غزہ پر اسرائیلی درندگی

اس نے لکھا ’’میں اسرائیل اور غزہ کی تین جنگوں میں بچ گئی۔ مگر مجھے لگتا ہے اب بہت ہو گیا، میں کھانا بھی نہیں کھا پا رہی ہوں،گھر کے دروازے کے پاس اسرائیلی ہوائی حملے میں ایک کار جل کر راکھ ہو گئی ہے، میرے والد نے مجھے 9 سال کے ایک بچے کے دماغ کا ٹکڑا دکھایا، جو اسرائیلی حملے میں شہید ہوگیا تھا۔حملہ میرے گھر کے پاس ہوا اور میں خود کو رونے سے نہیں روک پارہی ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ آج میری زندگی کا اختتام ہوجائے۔ میری ایک چھ سال کی بہن ہے ، جب اسرائیلی میزائیل داغتے ہیں تو وہ زور زور سے چیخنے لگتی ہے تاکہ میزائیل کی آواز اس کے کانوں میں نہ گونجے‘‘۔
فرح بکرنے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر جو کچھ لکھاہے ، اس سے اسرائیل کے تئیں اس کا غصہ اور مہلوکین کے تئیں اس کی ہمدردی تو ضرور جھلکتی ہے مگر خوف کا کہیں شائبہ تک نہیں محسوس ہوتا۔ اس کہ یہ جملہ کہ ’’شاید آج میری زندگی کا اختتام ہو‘‘، اسرائیلی سفاکی کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے کہ جس طرح گزشتہ ۸ جولائی سے جاری بربریت میں ۱۲؍ سوسے زائد افراد جن میں اکثریت خواتین اور معصوم بچوں کی ہے ،جاں بحق ہوئے ہیں، اسی طرح ممکن ہے کہ میرا بھی خاتمہ ہوجائے ۔ فرح بکر کے اس ٹوئیٹر کو میڈیا میں اہلِ غزہ کے خوف ودہشت کی علامت بتایا جارہا ہے ، مگر وہاں کے لوگوں کی حوصلہ مندی سے باخبر لوگ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اپنے ہاتھوں اپنوں کو شہید ہونے کے لئے تیار کرنے والوں میں خوف ودہشت نہیں بلکہ غم وغصہ ہوتا ہے ، جو فرح بکر کی تحریروں میں صاف طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔
فرح بکر کی عمر ابھی بہت کم ہے۔ اس نے ۱۹۶۷ کی عرب واسرائیل کی تیسری جنگ بھی نہیں دیکھی ہے جس میں شام، اردن اور عراق کی حمایت کے باوجود مصر ی افواج کو بری طرح ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھااور جس نے اسرائیل کے حوصلوں کو دوبالا کردیا تھا ۔ اس جنگ کے بعد فلسطین میں شروع ہوئی اسرائیلی جارحیت کوبھی اس نے نہیں دیکھا ہوگا کہ جس کے بعد اسرائیلی بمباری روزہ مرہ کا معمول بن گئی۔ لیکن اس نے ۲۰۰۹ میں ہوئی اس اسرائیلی جارحیت کو ضرور دیکھا ہوگا ، جب اسرائیل نے اپنے ٹینک غزہ کے اندر روانہ کردئے تھے، اور پھر فلسطینی مجاہدین اسے ایسی پٹخنی دی تھی کہ وہ الٹے قدموں بھاگنے پر مجبور ہوگیا تھا۔
لیکن اس بار کی جنگ میں اسرائیل غزہ میں نہ صرف اپنے نئے تکنیکی ہتھیاروں کو آزما رہا ہے بلکہ حیوانیت اور دردنگی کا وہ مظاہرہ کررہا ہے کہ ماضی میں ۶۷ کے بعد اس کی مثال نہیں ملتی۔ 
جس دن ہندو پاک کے لوگ عید کی خوشیوں میں شرشار تھے، اس دن غزہ کے لوگ اسرائیل کی درندگی کا ایک اور مظاہرہ برداشت کررہے تھے۔جس وقت یہاں ایک دوسرے کو عیدالفطر کی مبارکباد دی جارہی تھی، اس دن اسرائیل کا درندہ وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اپنے پانچ فوجیوں کی ہلاکت پر آپے سے باہرہورہا تھا۔ گوکہ وہ دن جنگ بندی تھا ، مگر اسرائیلی حملے جاری تھے اور اسی حملے کے دوران غزہ کی فوج سے اسرائیلی فوجیوں کی ایک سرنگ میں مڈبھیڑ ہوئی جس میں اسرائیل کے پانچ فوجی جہنم رسید ہوگئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیلی درندوں نے غزہ پر نئے سرے سے حملوں کی یلغار کردی ، جس کے نتیجے میں بہ یک وقت ۱۱۰؍فلسطینی عام شہری جاں بحق ہوگئے۔ اس پربھی اس درندے کی پیاس نہیں بجھی او ر اس نے حملوں میں مزید شدت لانے کے عہد کو دہرایا، جس پر اسرائیلی فوجی آج عمل پیرا ہیں۔
یہاں ایک عام سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اسرائیل کے حملوں میں اس قدر فلسطینی شہید ہورہے ہیں ، جبکہ حماس کے حملوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسرائیل ایک ایسی ٹکنالوجی ایجاد کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے جو خود کار طور پر اسرائیل کی حد میں آنے والے راکٹس کو فضاء میں مار گراتا ہے۔ یہ ٹکنالوجی پوری دنیا میں صرف اسرائیل کے پاس ہے اور اس نے اسے کسی دیگر ملک کو فروخت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔پورے اسرائیل میں اس طرح کے پانچ موبائیل خودکار رڈار نصب ہیں، جبکہ چھٹے کی تنصیب عمل میں لائی جارہی ہے۔ جبکہ اس کے برخلا ف غزہ کے مجاہدین بھلے ہی بھرپور جنگی تیاری میں ہیں، مگر ان کے پاس یہ ٹکنالوجی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے غزہ پر بمباری کا اسرائیلی شہری صوفے پر بیٹھ کر اس طرح نظارہ کرتے ہیں گویا ٹی وی دیکھ رہے ہوں۔ 
دوسری وجہ طاقت کا بعدالمشرقین توازن ہے۔ اسرائیل کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ۵۰ہزار فوجیوں کے بالمقابل ۱۰ہزار مجاہدین ہیں۔ اسرائیل نے اپنے فوجیوں کے جسموں میں آپریشن کے ذریعے ایک ایسی چپ لگا رکھی ہے ، جس سے ان کی لوکیشن کو بہ آسانی تلاش کیا جاسکتا ہے۔غزہ کے مجاہدین ۵۰سال سے اسرائیلی محاصرے میں ہیں، اس کے باوجودوہ اپنی بساط بھر اسرائیلی فوجیوں کو جواب دے رہے ہیں۔ اگر صرف اسرائیل میں نصب موبائیل رڈار اس جنگ سے ہٹالئے جائیں تو دنیا کو حماس مجاہدین کی حقیقی قوت کا اندازہ ہوجائے گا اور اسرائیل کو ابرہہ کی لشکر کی طرح بھس میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی ۔ 
فلسطینی قوم کی عزیمت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اور سچ تو یہ کہ اللہ پر توکل کرنے والوں کے حوصلے کسی اسرائیلی یا امریکی حملے سے پست نہیں ہوتے۔ ۶۷کی جنگ میں اسرائیلی کو امریکہ پشت پناہی حاصل تھی، اوراس بار اسے نہ صرف امریکہ بلکہ اس کے دیگر حواریوں کی بھی مدد حاصل ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہ وہ عرب ممالک جنہیں اپنا اقتدا عزیزہے اور جو اپنے اسے دائمی سمجھتے ہیں ، ان کی بھی مدداسے حاصل ہے۔ مگر یہ عرب ممالک غالباً اس حقیقت سے اپنی آنکھیں موندے ہوئے ہیں کہ اللہ کی بادشاہت زمین کے کسی ایک ٹکڑے پر نہیں بلکہ پوری کائنات پر ہے اور اس کا اقتدار ہر شئے پر غالب ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسرائیل کو نہ صرف درپردہ مدد دے رکھی ہے ، بلکہ اس کے آلۂ کار بھی بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ کا واضح حکم ہے کہ ’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘ (المائدہ ۵۱)
مگر کچھ عرب ممالک اللہ کے اس واضح حکم سے سرتابی کرتے ہوئے اسرائیل اور امریکہ کو اپنا ملجا وماویٰ تسلیم کئے ہوئے ہیں۔ انہیں ممالک میں سے ایک متحدہ عرب امارات بھی ہے ، جس نے اہلِ غزہ کی جاسوسی کرنے کے لئے اپنے انٹلی جنس کے ۵۰ ؍ارکان کوطبی امدادی ٹیم کی شکل میں مصر کی سرحد سے غزہ میں داخل کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ حماس کو ختم کرنے کی شرط پر اسرائیل کو پورا جنگی خرج بھی ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ دوسری جانب مصر ہے جو ایک طرح سے اسرائیل کا ہی حصہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرکے غزہ کو اسرائیل کے قدموں میں ڈال دیا جائے۔ اسی وجہ سے اس نے ٹونی بلیئر کا مرتب کردہ جنگ بندی کا معاہدہ پیش کیا ، جس میں حماس کو غیر مسلح کرنے کی بھی شق شامل تھی، اور جسے حماس کی بیدارقیادت نے کلی طور پر مسترد کرکے اپنے لئے عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔
غزہ میں اسرائیلی بربریت کو گوکہ امریکہ سمیت کئی عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے اور دبئی اسے جنگی اخراجات تک دینے کے لئے تیار ہے ، مگر اسرائیل نے جس امید پر یہ بربریت شروع کی تھی، وہ اس کے لئے ہنوز معدوم ہے۔ اس نے سوچا تھا کہ غزہ کے لوگ اپنے عزیزوں کی ہلاکت سے بوکھلا کر حماس کا ساتھ چھوڑدیں گے اور پھر حماس کو بہ آسانی ختم کیا جاسکے گا، مگرآج ۲۴ دن گزرنے کے باوجود وہ نہ صرف غزہ کے لوگوں کوحماس کے خلاف کھڑا کرنے میں بری طرح ناکام ہے ، بلکہ حماس کو پورے فلسطین کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ غزہ کے مغربی کنارے تک میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں بلکہ محمود اور ان کی الفتح نے حماس کے موقف کی کھل کر تائید کی ہے۔
پوری دنیا آج اسرائیل کی حمایت میں ہے ، مگر فلسطینی مجاہدین اللہ کے بھروسے پر خون کے آخری قطرے تک لڑنے کا عہد کئے ہیں۔ حماس فوجی ونگ کے سربراہ محمد دیف نے مصرکی جانب سے نئے جنگ بندی کی ممکنہ تجویز کورد کرتے ہوئے اپنے ایک آڈیوپیغام میں جس حوصلہ مندی کے ساتھ اسرائیلی فوج سے خون کے آخری قطرے تک لڑنے کا عہد کیا ہے، وہ فلسطینیوں کے جذبۂ جہاد کی ایک روشن مثال ہے۔ محمد دیف نے کہا کہ ہمارے مجاہدین جامِ شہادت نوش کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ یہی جذبہ ،یہی حوصلہ اور یہی عزیمت فرح بکر نامی اس ۱۶؍سالہ لڑکی کے ٹوئیٹر سے بھی جھلکتا ہے ، جسے اسرائیل نوازمیڈیا خوف کا نام دے رہا ہے۔گویا غزہ کے جیالے زبانِ حال سے یہکہہ رہے ہیں کہ بھلے ہی دشمن ہمیں ختم کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ، لیکن ہمیں دشمن کا کوئی خوف نہیں ہے۔
ان سب کے باوجود اب غزہ کے لوگوں پر اسرائیل کی جانب سے تھوپی گئی قیامت ختم ہونی چاہئے اور جنگ کا اختتام اس صورت میں ہونا چاہئے کہ اسرائیل غزہ کا محاصرہ ختم کرے ، جس کا ۱۲ء کے امن معاہدے میں واضح تذکرہ موجود ہے ۔ ۲۳جولائی کو ہوئے جنیوا میں یواین او کے ہیومن رائٹ کمیشن کے اجلاس میں اسرائیل کوجنگی جرائم کا مجرم قرار دیا جاچکا ہے ۔ اس اجلاس میں کل ۲۹ممالک نے اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا ہے کہ اس کے جنگی جرائم کی جانچ ہونی چاہئے جبکہ صرف امریکہ نے اسرائیل کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اسرائیل کی غزہ میں جاری بربریت کو پوری دنیا نے جنگی جرم تسلیم کیا ہے۔ اب اس مجرم کومزید جرم کرنے سے روکنے میں ان۲۹ممالک کو اہم کردار ادا کرنا چاہئے۔(

«
»

مردانہ جوابی کارروائی

فلسطین: ہم رنجیدہ بھی ہیں شرمندہ بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے