  اس وقت حالیہ پاس شدہ سیاہ قانون کے خلاف شاہین باغ میں بیٹھی مائیں اور بہنیں پر امن احتجاجی مظاہروں کی شکل میں جو منظر پیش کر رہی ہیں،  کیا وہ ایک گلستاں اور خوبصورت باغ جیسا منظر نہیں لگ رہا ہے؟  کیا نہیں لگ رہا ہے کہ مالی نے بغاوت کا چولا پہن کر انھیں تقسیم کرنے کا ناپاک بیڑا اٹھایا ہوگا ، مگر گلستاں fik_وطن عزیز کو چاندنی عطا کرنے والی ان رنگ برنگی جانوں نے اپنے مالی و باغباں کے ناپاک ارادوں کو وقت رہتے ہوئے بھانپ لیا اور پھر دیکھتے ہی اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے کاندھے سے کاندھا ملا کر شاخ چمن سے لپٹ گئیں۔ جی ہاں! شاہین باغ کی جن شاہین صفت مظاہرین نے یہ اچھوتا منظر پیش کیا ہے وہ اس بات کی کھلی بغاوت ہے کہ مالی ہمیں کسی بھی صورت پہ برباد نہیں کرسکتا، آخر جنھوں نے اسے مالی کے فرائض کی انجام دہی کے لیے چنا تھا وہی اسے گھسپیٹیا کہ کر گلستاں سے کیسے باہر کر سکتا ہے؟ اس وقت شاہین باغ نے امن و آشتی کے آنچل میں جرأت و ہمت کے ساتھ جو جام شیریں پیش کیا ہے اسے پینے کے لئے اکثر صوبوں میں اتنی سخت سردیوں کے باوجود عشاقوں کی محفلیں سج گئیں ہیں ۔ کان پور، کولکاتا، نوادہ، الہ باد، پٹنہ لکھنؤ ،جمشیدپور ،گیا، ارریہ اور عروس البلاد ؛ممبئی جیسے کئی بڑے بڑے شہروں و اضلاع کو آپ اس کڑی کی روشن مثال سمجھ سکتے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہاں جام و مینا تئیں سیاہ و سفید کا مالک کوئی فرد متعین  نہیں ہے، کوئی سیاسی لیڈر، سماجی سطح پر اثر و رسوخ کا مالک یا پھر اس طرح کی دوسری نوعیت کا کوئی بھی شخص نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک یہ مظاہرہ  برقرار ہے اور کسی ذاتی مفاد کے بندھن میں بندھنے کے بجائے حکومتی پایا ہلا دینے میں نمایاں  کردار ادا کرتا جا رہا ہے ۔ اور اب تو ملک کے کئی مختلف گوشوں میں ایک نیا شاہین باغ بننے کا عمل بھی کافی تیز ہو گیا ہے ۔ میرے خیال سے ابھی چند روز قبل مشہور شاعر عمران پرتاپ گڑھی کا سرخی میں آنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ انھوں نے ایک دلت لیڈر کو موقع دینے اور وقت و حالات سے سمجھوتا کیے بغیر اپنی نظم سنانے کی ٹھان لی تھی ، جب کہ اس احتجاج میں  یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات سے لے کر بڑے بڑے آفیسر اور جج و وکیل حضرات تک کی بھی شمولیت ہیں۔

           خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پہ اُترے

             وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

        یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی جنگ آپ بغیر کسی دانا و وقت و حالات پہ کڑی نظر رکھنے والے قائد کے جیت نہیں سکتے۔ مہم سر کرنے کے لئے کسی مرد راہ داں کی سخت ضرورت پڑتی ہے۔ جو اپنے قیمتی اور مفید ہدایات و احکام سے ہر لمحہ تحریکی پندار کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔1947ء  کی جنگ میں ہمارے علما کی مقدس جماعتوں نے رول ماڈل کام کیا تھا اور ہر طرح کے مصائب و آلام کو انھوں نے کشادہ قلبی کے ساتھ قبول بھی کیا تھا۔ مگر۔۔۔مگر  حالیہ وقت کی سچائی تو یہ ہے کہ اب اسلامی خواتین نے اپنے آنچل کو پرچم بنا لیا ہے اور ملکی تحفظ کے لئے قسمیں کھا کر کھلے آسمان کے نیچے بیٹھ گئیں ہیں۔۔۔ لیکن اب تک علما کی ٹیم اس طرح کھل کر سامنے نہیں آ رہی ہے جس کا تصور اب تک ایک سادہ دماغ میں بستا چلا آ رہا تھا۔خیر اس وقت بس یہی سوچ کر نسل نو ،صبر و شکیب کا دامن تھامے تسلی کا سخت کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہے کہ جوں جوں حالات بدلتے رہتے ہیں ویسے ہی اختیارات و ذمہ داریاں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ جب انگریزوں سے حریت کی جنگ لڑی جارہی تھی تو اس وقت علما کا دور دورہ تھا اور اب نوجوانوں کی۔ کیونکہ اب جہاں ذمہ داریوں کی قدریں بدل چکی ہیں وہی وطن عزیز جیسے خوبصورت چمنستاں کی جمہوریت پر کاری ضرب لگانے والے ظاہری طور پہ ہی سہی، مدمقابل بھی۔ اب وہ حکم نہیں ہیں جو کبھی ہمیں نشان منزل کا پتہ دینے کے ساتھ ہمارے جنگ آلود امنگ و حوصلوں کو بھی سیقل کرنے کا سنہرا کام کیا کرتے تھے۔ہمارا المیہ بھی اس وقت بڑا عجیب و غریب ہے کہ ہم تو ساری مثبت توانائیاں فرقہ پرستی اور مسلک مسلک کا گھناؤنا کھیل کھیلنے میں صرف کر دیں  مگر قائدانہ لباس کے حسن و قبح کو  اس جسم پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں  جو ظاہری فتنہ سامانیوں سے جہاں پاک ہو وہیں معنوی معیار پر بھی کھرا اترے۔ یہ کیسی خواہش ہے کہ خود تو  گناہوں کے دلدل میں پھنسے رہیں مگر رہبر کے روپ میں اس ذات  کو تلاش کرتے ہیں جو تقوی کی ساتویں آسمان پر متمکن ہوں؟ یہ بالکل تلخ حقیقت ہے کہ پہلے جو ہمیں نشان راہ دکھایا کرتے تھے ان میں سے اکثر کی دور بین نگاہیں آج ہمارے جیبوں پر ہوتی ہیں ۔ہم نے بھی اس نزاکت کو سمجھنے کی کوئی مفاہمت نہیں کی اور ژاغوں کی بھیڑ میں کسی چالاک بناوٹی قائد کو موٹے موٹے لفافوں سے خوش کرکے اپنی کم مائیگی کا یوں مظاہرہ کرتے رہے کہ نہیں:" ہمیں تو دنیا و آخرت کی ساری کامیابیاں ہاتھ لگ گئیں ہیں"۔

     روشن دماغ افراد کے یہاں یہ حکمت عملی بہت پرانی ہے کہ وہ آنکھوں میں اندھ بھکتی کا سرمہ ملنے کے بجائے دل بینا کو ہر لمحہ بیدار و نوجوان رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خیر! اب وقت و حالات بدل چکے ہیں اور قوم کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھنے کے لیے نوجوان طبقوں نے بطور نباضی قیادت ‌(Leading) کا اہم بوجھ اپنے سر لے لی ہیں۔ یقینا نوجوان طبقہ قومی فلاح و ظفر کے باب میں لب لباب کی حیثیت رکھتے ہیں ساتھ ہی وہ افتخار وعظمت کی عظیم الشان  نشانی بھی ہوا کرتے ہی۔یونیورسٹی و کالجز میں پڑھنے والے یہی وہ طلبہ  ہیں جنھیں مخلوط تعلیم کی بنا پر برسوں کوسا جاتا رہا ہے ،مگر آج ہے کہ وہ قومی عظمت کے خاطر محاذ پر بالکل ڈٹے ہوئے ہیں۔پردہ نشین ماؤں اور بہنوں کے بارے میں جو بھیانک اور غلط تصور اب تک ابھرتا چلا آرہا تھا کہ یہ عورتیں ،وہ بھی نقاب پوش خواتین اپنی آزادی اس نہج پر حاصل نہیں کر سکتیں جس طرح اور دوسری آزاد پسند خواتین حاصل کیا کرتی ہیں ۔مگر __اس وقت شاہین باغ اور ملک بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں نے خام خیالی سے اس طرح کے پر ذہنوں کو اپنی جرأت و ہمت تیئں یہ باور کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے کہ نہیں! ہمیں کمزور اور لاچار ہرگز نہ  سمجھا جائے، ہم تو اپنے رگوں میں وہ انقلابی و گرم لہو رکھتے ہیں کہ جائز حقوق کی بحالی کے لیے اس کی تپش سے حکومت وقت کی تانا شاہ ڈور بھی پگھلا سکتے ہیں ۔ہاں! ہم نے اس نفرت بھرے ماحول میں ایک پرسکون گلستاں کا جو منظر پیش کیا ہے اور کر رہے ہیں اسے تاریخ کے صفحات میں برسوں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔ اگر آپ بھی وقت رہتے ہوئے اس تحریک کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملکی فلاح و ظفر کے واسطے آپ بھی کچھ کر گزریں تو آئیں___نشیمن سے باہر نکلیں اور وقت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے بغیر کسی شکوۂ  آبلہ پائی کے حالات کے دوش پر سفر کرنے کی شروعات کر دیں کہ____

          سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو 

           سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو 

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
23/ جنوری 2020

«
»

سنبھل کا پکا باغ۔ دوسرا شاہین باغ

یہ داؤ بھی الٹا پڑگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے