ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
ہندومسلم اتحاد کے علمبردار اور ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کرنے والے موہن داس کرم چند گاندھی کی پیدائش آج سے ۱۵۴ سال پہلے ۲ اکتوبر ۱۸۶۹ء میں گجرات میں ہوئی تھی۔ گاندھی جی نے ستیہ گرہ کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ستیہ گرہ کا مطلب عوامی سطح پر ظلم کے خلاف پُر اَمن طریقہ سے آواز اٹھانا۔ یہ طریقۂ کار ہندوستان کی آزادی کا سبب بنا اور دنیا کے لئے انسانی حقوق اور آزادی کی تحریکوں کے لئے روح رواں ثابت ہوا۔ انہیں احترام سے مہاتما گاندھی اور باپو جی کہا جاتا ہے۔ انہیں ہندوستانی حکومت کی جانب سے بابائے قوم (Father of the Nation) کے لقب سے نوازا گیا۔ گاندھی جی کی پیدائش کا دن، جس کو گاندھی جینتی کے نام سے جانا جاتا ہے، پورے ملک میں قومی تعطیل (National Holiday) کا درجہ رکھتا ہے ا ور دنیا بھر میں عدم تشدد (Non Violance) کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہندومسلم اتحاد کے ساتھ گاندھی جی کی مسلسل جدوجہد نے انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا اور آخر کار ہمارا ملک ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو آزاد ہوا۔
جنوبی افریقہ میں وکالت کرنے کے دوران انہوں نے ہندوستانیوں کے حقوق کی جدوجہد کے لئے سیول نافرمانی (Civil Disobedience) کا استعمال پہلی بار کیا تھا۔ ۱۹۱۵ء میں ہندوستان واپسی کے بعد انہوں نے کسانوں اور مزدوروں کے ساتھ زمین کے بے تحاشہ تعصب کے خلاف احتجاج کیا۔
۱۹۲۱ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت سنبھالنے کے بعد گاندھی جی نے ملک سے غریبی ختم کرنے، خواتین کے حقوق ادا کرنے، مذہبی اور نسلی خیر سگالی، چھوا چھوت کے خاتمہ اور معاشی خود انحصاری کے لئے مہم شروع کی۔ انہوں نے غیر ملکی کنٹرول سے ہندوستان کو آزادی دلانے کا عزم کیا۔ مہاتما گاندھی نے عدم تعاون کی تحریک (Non Cooperation Movement) کی قیادت کی، جس کے بعد ۱۹۳۰ء میں مارچ سے انگریزوں کی طرف سے عائد نمک چنگی کی مخالفت میں ۴۰۰ کیلومیٹر لمبی دانڈی یاترا شروع ہوئی۔ اس کے بعد ۱۹۴۲ء میں انہوں نے بھارت چھوڑو سیول نافرمانی تحریک کا آغاز آزادی کے مطالبہ کے ساتھ کیا۔ مہاتما گاندھی نے افریقہ اور ہندوستان دونوں جگہوں میں کئی سال جیل میں گزارے۔ عدم تشدد (Non Violance) کے پیشوا کے طور پر گاندھی جی نے سچ بولنے کی قسم کھائی تھی اور دوسروں سے بھی ایسا ہی کرنے کی اپیل کی۔ وہ سادی زندگی بسر کرتے تھے، وہ سابرمتی آشرم میں رہتے تھے اور بدن ڈھانپنے کے لئے روایتی ہندوستانی دھوتی اور چادر کا استعمال کرتے جو وہ خود اپنے چرخے پر بنتے تھے۔ وہ ہری سبزیاں کھایا کرتے تھے اور روحانی پاکیزگی اور سماجی احتجاج کے لئے اپواس (برت) رکھتے تھے۔
گاندھی جی کے اہم کارناموں میں ہندومسلم اتحاد، عدم تشدد (Non Violance) اور آہنسا کا فلسفہ اِس قابل ہے کہ اُن پر پوری دیانت داری کے ساتھ آج بھی عمل کیا جائے تو ملک کے اندر پیدا شدہ تشدد اور عدم برداشت کے ماحول کو ہم دور کرسکتے ہیں۔ ملک کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ گاندھی جی کی سوچ کے حامل سماجی کارکن آگے آئیں اور گاندھی جی کے اصولوں پر عمل کرکے ہندومسلم ایکتا کے لئے کوشش کرکے قوم کی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ صلاحیتیں لگوائیں جو وقت کی عین ضرورت ہے۔
گاندھی جی کا مسلک تھا کہ ’’سرو دھرم سمبھاؤ‘‘ یعنی تمام مذہبوں کو پھلنے پھولنے کی آزادی ہو یا یوں کہو ’’جیو اور جینے دو‘‘، یہ وہ اصول ہے جو آج بھی ہمارے ملک کی ترقی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ ہندوستانی قوانین کے مطابق ہر شخص کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ہم گاندھی جی کی تقریروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انہوں نے ذات پات، مذہب، علاقائیت، رنگ ونسل اور زبان کی بنیاد پر مختلف طبقوں کے درمیان ہم آہنگی اور جوڑ پیدا کرنے کی کوشش کی۔
مہاتماگاندھی کو اس کا احساس تھا کہ ہندوستان کو اُس وقت تک آزادی نہیں مل سکتی جب تک کہ یہاں کے رہنے اور بسنے والے دو بڑے طبقے یعنی ہندومسلم باہم مل جل کر رہنا نہیں سیکھ لیں۔ اگر آزادی مل بھی گئی تو حقیقت میں وہ آزادی نہیں ہوگی، جو ہم چاہتے ہیں۔ اسی لئے گاندھی جی ہندومسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے، اُن کا یہ خیال تھا کہ اگر ہندو اور مسلمان امن وبھائی چارہ کے ساتھ زندگی گزارنا نہیں سیکھ لیتے تو اس ملک کا، جسے ہم ہندوستان کے نام سے جانتے ہیں، وجود ختم ہوجائے گا۔
گاندھی جی نے مختلف مذاہب کی کتابوں اور دنیا کے قابل ذکر دانشوروں کے افکار ونظریات کا مطالعہ کیا تھا۔ اُن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ روزانہ صبح گیتا کے ساتھ قرآن مجید اور انجیل مقدس کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ اپنی مشہور کتاب ’’The Story of My Experiments with Truth‘‘ میں انہوں نے خود اس کا اعتراف کیا ہے کہ جنوبی افریقہ کے قیام کے دوران کئی مسلمانوں سے اُن کے بہت اچھے تعلقات تھے، جو اسلامی تعلیمات سمجھنے میں اُن کے لئے بہت مفید ثابت ہوئے۔ اُن سے جب معلوم کیا گیا کہ رام راجیہ کے جس تصور کی وہ بات کرتے ہیں، وہ کس قسم کی حکومت کے طرز پر ہوگا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’’وہ دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حکومت کے طرز پر ہوگا‘‘۔ انگلینڈ کے قیام کے دوران انہوں نے عیسائیت اور وکالت کرنے کے دوران پارسی لوگوں کے میل جول سے اُن کے مذہب کی تعلیمات کو جاننے کی بھی کوشش کی۔ وہ تمام مذاہب کو احترام سے دیکھتے تھے اگرچہ اپنے آبائی ہندو مذہب سے اُن کا گہرا تعلق رہا۔
جہاں مہاتما گاندھی کی فکر وکوشش تھی کہ انگریز ہندوستان چھوڑ کر واپس اپنے ملک جائیں وہیں وہ ملک کے باشندوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے انہیں ترقی کی طرف گامزن کرنا چاہتے تھے۔ جب جناب سر سید احمد خان ؒ نے انگریزوں کی سرپرستی میں ایک تعلیمی ادارہ کی بنیاد رکھی تو انگریزوں سے ہندوستان کی آزادی کے لئے جد وجہد کرنے والوں نے بھی شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ کی سرپرستی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی، جس کو قائم کرنے اور اُس کی آبیاری کے لئے مہاتما گاندھی کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ میں نے بھی گاندھی جی کی حمایت سے قائم ہوئی جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے جو آج ایک مرکزی یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہے اور ہندوستان کی چند مایہ ناز یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے، لہٰذا میری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ میں گاندھی جینتی کے موقع پر گاندھی جی کی خدمات کو یاد کروں۔ جامعہ ہی ہندوستان کی ایسی یونیورسٹی ہے جس کے بانیان کی اکثریت ملک کی آزادی میں قربانی دینے والی ہے۔
گاندھی جی فرقہ وارانہ فسادات کے سخت مخالف تھے۔ بہار کے نواکھالی علاقہ میں فساد ہونے پر ، خود وہاں گئے اور لمبے عرصہ تک قیام کرکے صورت حال کو نارمل بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ دنگوں سے بھی گاندھی جی بہت زیادہ دُکھی نظر آتے تھے۔ بعض ناسمجھ لوگو ں نے اسے اُن کی ہندومخالفت سے تعبیر کیا ہے، جو یقینا غلط ہے۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ظلم کسی کے بھی خلاف ہو، گاندھی جی کا حساس دل اُسے برداشت نہیں کرتا تھا اور وہ اُس کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہوجاتے تھے۔
گاندھی جی کے تمام آدرش واصول خواہ وہ آہنسا ہو، ستیہ گرہ ہو یا بھائی چارہ، نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہوئے اور بین الاقوامی مفکروں، قلم کاروں اور فنکاروں نے انہیں سراہا۔ دوسری طرف یہ بھی ایک سچائی ہے کہ گاندھی جی کے ہندومسلم اتحاد کی کوششوں کو نفرت پھیلانے اور پھوٹ ڈالنے والے عناصر نے کبھی پسند نہیں کیا، جس کی قیمت ہندوستان کے اس عظیم سبوت کو اپنی جان دے کر چکانی پڑی۔ آخر وہ دن بھی اس ملک نے دیکھا کہ ہندومسلم اتحاد کے علمبردار اور ملک کی آزادی میں نمایاں رول ادا کرنے والے مہاتما گاندھی پر ۳۰ جنوری ۱۹۴۸ء کو جمعہ کے دن گولیاں چلائی گئیں اور ملک کو آزاد ہوئے ابھی چھ ماہ بھی نہ گزر ے تھے کہ وہ چراغ بجھ گیا جو سارے ملک کو اپنی روشنی سے منور کررہا تھا اور ہمیں یہ سبق دے گیا کہ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم صرف ہندو، مسلمان، سکھ یا عیسائی ہیں بلکہ ہم ہندوستانی بھی ہیں اور سچے ہندوستانی ہیں۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ مہاتما گاندھی جی کو یاد رکھیں اور اُن کے قیمتی اصولوں کو اپناتے ہوئے اپنے ملک کی ترقی میں اپنا اپنا رول نبھاتے رہیں اور ہندومسلم ایکتا کے لئے اپنی گرانقدر خدمات پیش کرتے رہیں۔
گاندھی جی کے کامیاب لیڈر ہونے کا ایک راز یہ بھی ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد انہوں نے اقتدار میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ حکومت کے کسی عہدہ پر فائض نہ ہوکر بھی قوم کی خدمت کرنے کا عزم مصمم کیا۔ اقتدار سے اِس دوری نے بھی انہیں ایک عظیم عالمی لیڈر بنایا اور وہ علامہ اقبالؒ کے اس شعر کی مثال بن گئے:
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستان ہمارا
جواب دیں