غزہ کے دشمن اسرائیل سے عالم عربی تک !

بھی امریکہ شیطان ایک ہی بات بار بار تب تک دہراتا رہے گا جب تک نہ خون کے پیاسے یہودیوں کی پیاس بجھ جائے کہ پہلے حماس راکٹ حملے بند کردیں پھر ہم جنگ بندی کرادیں گے اور اس بے غیرت اور انسانیت دشمن امریکہ اور یورپ میں اتنی بھی جرأت نہیں ہے کہ وہ اسرائیل سے یہ پوچھ سکے کہ ایک بے ضرر راکٹ فائر کے بدلے میں سارے غزہ کو آگ و آتش میں نہلانا کس اصول کے مطابق درست ہے اور امریکہ اور مغرب پوچھ بھی کیوں لے اس کے اپنے ہاتھوں پر افغانستان سے لیکر عراق تک لاکھوں مسلمانوں کا خون لگا ہوا ہے !
جہاں تک عالم اسلام کا تعلق ہے وہ میرے خیال میں کہیں ہے ہی نہیں اس لیے کہ مفروضہ عالمِ اسلام کا اطلاق اس مسلم دنیا پر نہیں ہوتا ہے جس کے نام دجالی دنیا نے کم و بیش پچاس حکومتیں کھلی چھوڑی ہیں یہ حکومتیں نہیں بلکہ راجواڑے ہیں جو امریکہ،روس،برطانیہ،چین،فرانس اور اسرائیل کے سامنے جوابدہ ہیں یہی وجہ ہے مسلم ممالک کو دیکھ کر یہی تصویر ذہن میں آتی ہے کہ یہ کسی ’’حکومت اور حاکم ‘‘کے ماتحت مختلف گورنریاں ہیں جن کے گورنروں کے نام شاہ عبداللہ ،سیسی،کرزائی اور نواز شریف وغیرہ ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ اگر یہ امریکہ اور مغربی ممالک کے ماتحت گورنر نہ ہوتے تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی ،وہ اسرائیل کی طرح گرجنے کے برعکس برسنے والے ہوتے ،ان کی آواز میں دم ہوتا ،ان کی دنیا میں اہمیت ہوتی ،اقوام عالم انھیں ’’بڑے ریوڑوں کے چراواہے ‘‘تصور نہ کرتی !
مفروضہ عالم اسلام کے حکمرانوں کی حیثیت دنیا میں صرف اتنی سی ہے کہ گویا امریکی ملازم ہوں جس نے انھیں بعض علاقوں کے عوام سمیت ’’پٹے پر دی گئی زمین ‘‘میں چند حقوق دے رکھے ہوں تاکہ مسلم عوام یہ سمجھ بیٹھے کہ ’’کوئی غیر نہیں اپنا ‘‘ہی ہم پر حکومت کرتا ہے اور’’ زندگی کا یہ رسوا کن‘‘سفر کسی طرح طے ہو جائے اور گویا امریکہ نے ان مسلمان غلاموں کی ڈیوٹی صرف یہ رکھی ہو کہ عوام کے روٹی ،کپڑا اور مکان کا خیال رکھتے ہوئے وقت پر ’’آئی ،ایم ،ایف‘‘کے کھاتے میں قرضے کی قسط جمع کر لیا کریں بصورت دیگر امریکہ کسی بھی طرح کی چالاکی سے اسی طرح نپٹ لے گا جس طرح صدام یا قذافی سے نپٹ چکا ہے،مسلم علاقوں کے چودھری بشکلِ حکمران اپنے انجام سے پریشان امریکہ کی غلامی میں اس قدر غرق ہیں کہ وہ ایک لفظ حتیٰ کہ اپنے ذاتی معاملات میں بھی امریکی مرضی ملحوظ رکھتے ہیں۔
غزہ کے مسلمانوں نے عرصۂ دراز سے اُمت پر پڑا ’’القدس کی حصولیابی‘‘کے قرض چکانے کا بوجھ تنہا اپنے کمزور کاندھوں پر اُٹھا رکھا ہے ضرورت اس امر کی تھی کہ اسرائیل کے مقابلے میں اُمت مسلمہ ان کمزور اور محصور بھائیوں کی ہر طرح سے مدد کرتی مگر اُمت مسلمہ نے نصرت کے لفظ کو پامال کرتے ہوئے گذشتہ چھے دہائیوں سے معاملہ احتجاج،آہوں،آنسوؤں،دعاؤں،بیانات،سیمناروں اورچند حقیر ٹکوں تک محدود رکھا ہے جبکہ آج کے اسرائیل کے مقابلے میں اہلیانِ غزہ کو ڈالروں اور آہوں کے بجائے جدید ہتھیاروں کی ضرورت ہے جو امریکہ کی لغت میں شام ،عراق اور لیبیا کے مفروضہ کیمیائی ہتھیاروں سے بھی بڑا جرم ہے اور مفروضہ عالم اسلام نے تو صدام اور قذافی کے انجام کے بعد بصدق دل اس سے توبہ نصوح کر رکھی ہے۔مسلم ممالک جدید ہتھیار نہ صرف خرید سکتے ہیں بلکہ انھیں کسی خوف اور دباؤ کے بغیر انھیں استعمال بھی کر سکتے ہیں جب انھیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا ہو تو پھر نہ امریکہ کو کوئی سروکار ہے اور نہ ہی کسی مغربی ملک کو کوئی مروڑ!!!
آج کے مسلم دُنیا کا حالت ماضی کی تمام تر حالتوں سے بدتر حالت ہے ،پچاس سے زیادہ مسلم ممالک مکمل طور پر ذہنی افلاس میں مبتلا ہیں وہ اپنی شناخت کھوتے جا رہے ہیں وہ امریکہ اور اسرائیل کے غلام ہیں سعودی عربیہ ،متحدہ عر ب امارات اور مصر کو حماس سے خدا واسطے کی نفرت صرف اس وجہ سے ہے کہ حماس اخوان المسلمون کی پیداوارہے اوروہ اخوان کو اپنی ماں تصور کرتے ہیں ڈاکٹر مرسی کی جائز حکومت کو گرانے کے بعد مصر ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیکر وہ رسواکن اور نیچ کام کیا ہے کہ شاید امریکہ کی’’دہشت گردانہ تاریخ‘‘میں بھی اس قدر وحشتناک صورت نظر نہ آتی ہواور حماس جس نے اپنی’’ مجاہدانہ کاروائیوں‘‘سے اُمت مسلمہ کا سر اونچا کیا ہے سے بھی ان ’’دہشت گرد عرب حکمرانوں ‘‘نے ’’ضدِ اخوان‘‘میں انتقام لینے کی کوئی ایک بھی صورت باقی نہیں چھوڑی ہے ،چنگیز و ہٹلر کی درندگی ان مکاروں کی عیاریوں کے سامنے ہیچ نظر آتی ہے ۔
مڈل ایسٹ مانیٹر20جولائی 2014ء کی اشاعت میں ڈیوڈ ہاسٹ اس بات کا انکشاف کرتا ہے کہ غزہ میں قیامت صغریٰ برپا کرنے میں جہاں مصر کھل کر سامنے آچکا ہے وہی سعودی شاہی خاندان کی اس حوالے سے اسرائل کے ساتھ سانٹھ گانٹھ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے اور تو اور متحدہ عرب امارات نے تو ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل ٹیم کی روپ میں حماس کی ساری عسکری سرگرمیوں اور تنصیبات کی اطلاعات اسرائیل کو فراہم کرنے کے لئے پچاس افراد پر مشتمل ٹیم چند روز قبل غزہ روانہ کردی جب حماس کو ان کی ناپاک عزائم کا علم ہوا تو بلا کسی پس و پیش کے انھیں علاقہ چھوڑنے کا حکم دیدیااور اب حماس کو خدشہ ہے کہ جاسوسوں کی ٹیم کی اطلاعات اسرائل کو فراہم ہو نے سے اس سے شاید اور بھی زیادہ نقصان اٹھانا پڑے۔یہ ہے عالم عربی اور یہ ہے بے ضمیر عالم اسلام جس کے غزہ کے حوالے سے غفلت کا رونا ہم ہمیشہ سے روتے آرہے ہیں ایسے میں مجاہدین کو کہیں بھی مدد یا منصوبہ بند ٹھکانہ میسر ہونا نا ممکن بات ہے اور سچی بات یہ ہے کہ دور حاضر میں اسلام کو جو نقصان ان نام نہاد خادمین حرمین اور سیکولر مسلمانوں نے پہنچایا ہے وہ نقصان کوئی امریکہ اور اسرائل نہیں پہنچا سکا ہے۔

«
»

عراق جنگ کا ایندھن بھارت کے مسلم نوجوان

یہ کن کی لاشیں تڑپ رہی ہیں،یہ کن کا تازہ لہورواں ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے