گائے پر نبندھ

کسی جیل میں سنگین جرم میں سزا کاٹ رہے چار پانچ قیدی آپس میں متعارف ہوئے۔ ایک نے کہا مجھے گھوٹالے میں سزا ہوئی ہے، ایک نے کہا ، چار لوگوں کے قتل میں آیا ہوں، کسی نے کہا ڈکیتی میں۔ ایک قیدی سر جھکائے، نظریں نیچی کیے ہوئے شرمندہ سا گم سُم بیٹھا تھا۔ کسی نے اُس کے پوچھا ’تم کیا کر کے آئے ہو؟‘ ۔
وہ بغیر کچھ بولے ’وکٹری کے وی‘ کی طرح انگلی دکھا دی۔
کسی نے پوچھا ’دو بم بلاسٹ؟‘۔
اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
دوسرے نے اپنی رائے ظاہر کی ’دو ہائی جیک‘۔
اس نے پھر نفی میں سر ہلایا۔
تیسرے نے ڈانٹ کر کہا ’ابے بولتا کیوں نہیں ہے؟‘
وہ بیچارہ بڑی شرمندی کے ساتھ ڈرتے ڈرتے بولا ’کچھ نہیں بھائی صاحب! صرف دو کباب کھائے تھے‘۔
ہندو دھرم شاشتروں کے مطابق یہ ’کَل ےُگ‘ ہے اور اس ےُگ میں کیا نہ ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔اِس ووقت دیش کے جو بھاگیہ ودھاتا ہیں ان لوگوں نے عام لوگوں پر زندگی تنگ کر رکھی ہے۔مسلمان بھگوا ذہنیت کی آنکھ میں کھٹکنے والاتنکا تو ہیں ہی جو ہمیشہ کھٹکتے رہے ہیں اور اللہ نے چاہا تو آگے بھی کھٹکتے ہی رہیں گے۔ اسکے علاوہ دلتوں کو بھی نہیں چھوڑتے کسی دلت کی پٹائی اس لیے کر دی جاتی ہے کہ اپنی بارات میں دولہا بن کر گھوڑے پر بیٹھ جاتا ہے۔کبھی اس لیے پیٹا جاتا ہے کہ ’جئے بھیم کی دُھن اپنے موبائل پر بجاتا ہے‘۔دلتوں پر مظالم آج بھی اُسی طرح کے دیکھنے کو مل جاتے ہیں جوکبھی ’جین‘ و ’بودھ‘ مذاہب بننے کی وجہ بنے تھے۔
کسانوں کی زندگی کا مقصد تو کچھ رہا نہیں۔پیش بندی میں’جن دھن یوجنا ‘ کے تحت بینکوں میں کسانوں کے کھاتے کھُل گئے ہیں۔جیسے ہی زمین حاصل کرنے والا بِل پاس ہوتا ہے، فوراً ہی کسان سے زمین خرید کر پیسے ان کے کھاتوں میں جمع کر دیے جائیں گے۔جانوروں کا کاروبار کرنے والے کسان تو بیچارے بے موت مریں گے، اپنے جانور کس کو بیچیں،انہیں جانوروں کی بدولت ان کے یہاں شادی بیاہ اور دیگر تقاریب ہوا کرتی تھیں۔کتنے ہی جانور بھوکے پیاسے مر رہے ہیں۔کسان کو جب ان سے کچھ فائدہ ہی نہیں ہونا ہے توخود کھائیں یا جانور کو کھلائیں۔نتیجہ یہ ہے کہ جانور اب آوارہ گھوم رہے ہیں۔
عا لی جناب مختار عباس نقوی صاحب فرماتے ہیں(بڑے لوگ فرماتے ہیں) کہ جسے گائے کا گوشت کھانا ہو وہ ’پاکستان ‘ یا ’عرب ممالک چلا جائے‘۔اگر میں یہ کہوں کہ ’یہ ملک ان کے باپ کا نہیں ہے‘ توسو فیصدعلی جناب برا مانیں گے اور یہ تہذیب کے خلاف بھی ہے ،شرفاء میں اس طرح کے سڑک چھاپ جملے استعمال نہیں ہونے چاہئے لہذا میں وہ نہ کہکر اگر یہ کہوں کہ یہ ملک مرحوم اے.ایچ. نقوی صاحب کا نہیں ہے تویہ جملہ شائستگی کاہوگااور کوئی بھی شریف شخص اسے ہضم کر سکے گا۔ ( ’اے.ایچ.نقوی‘ ،جناب مختار عباس نقوی کے والدمحترم کا نام ہے)۔
نقوی صاحب کی بے تکی بات کے جواب میں بی.جے.پی. پارٹی نے اپنا پلہ جھاڑ لیا اور وہ اس مدعے پرفصل بہار میں تال ٹھوکے اکیلے کھڑے ہیں۔ مرکزی حکومت کے نائب وزیر داخلہ ’ جناب کِرن رِجّجو‘ نے نقوی صاحب کے بیان کی مخالفت کی اور صحافیوں سے کہا’’جہاں ہندو اکثریت میں ہیں وہاں قانون بنا سکتے ہیں لیکن شمال مشرقی علاقوں میں اسے تھوپا نہیں جا سکتا یہاں کی اکثریت گائے کا گوشت کھاتی ہے۔انھوں نے کہا کہ میں اروناچل پردیش سے ہوں اور گائے کا گوشت کھاتا ہوں،کیا کوئی مجھے ایسا کرنے سے روک سکتا ہے؟ اس لیے اس مدعے کو لیکر بہت زیادہ جزباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔انھوں نے کہا ہمار ا ملک جمہوری ہے،کبھی کبھی لوگ ایسا بیان دے دیتے ہیں جو حلق سے نہیں اترتا۔انھوں نے کہا کہ اگر کوئی ’میزو عیسائی‘ کہتا ہے کہ یہ زمین عیسیٰؑ کی ہے تو اس پر پنجاب اور ہریانہ کے لوگوں کا کیامسئلہ ہو سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے کی تہذیب،رسم و رواج اور احساسات ، اور جذبات کی قدر کرنی چاہئے۔
محترم مارکنڈے کاٹجواپنے ’فیس بُک‘ کی پوسٹ میں فرماتے ہیں’ میں ہندو ہوں اور گائے کا گوشت کھاتا ہوں، ملتا رہے گا توکھاتا رہوں گا۔دنیا میں ۹۰؍فیصد لوگ گائے کا گوشت کھاتے ہیں توکیا یہ سب گنہگار ہیں؟اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ۹۰؍فیصد انسان یہاں بیوقوف ہے جس میں مختار عباس نقوی بھی شامل ہیں‘۔
اسی پوسٹ کو ’سچن گوترا‘ بھی پسند کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ یہ انسان کی ذاتی پسند ہے کہ وہ گائے کھاتا ہے یا سور! ۔کسی کی خوراق ، سماج کو طے کرنے کا کیا حق ہے۔اور پھر کوئی جانور کسی انسان کی ماں کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘
مشہور فلم ایکٹر رشی کپور نے کہا ’’میں ایشو ر سے ڈرنے والا ہندو ہوں اور گائے کا گوشت کھاتا ہوں۔ میں گوشت کھانے کی وکالت تو نہیں کرتا لیکن ہر ایک کو کھانے کی آزادی ہونی چاہئے۔بیف پر پابندی لگی تو مجھے کنگارو کا گوشت کھانا پڑ ا۔
فلم ایکٹریس روینا ٹنڈن ’ گائے کے گوشت بندی ‘ کے سلسلہ میں کہتی ہیں کہ اسے لاگو نہ کیا جانا چاہئے،اسے اختیاری رکھنا چاہئے جس کادِل چاہے کھائے اور جس کا دِل نہ چاہے وہ نہ کھائے۔
وشال دادلانی کہتے ہیں کہ میں تو سبزی خور ہوں اس کی پابندی کا اثر مجھ پر نہیں پڑنے والا۔لیکن پسند کی آزادی کا خیال رکھنا چاہئے۔ملک میں ۳۰؍فی صد سے زیادہ لوگ گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔
مشہور فلم ’پی.کے.‘ کی ادارہ انشکا شرما ابھی حال ہی میں سبزی خور بنی ہیں۔انھوں نے بھی اس طریقہ کار کو غلط بتلایا۔
ڈاکٹر ڈی.این.جھا دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسراور’انڈین کاؤنسل آف ہسٹورکل رسرچ، نئی دلّی‘ کے ممبرہیں نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا’’مقدس گائے کی داستان(the Myth of the Holy Cow)‘‘۔اس کتاب پر’جھا صاحب‘کو جان سے جار ے جانے کی دھمکی ملی تھی۔ کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’گائے کو بھارت میں بہت زمانے سے ہندو مذہب کی پہچان اور پاکیزگی کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے۔گائے کو مارنا اور کھانا دونوں ہندومذہب میں منع ہے۔ہندوؤں میں یہ بات عام طور سے سمجھی جاتی ہے کہ کھانے کی غرض سے گائے کا ذبیحہ مسلمانوں کے آنے سے شروع ہوا ہے لیکن ایسا نہیں ہے ۔مصنف کے تحقیق کے مطابق گوشت کے لیے گائے کو مارناقدیم بھارت میں رائج تھا۔مصنف لکھتے ہیں کہ قدیم زمانے میں ہندو اور بدھ مذہب کے ماننے والے گائے کا گوشت کھاتے تھے۔ا ن کے مطابق گائے کو اٹھارہویں اور انّیسویں صدی میں مذہبی طور پر اسے پاکیزگی کی حیثیت حاصل ہوئی۔کتاب میں لکھا ہے کہ ہندوپابندی کے ساتھ گائے کا گوشت کھاتے بھی تھے اور بھگوان کو چڑھاوے میں بھی چڑھاتے تھے۔
۲۰۸؍ اوراق کی مذکورہ کتاب ۲۰۰۹ء ؁ میں شائع ہوئی تھی اور اس کے پبلشر تھے ’نوائنا‘۔یہ کتاب شائع ہونے سے پہلے اور شائع ہونے کے بعد بہت متنازعہ بنی رہی۔
رام چندر جی بھی اپنے بن باس کے دوران ہرن کا شکار کرتے تھے۔ بھارت میں آج بھی مذہبی طور پر جانوروں کی ’بلی‘ عقدت کیساتھ دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ تنتر منتر میں انسانی زندگیاں بھی چڑھائی جاتی ہیں۔اس طرح کی خبریں آئے دن اخباروں کی زینت بنتی ہیں۔نیپال ہندو ملک ہے اور وہاں خاص پوجا کے موقع پر ہزاروں جانوروں کی ’بَلی‘ دی جاتی ہے۔فوٹو گرام کی شکل میں بلی سے تعلق رکھنے والے کافی فوٹوگراف ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
ممبئی پی.ٹی.آئی. کی ایک روپورٹ تاریخی ۲۱؍ مارچ ۲۰۱۵ء ؁ کے مطابق ایڈوکیٹ وشال سیٹھ اورطالبہ شائنا سین جو مذہبی اعتبار سے دونوں ہندو ہیں۔ان لوگوں نے مہاراشٹر ہائی کورٹ میں جانوروں کے تحفظ(ترمیم)کے قانون کو چیلنج کیاہے جس کے ذریعہ گائے کے ذبیحہ پر اور اس کے گوشت کے کھانے پر پابندی لگائی گئی۔
ایڈوکیٹ وشال سیٹھ اورطالبہ شائنا سین نے ہائی کورٹ سے بنیادی حقوق کے تحفظ کی درخواست کی ہے کہ ’’ ہم لوگ ہندو ہیں اورگوشت کے صارفین ہیں جو ہماری غذا اور غذائیت کے ذرائع ہیں۔ گوشت پر پابندی اور اس کی بکری مجرانہ فیل ہوگا ‘‘۔گوشت کے تاجروں نے بھی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
حیدرآباد کی یونیورسٹی کیمپس میں ’گائے کا گوشت کھانے کا دَلِت لوگ تیوہار مناتے ہیں‘ اور گائے کی بریانی کھانے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں۔دَلِت طالب علم چاہتے ہیں کہ ہاسٹل کے پکوان میں گائے کا گوشت بھی ہولیکن اونچی ذات کے لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ہمایت اور مخالفت اکثر جھگڑے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
بھارت جمہوری ملک ہے ، اس کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ہر مذہب کو ماننے والے کو یہ آزادی ہے کہ وہ اپنے مذہب کے طورطریقے آزادانہ منا سکیں۔اپنے عقیدے کے مطابق ہر کسی کو اس کی من پسند غزا کھا نے کا حق ہے۔اپنے مذہبی ٹھکانوں کی دیکھ بھال اوراس میں عبادت کر نے کا اختیار ہے۔
محترم اٹل بہاری باجپائی کی حکومت میں جناب شاہ نواز خانصاحب مرکزمیں وزیر تھے، اس بار ان کا نمبر نہیں لگا،کوئی بات نہیں ہے نقوی صاحب بھی تو وفاداروں میں سے ہیں لیکن ان کا قد اُس وقت سے مزید بڑھ گیا ہے جب سے انھوں نے کہہ دیا ہے ’گوشت کھانے والے پاکستان جایں‘۔خانصاحب کیوں پیچھے رہتے انھوں نے فرمایا’میں نے زندگی میں کبھی بھی گائے کا گوشت نہیں کھایا‘۔ 
واہ خانصاحب کیا مصرعہ کہا ہے۔آپ نے گوشت نہیں کھایا اورماشاء اللہ اتنی اونچائی پر پہنچ گئے، میرے ایک رشتہ دار ہیں انہوں نے گوشت کی طرح پکنے والی سبزی بھی نہیں کھائی،کسی قسم کا بھی گوشت کھانا تو دور کی بات ہے۔اپنے اصول میں اتنے سخت ہیں کہ جس چمچ سے پتیلی سے گوشت نکالا گیا ہے، اُسی چمچ سے ان کی سبزی نہیں نکالی جا سکتی۔
خان صاحب ! بڑے لوگوں کے کھانے کی بات ہی نہیں ہو رہی ہے۔بڑے لوگو تو پانچ ستارہ ہوٹلوں میں ذائقہ بدلنے کے لیے ’مکے کی روٹی اور سرسوں کا ساگ‘بھی کھاتے ہیں۔بڑے کا گوشت تو غریبوں کی غزاہے اور یہی غریب دھیرے دھیرے ملک سے صاف ہو رہے ہیں۔ کسان خودکشیوں پہ خود کشیاں کر رہے ہیں لگتا ہے جیسے کوئی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

«
»

پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کی خدمت میں

کیا ارسطو کا فلسفہ اسلام کے خلاف ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے