گیمبیا کی اسلامی شناخت ،ماضی اور حال

ترقی کو ناپنے کیلئے اس پیمانہ کا نظریہ 1990ء میں ایک پاکستانی ما ہر اقتصادیات محبوب الحق نے پیش کیا تھاجس کو اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام نے قبول کر لیا ۔ اب ہر سال اس کی بنیاد پر اس ضمن میں شامل کل 187ملکوں کی درجہ بندی کی جا تی ہے ۔
گیمبیا کی راجدھانی بانجول ہے اور یہاں کی سرکاری زبان انگلش ہے ۔یہ ملک گویا ملک سینی گال کے بطن میں واقع ہے ۔ اس کو تین اطراف سے سینی گال نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے جبکہ یہ ملک اپنے مغرب میں بحر اٹلانٹک سے ملا ہوا ہے ۔ ایک طویل عرصہ سے اس ملک کے باشندگان کوغلام بناکر دنیا کے مختلف حصہ میں ان کی خریدو فروخت کی جاتی تھی۔ انگریزی حکومت کی آمد سے پیشتراس ملک میں پرتگالیوں کا قبضہ تھا ۔ 25 مئی 1765ء میں اس علاقے میں گیمبیا ندی کے راستے انگریزوں نے اپنا قدم رکھا اور یہاں اپنی استعماری حکومت قائم کر نے میں کا میابی حاصل کر لی۔ انگریزوں نے یہاں کے غلاموں کو بھاری قیمت میں یورپ اور برازیل کے بازاروں میں فروخت کرنا شروع کیا ۔ تقریبا 150سال تک برطانیہ ، فرانس، ڈچ اور پرتغالیوں نے غلاموں کی خرید و فرخت سے کا فی منافع کمایا ۔ یہ لوگ افریقی باشندوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسا کر دوسرے علاقے پر چڑھائی کرواتے اوران سے قیدیوں کو کپڑے اور بندوقوں کے مقابل خریدا کرتے ۔ برطانوی حکومت نے ایک طویل عرصہ تک اس ملک میں حکومت کی۔ بالآخر 18فروری 1965ء کو اسے برطانوی غلامی سے آزادی ملی لیکن اس کے بعد بھی یہ ملک نوآبادیاتی میراث ہی رہا ۔ ابھی چند سال پہلے تک اس ملک کے برطانیہ کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات بہت مضبوط تھے ۔ برطانوی و دیگر یورپی سیاحوں کی کثرت سے اس ملک میں آمدورفت رہی اور وہ یہاں کے خوشنما ساحلی نظاروں سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں ۔ 
اس ملک میں انواع و اقسام کے نباتا ت و جمادات بھی پائے جاتے ہیں ۔ بندروں کی مختلف قسمیں یہاں پائی جاتی ہیں۔ 2002ء کی رپورٹ کے مطابق اس ملک میں 117 جانوروں کی پرجاتیاں پائی جاتی تھیں۔ اسی طرح پرندوں کی 154 پر جاتیاں، اورپودوں کی 900 سے زیادہ پرجاتیاں موجود ہیں۔

گیمبیا 500ء تک ایک مالا مال تہذیب کا حامل ملک تھا۔ عربوں کے ساتھ اس کے خوشگوارتجارتی تعلقات تھے ۔ عرب یہاں سے زیادہ تر غلام اور سونے کی خرید و فروخت کیا کر تے تھے۔ اس لئے سب سے پہلے عربوں نے اس ملک کے بارے میں مختلف قیمتی معلومات کو تاریخ کے صفحات میں قلم بند کیا۔اسی طرح مالی حکومت (تیرہویں صدی سے پندرہویں صدی تک)کے دور عروج میں یہ علاقہ ما لی کے ماتحت تھا۔ پندرہویں صدی(1455ء) میں پرتگالیوں نے گیمبیا ند ی کے کنارے پڑاؤ ڈالا ۔ دراصل گیمبیا گوینا سے نکلنے والی ایک ندی کا نا م ہے جو کئی ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے ۔ جس کی لمبائی 1600 کیلو میٹر ہے جس کا آخری سرا بحر اٹلانٹک سے جاملتا ہے ۔ آخر کے 470 کیلومیٹر ندی کے دونوں کناروں پر اسی ندی کے نام سے ہی ملکِ گیمبیا واقع ہے ۔ پرتگالی دھیرے دھیرے اس علاقے سے غلاموں کا خرید و فروخت کر نے لگے۔ اس کے بعد فرانسیسی اور ڈچ بھی یہاں داخل ہو گئے۔ سترہویں صدی کے آغاز میں اس علاقے میں انگریزوں نے قدم رکھا۔ تقریبا 150 سال تک بحر اٹلانٹک کے پار کے علاقے میں جانوروں کی طرح یہاں کے غریب و بے کس عوام کی تجارت کا سلسلہ چلتا رہا ۔ اس سلسلے میں ا س وقت کسی قدر کمی آئی جب برطانیہ نے 1807ء میں غلاموں کی خرید و فروخت کو ممنوع قرار دے دیا۔ اب وہاں پر مقیم برطانویوں نے مونگ پھلی سے منافع حاصل کر نا شروع کیا جس کی کھیتی آج تک وہا ں وافر مقدار میں کی جارہی ہے۔1820 ء تک گیمبیا ایک برطانوی چھاؤنی بن چکا تھا اور 1886ء تک جب یورپی اقوام نے افریقہ کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی، اس وقت تک گیمبیا ایک نو آبادی علاقہ میں تبدیل ہو چکا تھا۔ بیسویں صدی میں جب برطانوی افواج کمزور پڑنے لگی تو اس کا فائدہ گیمبیا کو ہوا اور 1965ء میں برطانوی پارلیامینٹ نے اس کو ایک آزاد ملک کا درجہ دے دیا۔ 
آزادی کے بعد سے اس ملک میں دو صدر مقر ر ہوئے ہیں ، پہلا داؤدا جاوراجس نے 1970ء سے لیکر 1994ء تک حکومت کی، انہوں نے 1958ء میں People

«
»

محبت کی تلوار:جس نے کافر کو نہیں کفر کو کاٹ ڈالا

قانونی کارروائی یا انتقامی سیاست

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے