قریب ایک ماہ سے جاری رہنے والے ان وحشت ناک جان لیوا حملوں میں دو ہزار کے لگ بھگ عام فلسطینی شہری بشمول معصوم ننھے منے بچے، ضعیف مرد و خواتین جاں بحق ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ فلسطینی علاقہ کو۴ تا ۶ بلین ڈالر س کا نقصان ہوا ہے۔ عارضی جنگ بندی کے دوران ساحلی پٹی سے یہودی فوج کی دستبردای عمل میں لائی جارہی ہے جبکہ دفاعی چوکیوں پر اسرائیلی فوج تعینات رہیگی۔ اسرائیل جو شدید ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گذشتہ ایک ماہ سے غزہ کے عام شہری علاقوں پرفضائی، بحری اور زمینی حملے کررہا تھا ۔ بین الاقوامی سطح پر عوامی احتجاج نے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا کیونکہ عالمی سطح پر اسرائیلی پروڈکٹس اور دیگر اسرائیلی اشیاء کے بائیکاٹ کے نتیجہ میں اسرائیل کی معیشت پر بھاری نقصان ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی حکومت مصر کی جانب سے 72گھنٹے کی عارضی جنگ بندی پر رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے عمل آوری کا آغاز کیا ہے۔ فلسطینی وفد نے مصر کے مصالحت کاروں کے روبرو جو مطالبات پیش کئے ہیں ان میں غزہ سے اسرائیلی فوج کی دستبرداری، غزہ سے اسرائیلی فوج کا محاصرہ ختم کرنا ، سرحدی راستوں کو کھولنا اور غزہ کے ساحل میں 12میل کے فاصلہ تک ماہی گیری کا حق اور فلسطینیوں قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔ اسرائیل ان میں بعض مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کررہا ہے جس کی وجہ سے حماس ان شرائط پر مکمل عمل آوری چاہتے ہیں۔ اگر قاہرہ میں مذاکرات کا عمل کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے کہ غزہ کے مظلومین کو ایک ماہ بعد سکون و اطمینان حاصل ہوگا۔ لیکن جو بچے یتیم و یسیر ہوچکے ہیں اور جو خواتین بیوائیں ہوچکی ہیں اور جن مانباپ کے نوجوان جاں بحق ہوچکے ہیں ان غم تو اپنی جگہ رہے گا ۔ زخمیوں کے جسم زخموں سے مندمل تو ہوجائیں گے لیکن ان کے دل و دماغ پر اسرائیل ظلم و بربریت کے جو داغ لگے ہیں وہ شائد زندگی بھر مندمل نہ ہوپائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان معصوم فلسطینی بچوں اور بڑوں کو جو زخموں کی وجہ سے تکالیف میں مبتلا ہے صحت و عافیت اور تندرستی عطا فرمائے اور ان کی بہتر سے بہتر کفالت کے انتظامات فرمائے ۔ آمین۔
غزہ پر اسرائیلی ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے برطانیہ دفتر خارجہ کی مسلم خاتون وزیر برائے مذہب اور سماجی امور سعیدہ وارثی نے کیمرون حکومت سے استعفیٰ دیدیا ہے۔ انہوں نے حکومت برطانیہ کی جانب سے غزہ پالیسی کو انتہائی تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے احتجاجاً اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ سعیدہ وارثی نے اپنے استعفیٰ میں لکھا ہے کہ حکومت برطانیہ کی غزہ کے حوالے سے پالیسی اخلاقی لحاظ سے قابلِ دفاع نہیں ہے اور برطانیہ کے قومی مفاد میں نہیں ہے اور اس کے ملک کی عالمی اور اندرونی ساکھ پر دور رس اثرات مرتب ہونگے۔ سعیدہ وارثی برطانوی کابینہ میں شامل ہونے والی پہلی خاتون مسلمان ہیں۔ برطانوی حکمران جماعت کے کئی اراکین نے وزیر اعظم پر زور دیا کہ وہ اسرائیل سے متعلق اپنی پالیسی کو متوازن بنائیں۔ سعیدہ وارثی کا شماربرطانوی کنزرویٹو پارٹی کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ ان کے استعفیٰ کے بعد اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو بھی چاہیے تھا کہ وہ بھی اپنے اپنے ممالک میں غزہ کے مظلومین پر اسرائیلی ظلم و بربریت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مستعفی ہوجاتے لیکن اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیل پر جس طرح کا شدید دباؤ ہونا چاہیے تھا ایسا کہیں سے منظم نہیں کیا گیا۔ آج بین الاقوامی سطح پر اسلامی ممالک اپنی معاشی خوشحالی کے سبب اثر و رسوخ کا استعمال کرسکتے ہیں لیکن ان حکمرانوں کو اپنے اقتدار کے چلے جانے کا ڈر ہے، انہیں ڈر ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو وہ اقتدار سے محروم کردےئے جائیں گے یہی وجہ ہے کہ وہ امریکہ اور مغربی و یوروپی ممالک کے خلاف کچھ کہنے کی ہمت نہیں کرتے اگر کچھ کہہ بھی دےئے تو ان کی پالیسی میں ڈوغلاپن صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان ممالک کو برطانوی مسلم خاتون وزیر سے سبق سیکھنا چاہیے کاش مسلم حکمراں ۰۰
جواب دیں