غزہ پرصہیونی مظالم اور عالمِ اسلام کی مجرمانہ خاموشی

بظاہرفلسطینی کازکے لیے سرگرمِ عمل رہنے والی دوبڑی فلسطینی سیاسی جماعتوں میں اس زبردست اختلاف کا فائدہ اسرائیل نے خاطر خواہ طورپر اٹھایا؛چنانچہ اس نے کچھ ہی دنوں بعد غزہ کوچاروں طرف سے محصور کرکے رکھ دیا،وہاں کے مکینوں کو اس قدر مجبور و لاچار بنادیاگیا کہ اشیاے ضروریہ اورعام وسائلِ معیشت تک بھی ان کی رسائی محال ہوگئی،بیماروں کے لیے ادویہ،محتاجوں کے لیے کھانے پینے کے سامان اور بچوں کے لیے تعلیم گاہ غزہ کے محصورین کے لیے محض خواب بن کر رہ گئے،اتنے ہی پر بس نہیں کیا گیا،بلکہ وقفے وقفے سے اسرائیل نے غزہ پٹی کے معصوم و مجبور مسلمانوں کو تہہِ تیغ کرنے اور ان پر مظالم کے پہاڑ توڑنے کا تسلسل بھی جاری رکھا۔
دسمبر۲۰۰۸ء میں اسرائیل کی طرف سے زبردست فوجی آپریشن کیاگیا،جس کے دوران ہزارہامرد،عورت،بچے اور بوڑھے شہید ہوئے،سیکڑوں مکانات،تعلیمی و فلاحی اداروں کی زمیں بوسی تو ان پر مستزاد تھی،اس فوجی کریک ڈاؤن کا اعلان اس وقت کی اسرائیلی وزیر خارجہ نے قاہرہ میں بیٹھ کر کیاتھااوراس کے بدلے میں اُس وقت کی مصری وزارتِ خارجہ نے غزہ کے بے قصور مسلمانوں کے تئیں اظہارِ ہمدردی کرنے کی بجائے ساری ذمے داری تحریکِ حماس پر تھوپتے ہوئے ہر اس فلسطینی کی ٹانگ کاٹ دینے کا فرمان جاری کردیاتھا،جو غزہ کی سرحد عبورکرکے مصری حدود میں داخلے کی کوشش کرے،مگراسرائیل اس وقت اپنی حیوانی و شیطانی پالیسیوں اور بزدل،ایمان فروش اسلامی حکومتوں کی ظاہری و خفیہ معونتوں کے باوصف نہ تو غزہ کے مسلمانوں کی ہمت کو پست کرسکا اور نا ہی حماس کی حکومت اوراس کے شیرازے کو بکھیرنے میں کامیاب ہوسکا اوربالآخراسے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔
پھر۲۰۰۱۲ء میں اس نے غزہ کے خلاف اسی قسم کی فوجی کارروائی کرنے کا ارادہ کیا،مگر اس وقت مصر کی زمامِ حکومت امریکہ و اسرائیل کے غلام بے دام حسنی مبارک کی بجائے جمہوری طورپر منتخب ہونے والے اسلامی الفکرسیاست داں ڈاکٹر محمد مرسی کے ہاتھوں میں تھی؛اس لیے اسرائیل کواپنے خبیث مقاصدمیں کوئی کامیابی نہیں ملی،جوں ہی اسرائیل نے غزہ پر حملے کی پلاننگ کی،مصری صدر ڈاکٹر مرسی نے اسرائیل سے اپنے ملک کے سفیرکو واپس بلانے کا اعلان کردیا،صورتِ حال کے جائزے کے لیے عرب وزرائے خارجہ کی میٹنگ بلائی اور اس کے ساتھ ساتھ غزہ اور فلسطین پر اسرائیلی مظالم پر بندش لگانے کے لیے فوری طورپر سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلایا۔
اسلامی روح اور جذبۂ اخوت و ہمدردی سے سرشارمصری صدر ڈاکٹر مرسی نے ببانگِ دہل یہ اعلان کیا کہ’’ہم غزہ میں انسانوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم سے باخبر ہیں اورمیں ظالموں کوتنبیہ کرتاہوں اور انھیں بتادینا چاہتاہوں کہ وہ کبھی بھی غزہ اور غزہ کے غیور مسلمانوں کو زیر نہیں کر سکتے‘‘انھوں نے مزید کہا’’قاہرہ خبیث طینت یہودیوں سے جنگ میں غزہ کو تن تنہا نہیں چھوڑ سکتا،میں اہلِ مصر کی طرف سے اس کی یقین دہانی کراتاہوں؛کیوں کہ آج کا مصر گزشتہ کل کے مصر سے مختلف ہے اور آج کے عرب کل والوں سے علیحدہ ہیں‘‘۔ڈاکٹرمحمد مرسی کی اس قدر جرأت مندی اور اپنے فلسطینی بھائیوں کے تئیں اس قدر دلی ہمدردی کے اظہار نے اسرائیل کے حواس باختہ کردیے اور نتیجتاً اسے الٹے پاؤں غزہ سے بھاگنا پڑا،حماس اور غزہ کے نہتے مسلمانوں کو غیبی نصرت و فتح حاصل ہوئی،پھرمصر نے متعددخلیجی ملکوں کے ساتھ مل کرغزہ کی بازآبادکاری کا سامان کیا،مگرشایداسی جرأتِ اظہارنے جلد ہی مصر سے ڈاکٹر مرسی کی حکومت کی بساط الٹ دی اور امریکہ و اسرائیل کے زلہ رباچندسیاسی لُقندروں کی جماعت نے ایک سرتاسر آئینی و جمہوری صدر کے خلاف بغاوت کا صور پھونک دیا،چندبے غیرت اور نام نہاد اسلامی حکومتوں نے بھی اس مہم میں ان کی دامے ،درمے،سخنے حمایت کی اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ جو قانونی صدرہے،وہ اپنے بیش تر معاونین کے ساتھ پسِ دیوارِ زنداں ہے اور جوباغیوں اور قوم و ملک ،حتی کہ دین و ایمان سے غداری کرنے والا ٹولہ ہے،وہ تختِ حکومت پر براجمان ہے۔
اسرائیل کی اِس نئی مصری حکومت کواوراسرائیل کوالسیسی اینڈ کمپنی کی بھرپورحمایت حاصل ہے،حکومت بنانے سے پہلے ہی عبدالفتاح السیسی نے اسرائیلی فوجی افسران کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کو تہہِ تیغ کرنے کی پلاننگ کرلی تھی،گزشتہ جون کے اوائل میں غربِ اردن کے علاقے میں تین یہودی آباد کاروں کی گم شدگی کوبہانہ بناکر غزہ والوں پر شروع ہونے والا اسرائیلی فوجی کریک ڈاؤن اُسی پلاننگ کا حصہ ہے،حالیہ دنوں میں اسرائیلی حملوں میں خطرناک حد تک تیزی و تندی آئی ہے،گزشتہ ۲؍جولائی کوجس طرح ایک سولہ سالہ فلسطینی لڑکے محمد ابوخضیرکو اسرائیلی جنونیوں نے انتہائی اندوہ ناک طریقے سے نذرِ آتش کرکے شہید کیا،اس نے فلسطین ہی نہیں،دنیابھر کے مسلمانوں کے قلب و دماغ کو جھنجھوڑکر رکھ دیاہے،روزانہ کے حساب سے پندرہ بیس فلسطینی شہید کیے جارہے ہیں،اسرائیل نے غزہ اور فلسطین پر حملے کے لیے مزیدچالیس ہزارفوجیوں کو طلب کرلیاہے،ہرطرف لاشوں کا انبارلگتاجارہاہے،ہرلمحہ فلسطینیوں کے لیے کرب و بلا کی نویدِنو لے کر آتاہے،سوشل سائٹس پر اُن معصوم بچوں،عورتوں اور بوڑھوں کی جلی،کٹی اور جھلسی ہوئی لاشیں دیکھ کرآپ پرمدہوشی طاری ہوجائے گی،جن سے اسرائیلی فوجیوں کے میزائل اور بموں نے جینے کا حق چھین لیا اورجواپنی ہی زمین میں اپنے حقِ ملکیت کی لڑائی لڑتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔
حماس کی جانب سے حالاں کہ جنگ بندی کی پیش قدمی بھی کی گئی ہے،مگر اسرائیل اپنی ہٹ دھرمیوں سے بازآنے کے لیے تیار نہیں،اس سارے معاملے پر عالمی برادری،اقوامِ متحدہ،عالمی طاقتوں اورسب سے بڑھ کر عربی اسلامی ملکوں کی خاموشی حددرجہ پراسرارہے،مصرمیں آج محمد مرسی کی حکومت نہیں کہ وہ غزہ والوں کے لیے مسیحا بن کر سامنے آئیں،محض دو سالوں کے الٹ پھیرنے ہی مصر میں پھرسے امریکہ و اسرائیل کے حسنی مبارک جیسے پٹھوکومسندِصدارت پر لابٹھایاہے،دیگر اسلامی ملکوں کی صورتِ حال خودہی انتہائی ناگفتہ بہ ہے،ہر کہیں حکومت باغیوں کے ساتھ اپنی سیاسی ساکھ کے تحفظ و بقا کی جنگ لڑ رہی ہے،سعودی عرب،جو اسلامیانِ عالم کے دلوں کی امید گاہ اوران کا قبلۂ مقصودہے،نہ جانے کیوں اس کا موقف اسلامی دنیا اور مسلمانوں کے حوالے سے حیرت انگیز حد تک دوہرے پن کا شکار ہے،وہ عراق میں خانہ جنگی سے متاثرین کے لیے پچاس کروڑ ڈالر کا اعلان کرتا ہے،جو محمود ہے،وہ مالکی حکومت کی غلط پالیسیوں کی تنقید کرتا ہے،جو بالکل بجاہے،وہ شام میں بشار الاسدکے موقف اور رویے کی تنقید کرتا ہے،جس کی صحت میں شک نہیں کیا جاسکتا،مگر اسی کے ساتھ ساتھ وہی سعودی عرب ہے،جو مصر سے اسلامی جمہوری حکومت کے خاتمے میں عبدالفتاح السیسی اور اس جیسے اسرائیل و امریکہ نوازسیاسی کرتب بازوں پر ڈالروں کی بارش کرتا ہے اور اسے یقین دلاتا ہے کہ آیندہ بھی ان کی ہر ممکن مددکرے گا،وہی سعودی عرب ہے،جومصرکی غیر قانونی،غیر جمہوری حکومت کے ذریعے خالص اسلامی الفکراوراپنے نوے سالہ صلح پسندانہ موقف پر قائم مذہبی و سیاسی تنظیم اخوان المسلمون کو عالمی دہشت گرد قراردیتاہے اور دنیا بھر کواس حوالے سے اپنی اتباع کی دعوت دیتا ہے،وہی سعودی عرب ہے،جوفلسطین میں اسرائیلی مظالم سے چور نہتے فلسطینی مسلمانوں کی مادی اعانت کیا،ان کے حق میں ہمدردی کے دوبول بھی نہیں بولتا،یہ بزدلی کی انتہا اور بے غیرتی کا نقطۂ عروج نہیں تو اور کیا ہے؟!

«
»

بے قصوروں کو پھنسانے والوں کوسزا کب ملے گی؟

عرب بہار پر خزاں لانے والے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے