گائے صرف ووٹ کا موضوع

اس کے علاوہ یاد نہیں کبھی بکروں کی قربانی کی گئی ہو۔ ہماری والدہ مرحومہ بہت کمزور تھیں حکیموں نے پابندی لگادی تھی کہ بکرے کے گوشت کے شوربہ اور چپاتی کے چھلکے کے علاوہ کچھ نہ کھائیں اس لئے صرف اتنا گوشت آتا تھا کہ وہ کھائیں۔
ملک تقسیم ہوا پاکستان بنا تو ہندوستان میں گائے کے گوشت پر پابندی لگ گئی۔ اور جگہ جگہ گائے پر انسان کا خون بہنے لگا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انگریزوں کی حکومت کے زمانہ میں ہر سال اس مسئلہ پر تو کہیں نہ کہیں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ٹکراؤ ہوجاتا تھا کہ تعزیہ پیپل کی ٹہنی سے ٹکرا رہا ہے اس لئے ٹہنی کاٹ دی جائے اور ہندو ایک پتہ کو توڑنے کی بھی اجازت دینے پر تیار نہیں ہوتا تھا لیکن بقرعید میں گلی گلی گائے کٹتی تھی اور مارکیٹ میں 100-100 گائیں کٹ کر بکتی تھیں تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ یعنی انگریز کی حکومت میں پیپل تو بھگوان تھا اور گائے صرف جانور تھی لیکن ہندوؤں کی حکومت ہوتے ہی گائے پیپل سے بڑی بھگوان ہوگئی اور اب پیپل کاٹنے کے نام پر کوئی مسلمان نہیں کاٹا جاتا لیکن گائے کی افواہ بھی پھیل جائے تو مسلمانوں کا پورا گاؤں پھونک دیا جاتا ہے۔
یوپی اسمبلی میں مویشی پروری وزیر راج کشور سنگھ نے بھاجپا ممبروں پر ہی جانوروں کی اسمگلنگ اور غیرقانونی ذبیحہ چلانے کا الزام لگایا۔ وزیر پارلیمانی امور محمد اعظم خاں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ مذبح کا لائسنس مرکزی حکومت دیتی ہے۔ مرکز میں وزیر اعظم بی جے پی کے ہیں وہ لائسنس دینا بند کرادیں تو گائے کا گوشت ملک سے باہر جانا بند ہوجائے گا۔ خاں صاحب نے مزید کہا کہ ملک کے پانچ ستارہ ہوٹلوں میں گائے کا گوشت ملتا ہے آپ کو یقین نہ ہو تو کسی بھی ہوٹل کا مینو دیکھ لیں۔ لوک سبھا کے الیکشن نے ثابت کردیا ہے کہ ہر ہندو بی جے پی کا ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ گائے عمربھر دودھ نہیں دیتی اس کا جب دودھ کم اور خرچ زیادہ ہوجاتا ہے یا دودھ دینا بند کردیتی ہے تو وہ اسے فروخت کردیتا ہے اور ظاہر ہے جو خریدے گا وہ مسلمان ہوگا اور وہ اس کا گوشت اور کھال فروخت کرکے روزی کمائے گا۔ جمشید پور میں جب روس کے تعاون سے اسٹیل پلانٹ لگا اور روسی آئے تو جمشید پور میں گائے کاٹنے پر پابندی ختم کردی گئی۔ بیس سال پہلے تو ہم نے بھی وہاں کا گوشت کھایا ہے اب معلوم نہیں کہ وہی حال ہے یا پابندی لگ گئی؟
گائے کے کاٹنے اور فروخت کرنے پر صوبوں نے بھی پابندی لگا رکھی ہے اور مرکزی حکومت نے بھی لیکن دونوں میں کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ناکارہ گائے کا کیا ہو؟ جرسی گائے ہزاروں روپئے کی ملتی ہے وہ شروع میں تو پندرہ کلو دودھ روز دیتی ہے اس کا بچہ اگر نہ پیدا ہوا تو وہ کسی کام کا نہیں ہوتا۔ اسے یا تو بھوکا رکھ رکھ کر مار دیا جاتا ہے جو خود پاپ ہے یا بڑا ہوجائے تو قصائی کو دے دیا جاتا ہے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ گائے کٹ رہی ہے ہر جگہ نہیں تو کہیں کہیں کٹتی ہے اور اس لئے کٹتی رہے گی کہ بیچنے والا بیچ رہا ہے خریدار خرید رہا ہے کاٹ کر بوٹی بوٹی اور کھال بک رہی ہے پولیس اپنا حق لے رہی ہے اور افسر اپنا حصہ لے رہا ہے آخر کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ ہر دن سیکڑوں کھالیں کہاں سے آجاتی ہیں؟ جو نیتا اسمبلی میں بھاشن دے رہے ہیں وہ کیوں نہیں معلوم کرتے کہ جب گائے کٹی ہی نہیں تو کھال کہاں سے آگئی؟ قربانی کی کھالوں کے متعلق یہ حکم ہے کہ یا تو اسے فروخت کرکے اس کی قیمت کسی دینی کام میں لگادو یا کسی مدرسہ میں دے دو۔ زیادہ تر لوگ مدرسوں اور یتیم خانوں میں کھالیں دیتے ہیں اور ایک ایک بڑے مدرسہ سے سیکڑوں کھالیں گائے کی خریدار لے جاتے ہیں آپ نے آج تک نہ سنا ہوگا کہ کھال پکڑکر تفتیش کی اور مدرسہ والوں پر مقدمہ قائم کردیا۔
ایک مہاشے نے چند دن پہلے فرمایا تھا کہ گائے کو قومی جانور قرار دے دیا جائے یہ سب احمقانہ باتیں ہیں اگر گائے کا گوشت کھانے کا الزام مسلمانوں پر ہے تو مراٹھا مسلمانوں سے زیادہ کھاتا ہے بنگالی ہندو مراٹھا سے زیادہ کھاتا ہے اور آدی واسی سب سے زیادہ کھاتا ہے۔ گائے مسئلہ پر لڑنا فطرت سے لڑنا ہے۔ قدرت نے اسے جانور بنایا ہے تو وہ جانور ہی رہے گا اور پیدا کرنے والے نے اسے کھانے کے لئے پیدا کیا ہے تو وہ کھائی ہی جائے گی۔ ہندو ہی اس کی مخالفت کرے گا اور ہندو ہی اس کے گوشت کو دوسرے ملکوں میں بھیج کر زرمبادلہ کمائے گا۔ ہندو ہی قصائی کے ہاتھ بیچے گا جو کاٹ کر مسلمان کے ہاتھ فروخت کرے گا اس لئے کہ وہ بھی ہندو ہی ہے جو ہر سال رام چندرجی اور سیتا جی کی نئی مورتی لاکر اس کی پوجا کرتے ہیں اور پرانی چھت پر پھینک دیتے ہیں یا بنگالی دس دن دیوی کی پوجا کرتا ہے اس کے بعد اسے دریا میں بہا دیتا ہے ایسے ہی نئی گائے لاکر اس کا دودھ پیتا ہے اس کی پوجا کرتا ہے پھر جب اس کا دودھ سوکھ جاتا ہے تو اس کے پیسے بناکر دوسری لاتا ہے اور اس کی پوجا شروع کردیتا ہے۔ اس لئے بے وجہ گائے پر بحث چھیڑنا جہالت ہے اور اس جہالت سے کوئی فائدہ نہیں اس لئے کہ قانون گجرات میں 55 سال میں شراب پر پابندی میں کامیاب نہ ہوسکا تو ملک گائے پر کیسے ہوجائے گا؟

«
»

خوف

افغان یوٹرن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے