آخر تشددپر کیوں آمادہ ہے یہ ہجوم؟

ماب لنچنگ: مسلمان نہیں، ہندوستان کے لئے خطرے کی گھنٹی 

غوث سیوانی،نئی دہلی

    چند ماہ قبل راستے سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا،راجدھانی دہلی کے بھیڑ والے علاقے کشمیری گیٹ میں چند لوگ ایک لڑکے کو ننگے کرکے پیٹ رہے تھے۔پیٹنے والوں کا کہنا تھا کہ لڑکے نے پرس چوری کیا ہے۔ گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش میں گاؤں والوں نے ایک ٹرک اور اس پر سوار کچھ لوگوں کو پکڑا اور انھیں مارپیٹ کر تھانہ لائے۔ اس ٹرک پر گائیں لے جائی جارہی تھیں۔اسی طرح بہار کے چھپرہ ضلع کے بنیاپور میں تین افراد کو چوری کے شک میں بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مارڈالا۔ جب کہ  جھارکھنڈ کے گملا ضلع میں دوآدیباسی مردوں اور دو عورتوں کو ڈائن ہونے کے شک میں ہجوم نے قتل کرڈالا۔گؤرکھشا کے نام پر گائے لے جانے والوں کے ساتھ مارپیٹ عام بات ہے، مبینہ چوروں کی عوامی پٹائی کی خبریں بھی روزانہ میڈیا میں آرہی ہیں اور کسی غریب خاتون کو ڈائن یا بچہ چور کہہ کر ماردینا بھی روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔اس قسم کی خبریں خواہ کچھ ریاستوں سے زیادہ آرہی ہوں مگر ملک کے تقریباً ہر حصے سے کم وبیش آرہی ہیں۔ممکن ہے بھیڑ کے تشدد میں مرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو مگر صرف مسلمان نہیں مارے جارہے ہیں۔اسی طرح میڈیا میں کئی ایسی خبریں بھی آئی ہیں جن کے مطابق مسلمانوں کو ”جے شری رام“کہنے پر مجبور کیا گیا اور جب انھوں نے انکار کیا تو ان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے واقعات ملک کے امن وامان کے لئے ایک چیلنج ہیں اور بھارت کے روادار معاشرے کے لئے خطرے کی گھنٹی بھی۔ یہی سبب ہے کہ ماب لنچنگ کے خلاف پورے ملک میں احتجاج ومظاہرے ہورہے ہیں اور بعض ریاستیں اس کے خلاف قانون سازی پر غور کر رہی ہیں۔
 کیا قانون بنے گا؟
    جس طرح سے ملک بھر سے ماب لنچنگ کی خبریں آرہی ہیں، مرکز کو اس کے خلاف قانون بنانا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ گورکھشا اور ماب لنچنگ کے خلاف مودی سرکار قانون کیوں نہیں لاتی؟ آخر کیا سبب ہے کہ اسے ’تین طلاق‘کا ظلم نظر آتا ہے مگر گائے کی حفاظت کے نام پر انسانوں کے قتل کا گناہ نظر نہیں آتا؟ کیا اس سلسلے میں مدھیہ پردیش سرکار کی پہل سے ملک کی دوسری حکومتیں سبق لیں گی؟ کیا اترپردیش کی حکومت بھی اس جانب دھیان دے گی اور گورکشکوں کی غنڈہ گردی بند کرائے گی؟ اصل میں اس وقت ملک بھر میں ماب لنچنگ اور گو رکھشا کے واقعات دہشت کی نئی علامت بن کر ابھر رہے ہیں مگر ساری دنیا میں بھارت کی بدنامی اور سپریم کورٹ کے سخت احکام کے باجود ان کی روک تھام کا کوئی معقول انتظام نہیں کیا جارہا ہے۔حال فی الحال میں مدھیہ پردیش کی کمل ناتھ حکومت نے اپنے موجودہ قانون میں تبدیلی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ دوسری طرف اترپردیش لاء کمیشن نے یوپی سرکار کو سفارش بھیجی ہے کہ ماب لنچنگ اور گورکشا کے نام پر ہونے والے قتل اور تشدد کو روکنے کے لئے ایک قانون بنایا جائے مگر اب تک مرکزی حکومت کی جانب سے ایسے کسی عندیہ کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے احکام کے باوجود ماب لنچنگ
    ہندوستان میں ماب لنچنگ کا ایک معاملہ راجستھان کے راجسمند ضلع سے سامنے آیاہے، جہاں ایک پولس والے کو بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر قتل کردیا۔ہیڈ کانسٹبل عبدالغنی ایک زمینی تنازعہ کی تحقیقات کرنے کے لئے گئے تھے،جنھیں پیٹ کو مارڈالا گیا۔ ملک کی سب سے اونچی عدالت اس قسم کے واقعات کو لے کر بہت سخت ہے۔ تحسین پوناوالا کے مقدمے کی سماعت کے دوران، سپریم کورٹ نے ماب لنچنگ کے واقعے کو روکنے کے لئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے لئے ہدایات جاری کی تھیں۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ یہ حکومت کا فرض ہے کہ ہر شہری کی زندگی کی حفاظت کرے۔ آئین کے آرٹیکل 21 میں، ہر شہری کو زندگی کا حق حاصل ہے اور اگرکسی نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے، تو اسے قانون کے تحت سزا ملے گی۔ملزم کو صرف عدالت کی طرف سے مجرم ٹھہرایا جاسکتا ہے اور سزادی جاسکتی ہے، کسی بھیڑ کی طرف سے نہیں۔  عدالت کے علاوہ، کسی دوسرے شخص یا تنظیم یا گروہ کو کسی مجرم فرد کو سزا دینے کا حق نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص، گروپ یا آرگنائزیشن یہ کام کرتا ہے، تو یہ ایک جرم ہے، جس کے لئے اسے سزا دی جانی چاہئے۔اسی کے ساتھ انصاف کا تصور یہ بھی ہے کہ جب تک کسی شخص کو کسی جرم کے لئے عدالت کی طرف سے مجرم قرار نہیں دیا جاتاتب تک اسے معصوم ہی قرار دیا جائے گا۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے کرشنامورتی بمقابلہ شیو کمار معاملے میں کہا تھا کہ ایک مہذب معاشرہ میں صرف قانون کی حکمران ہوسکتی ہے،بھیڑ یا کسی بھی گروہ کی جانب سے ملزم کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی جاسکتی اور سزا نہیں دی جا سکتی۔
سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کیوں نہیں؟
    سپریم کورٹ نے ریاستوں کو ستمبر 2017 میں گورکشا کے نام پر تشدد کو روکنے کا حکم دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گورکشا کے نام پر قتل کے معاملے اتر پردیش، جھارکھنڈ اور راجستھان میں سب سے زیادہ ہو رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش بھی ایسے ہی صوبوں میں شامل ہے۔ابھی حال میں خبر آئی تھی کہ ٹرک سے مویشی لے جارہے لوگوں کو گاؤں والوں نے پکڑلیا اور ان کے ساتھ مارپیٹ کی، اٹھک بیٹھک کرائی اور رسیوں میں جکڑ کر د وکیلو میٹرپیدل چلاتے ہوئے پولس اسٹیشن تک لے گئے۔ یہاں آئے دن ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں مگر گورکھشا کے نام پر قتل کا آخری کیس مئی، 2018 میں ستنا میں ہواتھا جب ریاض خان نامی شخص کو بھیڑنے بیف لے جانے کے شک میں پیٹ پیٹ کر مارڈالا تھا۔کانگریس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سال فروری میں، مدھیہ پردیش حکومت کی کرکری ہوگئی تھی جب کھنڈوا اور مالوہ اضلاع میں مبینہ گائے اسمگلروں پر پولس نے رسوکا لگا دیا تھا۔ ریاستی حکومت نے اس وقت کہا تھا کہ اگر پولیس نے کارروائی نہیں کیا ہوتا تو پھر فرقہ وارانہ کشیدگی کا خطرہ بڑھ سکتا تھا۔بعد میں راسوکا ہٹانا پڑا تھا۔
قانون کی ضرورت
    فی الحال مدھیہ پردیش حکومت، مدھیہ پردیش گونش ذبیحہ کی روک تھام ایکٹ، 2004 میں ایک ترمیم کر رہی ہے، جس کے تحت افراد یاجائیداد پر مبینہ گورکھشکوں کے حملوں کو سنگین جرائم کے درجے میں رکھا جائے گا۔اس ترمیم کو سیکشن 6 کے طور پر شامل کیا جائے گا۔اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی فرد کو کم از کم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ تین سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے لیکن اگر قانون کی خلاف ورزی کسی غیر مجاز بھیڑ نے کی ہے تو اس معاملے میں نامزد ہر شخص کو کم از کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید اور 50ہزارروپے جرمانہ کی سزا مل سکتی ہے۔جرم کے ارتکاب پر اکسانے والے کو بھی مجرم کے لئے برابر سزا کا اس قانون میں حکم ہے۔دوسری طرف ماب لنچنگ کے بڑھتے واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، یوپی لا کمیشن کی طرف سے یوگی حکومت کو 128 صفحات کی ایک رپورٹ بھیجی گئی ہے۔ا س رپورٹ میں پچھلے دنوں ریاست میں ہوئے ماب لنچنگ کے مختلف معاملات کا ذکر کیا گیا ہے اور 2018 کے سپریم کورٹ کے حکم کی بنیاد پر فوری طور پرایسا قانون بنانے کی سفارش کی گئی ہے جس میں ایسے واقعات کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے عمر کی قید کی سزامقرر ہو۔رپورٹ میں ماب لنچنگ کو موجودہ دور کا ایک بہت ہی سنگین مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔یوپی لاء کمیشن کی سیکرٹری سپنا چوہدری کا کہنا ہے کہ گہرائی سے مطالعہ کے بعد،ہی کمیشن نے اس قانون کی فوری سفارش کی ہے۔
قانون کیا کہتا ہے؟
    انڈین پینل کوڈ کے ماہر یڈووکیٹ مارکنڈے پنت کے مطابق، فی الحال پولیس انڈین پینل کوڈ یعنی آئی پی سی کے سیکشن 153 اے کے تحت کیس درج کرتی ہے جس میں 3 سال تک سزا کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، آئی پی سی کے سیکشن 34، 147، 148 اور 149 کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔بھارت میں ماب لنچنگ کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ملک کے موجووہ قانون کے تحت اگر کسی بھی شخص کو ماب لنچنگ میں مارا جاتا ہے، تو اس کیس کو آئی پی سی کے سیکشن 302 اور دفعہ 34 یا 149 کے تحت درج کیا جائے گا۔ اس کے بعد،جو قصوروار پائے جائیں گے وہ قتل کی سزا پائیں گے۔ انھیں پھانسی یا عمر قید کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔
تشدد پر کیوں آمادہ ہے بھیڑ؟
    آج کل بھیڑ، تشدد پر کیوں آمادہ نظر آرہی ہے؟اس سوال کا جواب ہمارے خیال میں یہ ہے کہ جو تشدد، گائے کی حفاظت کے نام پر ہورہے ہیں،ان کے پیچھے سیاسی وجوہات ہیں۔ سیاسی مقصد کے تحت ہی ایک خاص نظریے کے لوگ ایسی حرکتیں کر تے ہیں اور انھیں پولس کا تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے جب کہ چوری، بچہ چوری،ڈائن کے نام پر اور دوسرے اسباب سے جو ہجومی تشدد سامنے آرہے ہیں،ان کے پیچھے کی وجہ شاید قانون سے عوام کی مایوسی ہے۔ عوام کو لگتا ہے کہ اگر چور کو پولس کے حوالے کردیا تو پولس رشوت لے کر چھوڑ دے گی اور اگر قانونی کاروائی ہوئی تب بھی وہ کچھ دن بعد عدالت سے رہا کردیا جائے گا۔ عام لوگوں کا نظریہ یہ ہوگیا ہے کہ جب قتل، ڈاکہ، ریپ کے مجرموں کو کوئی سزا نہیں ملتی بلکہ وہ ایم پی، ایم ایل اے اور منسٹربن جاتے ہیں تو چوری جیسے معمولی کیس میں کیا سزا ہوگی؟ ظاہر ہے کہ قانون کے تئیں عوام کی بے دلی نے ہی بھیڑ کو قانون توڑنے اور اسے ہاتھ میں لینے پر اکسایاہے۔ یہ صورت حال ملک کے عوام اور خاص طور پر حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو بھیڑ آج چور کو سڑکوں پر سزا دے رہی ہے،کل وہی کرپٹ نیتاؤں کو بھی سزادینے پر اتر آئی تو کیا ہوگا؟

(مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے )

28جولائی2019(فکروخبر)
 

«
»

رویش کا بلاگ: تالے میں بند کشمیر کی کوئی خبر نہیں،لیکن جشن میں ڈوبے باقی ہندوستان کو اس سے مطلب نہیں

تین طلاق بِل کی بار بار منظوری، بی جے پی حکومت کا سیاسی ہتھکنڈا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے