مفاز شریف ندوی مرزا اسداللہ خان غالب سے دید وشنید کی حسرت ایک مدت سے تھی، وہ بھی سن کے ساتھ کمزور ہو چکے تھے، خود ان کے اس شعر سے: کر دیا ضعف نے عاجز غالبؔننگِ پیری ہے جوانی میری میں نے یہ نتیجہ نکالا جو اپنی جوانی کو ننگ پیری کہہ رہا ہے […]
مرزا اسداللہ خان غالب سے دید وشنید کی حسرت ایک مدت سے تھی، وہ بھی سن کے ساتھ کمزور ہو چکے تھے، خود ان کے اس شعر سے:
کر دیا ضعف نے عاجز غالبؔ ننگِ پیری ہے جوانی میری
میں نے یہ نتیجہ نکالا جو اپنی جوانی کو ننگ پیری کہہ رہا ہے جس میں زبان کا تو لطف ہے اس سے ملاقات کی امید عبث ہے، پھر ایک مدت بعد ان کا قصیدہ جو نواب یوسف علی خاں کے لیے لکھا گیا باصرہ نواز ہوا اس قصیدہ کے دو شعروں نے کرب و اضطراب کی کیفیت پیدا کردی: اور پھر اب کہ ضعفِ پیری سے ہو گیا ہوں نزار و زار و حزیں پیری و نیستی خدا کی پناہ دستِ خالی و خاطرِ غمگیں
اور کچھ سالوں سے مجھ پر بے دیاری اور بیماری نے وہ ستم ڈھایا میں متیقن ہو چلا تھا کہ میری امید پر اب اوس پڑ ہی جائیگی، لیکن قسمت کی یاوری مجھے علاج کے لیے دلی لے جایا گیا اور ایک مہینے بعد صحت میں بہتری معلوم ہوئی اور مرزا سے ملاقات کی دیرینہ خواہش نے دل میں پھر سے جگہ بنالی، بڑی کد و کاوش کے بعد پچھلے ہفتے ان سے شرف نیاز حاصل ہوا، بھئی! میں نے ان کی شخصیت کے جو خطوط اپنے ذہن میں بنالیے تھے وہ سب ان میں مجتمع نظر آۓ، شوخی اور ظرافت ان کے انگ انگ سے ہویدا تھی، ان کی آنکھوں سے ہی ذہانت ٹپک پڑتی تھی، ایسا شخص جس نے اتنے شدائد ومحن برداشت کیے اور مغلیہ سلطنت کے شیرازہ کو منتشر ہوتے دیکھا ہند اسلامی تہذیب کو نابود ہوتے دیکھا جس کے خانہ ذہن میں یہ تفصیلات محفوظ ہوں ان سے میری ملاقات میری بلند طالعی نہیں تو اور کیا ہے، سنا تھا جوانی میں مرزا کا حسن غضب ڈھاتا تھا وہ بھی تو حسن کے شیدائی اور ملکہ حسن پر فدائی تھے ان کا مشہور شعر ہے:
ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
(ارادہ ہے اگر قبلہ نے اجازت مرحمت فرمائی تو حسن کے موضوع پر بھی ایک مختصر نشست رکھی جائے) اور تو اور ان کی ظرافت کی پھلجھڑیاں، پر لطف صحبتیں، شعر و شاعری کی مجلسیں دلی کے کوچہ و بازار میں مذکور ہوتی تھیں، انقلاب زمانہ نے ان کو بری طرح متاثر کر لیا تھا، اب اگرچہ حسن میں کمی آگئی تھی لیکن ان کی شگفتہ مزاجی اور بذلہ سنجی اب بھی برقرار تھی، سب سے بڑی بات یہ تھی ان کو مالی مشکلات کا زندگی بھر مقابلہ رہا جس کی شکایت اپنے کلام بلاغت نظام میں متعدد مواضع پر کی ہے، میں نے مرزا سے باصرار شدید التجا کی کہ اس ناچیز کے لیے کچھ وقت متعین کردیں جس میں آپ سے غم تکلیف اور مشکلات اس موضوع پر گفتگو ہوگی، ایمان کی بات ہے مرزا کے خیالات نے میرے خاطر کو مضبوط کردیا میری آس کو ٹوٹنے نہ دیا ورنہ فقر و فاقے کی اتنی ضربیں پڑیں کہ اللّٰہ کی پناہ! مرزا کا فرمان ہے:
قرض کی پیتے تھے مئے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں