خورشید عالم داؤد قاسمی
اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا۔ آپؐ کی رحمت و نوازش اور شفقت و مہربانی کا مظاہرہ ہر خاص و عام پر ہوا۔ اس سے بڑی رحمت اور کیا ہوگی کہ آپؐ کی آمد کے بعد، تاریکی میں بھٹکتے، ظلم و جور کے عادی، اخلاق حسنہ سے عاری اور تہذیب وتمدن سے ناواقف لوگوں نے اسلام کی روشنی پاکر، پوری دنیا کو منور کرکے، انسانیت کا اعلی نمونہ پیش کیا۔ اللہ پاک کی ساری مخلوقات: انس، جن، حیوانات، نباتات اور جمادات سب آپؐ کی رحمت سے مستفید ہوئیں۔ اللہ تعالی کا فرمان: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ.﴾ (الانبیاء: 107) (ترجمہ: ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بناکر بھیجا ہے۔) کا مشاہدہ سارے سمجھدار لوگوں نے کیا۔ اگر سوال کیا جائے کہ آپؐ اس شخص کے لیے کیسے رحمت ہوئے جس نے آپؐ کی دعوت و رسالت کو قبول نہیں کیا؛ تو اس کا جواب حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے درج بالا آیت کی تفسیر میں واضح کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: "جواللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا، اس کے لیے دنیا اور آخرت میں رحمت لکھ دی گئی اور جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لایا (غیر مومن رہا،اس کے لیے آپؐ اس طرح دنیا میں رحمت ہیں کہ) وہ زمین میں دھنسائے جانے اور آسمان سے پتھر برسائے جانے جیسے عذاب سے بچا لیے گئے جن سے گذشتہ امتیں دوچار ہوئی تھیں۔ (تفسیر ابن کثیر: 5 / 387) اس تحریر میں، غیر مسلموں کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و شفقت، نوازش و کرم اور عفو و درگذر کے کچھ نمونے پیش کیے جارہے ہیں۔
طائف میں رسول اکرمؐ پر ظلم اور ملک الجبال کی حاضری:
رسول اکرمؐ نے شوال سن 10 نبوی میں طائف کا دعوتی سفر کیا۔ آپؐ نے طائف میں دس دنوں تک قیام کیا۔ آپؐ نے سردارانِ طائف: عبد یالیل، حبیب اور مسعود کو اسلام کی دعوت دی۔ مگر انھوں نے آپؐ کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور بڑی سختی سے پیش آئے۔ مغموم ورنجیدہ آپؐ وہاں سے واپس چلے۔ طائف کے اوباش اور بازاری لڑکوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر مارنے کواکسایا گیا۔ ان اوباشوں نے اس طرح پتھر برسائے کہ آپ زخمی ہوگئے اور آپ کے جسم اطہر سے خون ٹپکنے رہے تھے۔ جب آپ قرن ثعالب میں پہنچے؛ تو ہوش آیا۔ آپؐ نے اپنا سر اٹھایا ؛ تو دیکھا کہ بادل آپ پر سایہ فگن ہے۔ اس میں جبریل علیہ السلام ہیں۔ انھوں نے آپ کو آواز دی اور کہا: آپ سے آپ کی قوم کی بات اور انھوں نے آپ کو جو کچھ جواب دیا، بے شک اللہ نے سن لیا ہے۔ اللہ نے آپ کے پاس پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے؛ تاکہ اس قوم کے حوالے سے جو آپ چاہیں، اس فرشتے کو حکم دیں۔ پھر پہاڑوں کے فرشتے نے آپ کو پکارا، سلام کیا پھر اس نے کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )! پھر اس نے وہی بات کہی جو جبریل علیہ السلام نے کہی تھی۔ اس حوالے سے آپ جو چاہیں، (میں کروں گا)۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان پر اخشبین (مکہ مکرمہ کے دونوں طرف جو پہاڑ ہیں: أَبُو قُبَيْس اور قُعَيْقِعَان، فتح الباری: 6 / 316) کو ملا دوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: "أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ، لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا". (صحیح بخاری: 3231) ترجمہ: مجھے امیدہے کہ اللہ پاک ان کی نسل سے ایسے لوگوں کو پیدا کریں گے، جو اللہ وحدہ کی عبادت کریں گے، ان کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔
آپؐ نے پہاڑ کے فرشتے کو جو جواب دیا، اس میں وہاں کے ان ناعاقبت اندیش لوگوں کے حوالے سے، آپؐ کی رحمت و شفقت، نوازش وکرم اور صبر و حلم کا اعلی نمونہ ہے؛ کیوں کہ آپ رحمت بناکر بھیجے گئے تھے۔ اگر آپ کی رحمت کا ظہور نہ ہوتا اور آپ فرشتے کو اجازت دیدیتے؛ تو ان بدبختوں کا فورا صفایا ہوجاتا۔
غَوْرَثُ بْنُ الحارِث کا آپؐ کو قتل کرنے کا ارادہ:
"غزوۂ ذات الرقاع" سے واپسی کے موقع پر، ایک دیہاتی کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، وہ آپؐ کے عفو و درگذر، رحمت وشفقت، مہربانی ونوازش، شجاعت و بہادری اور توکل علی اللہ کے حوالے سے نہایت ہی اہم ہے۔ ہوا یہ کہ رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– " نجد" کے علاقہ میں صحابہ کرام –رضی اللہ عنہم– کے ساتھ جہاد کے لیے گئے۔ جب لوٹ کر آرہے تھے؛ تو آپؐ کثیر خاردار درختوں کی وادی سے گزر رہے تھے۔ قیلولہ کا وقت ہوگیا۔ صحابہ کرام کے ساتھ آپؐ اُسی مقام پر رک گئے۔ صحابہ کرام –رضی اللہ عنہم– درختوں کے سائے میں پھیل کر، تھوڑی دیر کے لیے آرام کرنے لگے۔تلوار کو درخت پر لٹکا کر، آپؐ بھی کیکر کے درخت کے نیچے قیلولہ کے لیے لیٹ گئے۔ اچانک صحابہ کرام –رضی اللہ عنہم– نے سنا کہ رسول اللہؐ انھیں پکار رہے ہیں۔ جب صحابہ کرام آپؐ کےپاس آئے؛ تو دیکھا کہ ماجرا ہی کچھ اور ہے۔ آپؐ کے پاس ایک دیہاتی بیٹھا ہے۔
نبی کریم –صلی اللہ علیہ وسلم– نے صحابہ کرام –رضی اللہ عنہم– کو بتایا کہ آپؐ سوئے ہوئے تھے۔ جب آپؐ نیند سے بیدار ہوئے؛ تو دیکھا کہ وہ دیہاتی شخص (غَوْرَثُ بْنُ الحارِث)، آپؐ کی تلوار جو درخت پر لٹکی تھی کو میان سے باہر نکالتے ہوئے آپؐ سے کہتا ہے کہ "تم کو مجھ سے کون بچائے گا؟" اس پر آپؐ نے جواب دیا کہ "اللہ"۔ اس کے بعد، آپؐ نے اس دیہاتی کو بغیرکسی سزا اورانتقام کےرہا فرمادیا۔ (صحیح بخاری: 4135)
اس واقعے کے بعد، رسول اللہ اکرمؐ نے قتل کے ارادہ سے آنے والے غیر مسلم کے ساتھ، پوری طاقت وقوت کے باوجود، بدلے کی کاروائی نہیں کی۔ آپؐ نے اس کے اس جرم پر مواخذہ نہیں کیا،اپنی طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا اور انتقام لینا مناسب نہیں سمجھا؛ بل کہ آپؐ نے عفو و درگذر سے کام لیا۔ بظاہر آپؐ کے اسی عفو وکرم اور رحمت ونوازش کا نتیجہ تھا کہ ایک روایت کے مطابق وہ شخص دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا۔ (فتح الباري: 7 /428)
ایک غیر مسلم قیدی کو آزاد کرنے کا حکم:
حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ قبیلہ بنی حنیفہ کے سردار تھے۔ یہ قبیلہ مکہ اور یمن کے درمیان "یمامہ" میں واقع ہے۔ ایک بار حضرت ثمامہ نے نبی اکرمؐ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر وہ اس میں کام یاب نہ ہوسکے۔ آپؐ نے دعا کی کہ "اللہ آپ کو اس پر قابو دے دیں!" (السنن الكبرى للبہقی: 9/112، حدیث: 18031) آپ کی دعا قبول ہوئی اور ویسا ہی ہوا۔ حضرت محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کی ٹیم نے ان کو گرفتار کیا اور لاکر مسجد نبوی کے ستون میں باندھ دیا۔ نبی اکرمؐ ان کے پاس سے گذرتے، تو پوچھتے: "ثمامہ تمھارا کیا خیال ہے؟" انھوں نے کہا: اے محمد ؐ! میرا خیال اچھا ہے۔ اگر آپ مجھے قتل کریں گے؛ تو ایک خونی مجرم کوقتل کر یں گے۔ اگر آپ احسان کریں گے؛ تو شکر گزار پراحسان کریں گے۔ اگر آپ مال چاہتے ہیں؛ تو جتنا چاہیں لے لیں"۔یہ سلسلہ تین دنوں تک چلتا رہا؛ مگر انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: «أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ!» (صحیح بخاری: 4372)ترجمہ: "ثمامہ کو آزاد کردو"۔
یہاں یہ پہلو قابل غور ہے کہ نبی اکرمؐ ایک غیر مسلم قیدی آزاد کرنے کا حکم صادر فرمایا؛ جب کہ یہی قیدی ماضی میں آپؐ کے قتل کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ مگر آپؐ نے ان پر پوری قدرت حاصل کرلینے کے بعد،ان کو آزاد کردیا۔ پھر انھوں نے اسلام قبول کیا اور عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ جب وہ مکہ پہنچے؛ تو ان سے کسی نے پوچھا: کیا تم بددین ہو گئے؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں(میں بد دین نہیں ہوا ہوں)۔ اللہ کی قسم! میں اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمان ہوگیا ہوں۔ اللہ کی قسم،یمامہ سےتم لوگوں کےلیے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں آئے گا؛تا آں کہ نبی اکرمؐ اس کے بھیجنے کے حوالے سے اجازت مرحمت فرمائیں۔ (صحیح بخاری: 4372)
اہل مکہ کو غلہ کی فراہمی کے لیے رسول اکرمؐ کا خط:
حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ وطن لوٹے۔یمامہ سے مکہ غلہ آنا بند ہوگیا اورمکہ میں غلے ختم ہوگئے۔مکہ والے پریشان حال تھے۔ پھر انھوں نے رشتہ داری کا حوالہ دیتے ہوئےرسول اکرمؐ کی خدمت میں خط ارسال کیا۔ اس خط میں، انھوں نے آپؐ سے درخواست کی تھی کہ آپؐ ثمامہ کو حکم دیں کہ وہ مکہ میں غلہ آنے دیں۔ یہ بات تاریخ میں ریکارڈ ہے کہ یہ مکہ والے (قبیلۂ قریش و کنانہ)وہی لوگ ہیں، جنھوں نےمکہ میں، آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا بائیکاٹ کیا تھا اور آپ سب (قبیلہ بنوہاشم و بنو عبد المطلب) کو شعب ابی طالب میں تین سالوں تک ٹھہرنا پڑا تھا۔ اس موقع سے وہ مکہ والے آپ کے پاس غلے اور اناج بیچنے والوں کو بھی جانے نہیں دیتے تھے۔ رسول اکرمؐ اور ان کے ساتھیوں کو درخت کے پتے کھانے پڑے۔ آپؐ نے اس کا بدلہ نہیں لیا؛ بل کہ آپؐ نے اپنی رحمت و شفقت اور انسانیت نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے، اس حوالے سےحضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا۔ پھر حضرت ثمامہ نے مکہ کے لیے غلہ جانے کی اجازت دی۔ (عمدة القاري: 18 / 29)
قبیلۂ دَوس کے لیے ہدایت کی دعا:
حضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے "مکی دور" میں ہی مکہ تشریف لاکر ایمان قبول کیا۔ پھر آپ اپنے وطن واپس چلے گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی؛ تو آپ بھی مدینہ تشریف لائے۔ ایک بار دوس تشریف لے گئے۔ اپنے قبیلے کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی؛ مگر انھوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا۔ جب آپ وہاں سے واپس آئے؛ تو آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! قبیلۂ دَوس نافرمانی کرتے ہیں اور انکار کرتے ہیں (اسلام قبول نہیں کرتے)؛ چناں چہ آپ ان کے لیے بد دعا کردیں! (اس پر) کچھ لوگوں نے کہا: (اب) قبیلۂ دَوس ہلاک ہوگئے؛ (کیوں کہ ممکن ہے کہ رسول اکرمؐ ان کے لیے بد دعا کریں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللَّهُمَّ اهْدِ دَوْسًا وَأْتِ بِهِمْ.» (صحیح بخاری: 2937) "اے اللہ دَوس کو ہدایت عطا فرمائیں اور ان کو میرے پاس لے آئيں"۔
اسی طرح ایک دوسری روایت قبیلہ ثقیف سے متعلق ہے۔ جنگ طائف کے موقع سے جب طائف کا محاصرہ کیا گیا؛ تو اہل ثقیف نے مسلمانوں پر بہت تیر برسائے۔ اس وقت صحابۂ کرام نے رسول اکرمؐ کو ان کے خلاف بد دعا کی درخواست کی، مگر آپ نے ہدایت کی دعا کی۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! قبیلۂ ثقیف کے تیروں نے ہمیں جلا دیا ہے؛ لہذا آپ ان کے لیے بد دعا کردیں! آپؐ نے فرمایا: «اللَّهُمَّ اهْدِ ثَقِيفًا!» (سنن ترمذی: 3942) ترجمہ: "اے اللہ ثقیف کو ہدایت عطا فرمائے!" (پھر پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔)
رئیس المنافقین کی وفات اور اس کے ساتھ آپؐ کا برتاؤ:
رئیس المنافقین سے مشہور و معروف عبد اللہ بن أُبَيّ کا انتقال ہوا۔ ان کے لڑکے عبد اللہ بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ایک سچے پکے مسلمان اور صحابی تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے آپ سے عرض کیا کہ آپ اپنا کرتا ان کو عنایت فرمادیں۔ وہ اس میں اپنے والد کو کفن دیں گے۔ آپؐ نے کرتا عنایت فرما دیا۔ پھر انھوں نے درخواست کی کہ آپؐ ان کی نماز جنازہ پڑھا دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھانے کو کھڑے ہوئے؛ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا پکڑ کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے؛ جب کہ آپ کے ربّ نے آپ کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّمَا خَيَّرَنِي اللَّهُ فَقَالَ: fik_اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ، إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [التوبة: 80]، وَسَأَزِيدُهُ عَلَى السَّبْعِينَ." ترجمہ: "اللہ پاک نے مجھے اختیار دیا ہے، اللہ پاک فرماتے ہیں: [(اے پیغمبر!) آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں، اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ استغفار کریں گے]، میں ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کرلوں گا"۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ منافق ہے۔ راوی کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی، پھر اللہ پاک نے (یہ آیت) نازل فرمائی: "اور (اے نبی!) ان (منافقین) میں جو کوئی مرجائے، تو آپ اس پر کبھی بھی نماز (جنازہ) نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں"۔ [التوبۃ: 84] (صحیح بخاری: 4670)
یہ بات قابل غور ہے کہ رسول اکرمؐ نے اس رئیس المنافقین کے کفن کے لیے اپنا کرتا عنایت فرمایا اور اس کی نماز جنازہ بھی ادا کی۔ یہ وہی منافق ہے جو جنگ احد کے موقع سے رسول اکرمؐ کا ساتھ نہیں دیا؛ بل کہ فوج کی ایک بڑی ٹکڑی کو لے کر، راستے سے واپس آگیا تھا۔ پھر بھی آپؐ نے اس منافق پر اپنی رحمت کا مظاہرہ کیا؛ تا آں کہ اللہ تعالی نے آپ کو کسی بھی منافق کی نماز جنازہ پڑھنے سے صراحتا منع فرما دیا۔
جنگ اُحد کا بدلہ اور رسول اکرمؐ کا فرمان:
جنگ اُحد شوال، تین ہجری میں ہوئی۔ اس جنگ میں ستّر صحابۂ کرام شہید ہوئے۔ اس میں نبی اکرمؐ کے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ آپ کی شہادت کے بعد، آپ کےجسم کے اعضا کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا۔ اس جنگ کے بعد، صحابۂ کرام کا خیال تھا کہ اگر انھیں کوئی موقع ہاتھ لگے؛ تو وہ قریش سے اس کا بدلہ لیں گے۔ پھر فتح مکہ کا دن آیا۔ ایک صحابی نے فرمایا: "لَا قُرَيْشَ بَعْدَ اليَوْمِ". ترجمہ: "آج کے بعد قریش نہیں رہیں گے"۔ یعنی آج ہم قریش کا صفایا کردیں گے۔ جنگ احد میں جس طرح ستّر صحابۂ کرام کو جام شہادت نوش کرنا پڑا کہ کوئی بھی شخص موقع ہاتھ لگنے کے بعد، اس موقع کو ہاتھ سے جانے دینے کو تیار نہیں ہوتا؛ مگر ایسے موقع سے نبی اکرمؐ نے بدلہ کے بجائے صبر سے کام لیا اور آپؐ نے فرمایا: "ہم صبر کریں گے اور بدلہ نہیں لیں گے"۔ (مسند احمد: 21229) ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: "قوم سے ہاتھ روک لو، چار افراد کے علاوہ"۔ (سنن ترمذی: 3129) عفو ودر گذر سے کام لیتے ہوئے، رسول اکرمؐ نے عام معافی کا اعلان کردیا۔
فتح مکہ اور معافی کا اعلان:
فتح مکہ کے دن، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں تشریف لائے۔ آپ نے کعبہ شریف کا طواف کیا۔ پھر آپ کعبہ شریف کے اندر تشریف لے گئے۔ پھر خانہ کعبہ سے نکلتے ہوئےدروازے پر کھڑے ہوئے۔ اہل مکہ مسجد حرام میں کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ سردارانِ قریش جنھوں نے اب تک اسلام قبول نہیں کیا تھا، وہ سوچ رہے تھے کہ اب کسی وقت بھی پچھلا حساب کتاب چکایا جاسکتا ہے۔ آپؐ نے موجود لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے، دوران خطاب پوچھا: قریش کے لوگوں! تمھارا کیا خیال ہے، میں تمھارے ساتھ کیا برتاؤ کروں گا؟ لوگوں نے جواب دیا: ہمارا خیال ہے کہ آپ بھائی ہیں۔ آپ مہربان اور حلیم وبردبارچچا کے صاحبزادے ہیں۔ آپؐ نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: آج میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام نے (اپنے بھائیوں سے) کہی تھی: fik_لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ [يوسف: 92] قَالَ: فَخَرَجُوا كَأَنَّمَا نُشِرُوا مِنَ الْقُبُورِ فَدَخَلُوا فِي الْإِسْلَامِ. (شرح معاني الآثار: 5454) ترجمہ: "آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہوگی، اللہ تمھیں معاف کرے، وہ سارے رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے"۔راوی فرماتے ہیں (کہ اس اعلان کے بعد): "پھر وہ (کعبہ سے) اس طرح نکلے جیسا کہ وہ قبر سے اٹھے ہوں۔ پھر وہ سب اسلام میں داخل ہوگئے"۔
قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کی واپسی:
مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے، جسے "حنین" کہا جاتا ہے۔ اس وادی میں، دو قبیلے: ہوازن و ثقیف آباد تھے۔ فتح مکہ کے بعد، ان قبائل نے مکہ پر چڑھائی کا ارادہ کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے منصوبے کا پتہ چلا؛ تو آپ نے ان کی طرف پیش قدمی کا ارادہ کیا۔ آپؐ 6/شوال سن 8 ھ کو فوج کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ان میں دس ہزار تو وہ تھے، جو مدینہ سے فتح مکہ کے لیے آئے ہوئے تھے اور دو ہزار مکہ کے نو مسلم فوجی تھے۔ دس شوال کو صبح جنگ شروع ہوئی۔مسلمان فوج نے جوں ہی وادی حنین میں قدم رکھا،گھات میں لگی دشمن فوج نے ان پر یکبارگی تیر برسانا شروع کردیا۔ مسلمانوں کو شروع میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر اللہ پاک نے دشمنوں کو شکست فاش دی، ان کے ستر فوجی مارے گئے اور مسلمانوں کو فتح سے سرفراز فرمایا۔ دشمن کے چھ ہزار قیدی، چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں اور چار ہزار اوقیّہ چاندی مسلمانوں کو ہاتھ لگے۔
نبی اکرمؐ نے اپنی رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان قیدیوں کو کئی دنوں تک تقسیم نہیں کیا۔ آپ چاہتے تھے کہ ان کے رشتے دار آئیں اور ان کو چھڑا لے جائیں؛ لیکن کئی دن گذر گئے اور کوئی نہیں آیا۔ پھر آپؐ نے مال غنیمت اور قیدیوں کو تقسیم کردیا۔ پھر ہوازن کا وفد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر، اپنے مال و متاع اور قیدیوں کی واپسی کے حوالے سے درخواست پیش کی۔ آپؐ پورے عالم کےلیے رحمت تھے؛ چناں چہ ان کی درخواست پر، آپ کا دل پسیج گیا۔آپ نے ہمدردی کرتے ہوئےیہ طے کیا کہ قیدی کو ان کو واپس کردیے جائيں۔ پھر آپؐ نے مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوکر فرمایا: "بیشک آپ کے بھائی ہمارے پاس توبہ کرکے آئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ ان کو ان کے قیدی واپس کردوں؛ لہذا جو آپ میں سے پسند کرے کہ خوش دلی سے یہ کام کرے، وہ یہ کام کریں اور آپ میں سے جن کو پسند ہے کہ وہ اپنے حصہ پر باقی رہیں، یہاں تک کہ ہم اس کو دو حصہ دیں، اس پہلے مال سے جو اللہ تعالی ہم پر لوٹا ئیں؛ تو وہ ایسا کرے"۔ نبی اکرمؐ کے فرمان کےبعد، سارے صحابہ کرام نے فرمایا: "ہم خوش دلی سے یہ کام کرتے ہیں اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)۔" (صحیح بخاری: 4318) یعنی ہم یہ قیدی ہوازن کے وفد کو واپس کرتے ہیں۔
قبیلہ ہوازن نے مسلمانوں کے خلاف پہلے جنگ کا منصوبہ بنایا۔ پھر انھوں نے جنگ لڑی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ان کے لوگ قیدی بنائے گئے۔ پھر وہ اپنے قیدیوں کی واپسی کی درخواست کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رحمت و شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نہ صرف اپنے حصے کے قیدیوں کو واپس کیا؛ بل کہ اپنے صحابۂ کرام کو بھی مشورہ دیا کہ ان قیدیوں کو واپس کردیں۔ انھوں نے بھی مشورہ پر عمل کرتے ہوئے، ان قیدیوں کو واپس کردیا۔
جنگ میں عورتوں اور بچوں کے قتل پر پابندی:
عصر حاضر میں کچھ ممالک اپنے آپ کو تہذیب وثقافت کے اعلی پیمانے پر تصور کرتے ہیں۔ ان کو یہ یقین ہے کہ تہذیب و ثقافت کے نام پر جو کچھ ان کے پاس ہے، انھیں پوری دنیا کو اپنا لینا چاہیے۔ ان کو اپنی تہذیب و ثقافت کی برتری کا ایسا نشہ سوار ہے کہ ان کو اپنے علاوہ دنیا میں پائے جانے والے مذاہب و ادیان، حضارۃو ثقافت اور تہذیب و کلچر سب کے سب شدت پسندی یا رجعت پسندی کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ مگر معاصر دنیا نے اپنی کھلی آنکھوں سے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ یہ نام نہاد مہذب و مثقف اقوام نے چند دنوں میں یہ فیصلہ کرلیا کہ فلاں ملک اور اس کا حاکم پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے،اس کے پاس عام تباہی کے ہتھیار دست یاب ہیں اور وہ جب چاہیں، پوری دنیا کا صفایا کردیں گے۔ اس فرضی کہانی کے آڑ میں، وہ نام نہاد مہذب و مثقف ملک، ایک ملک پر بمباری کردیتا ہے، پوری دنیا آنکھ بند کرلیتی ہے اور کسی کا ضمیر اسے حق بولنے پر مجبور نہیں کرتا ہے۔ پھر چند دنوں میں اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی جاتی ہے۔ اس میں بوڑھے، بچے،عام شہری اور خاتون خانہ کی بھی رعایت نہیں کی جاتی۔ لاکھوں بم وبارود کی نذر ہوجاتے ہیں۔ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کمانڈر ان چیف تھے۔ جب دشمنوں نے آپؐ کو جنگیں لڑنے پر مجبور کیا؛ تو آپؐ نے بھی جنگیں لڑی۔ مگرآپؐ نے ظلم و جبر کا راستہ نہیں اپنایا؛ بل کہ ہر موقع سے دانش مندی کا ثبوت دیا۔ آپؐ کی رحمت و نوازش سے ہر موقع سے لوگوں کو فائدہ پہنچا۔ ایک روایت میں ہے کہ کسی جنگ میں ایک عورت مقتول پائی گئی؛ تو رسول اکرمؐ نے (جنگ میں بھی) عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے سے منع فرمایا۔(صحیح مسلم: 1744)
رسول اکرمؐ کی سیرت کا مطالعہ:
اس تحریر کا مقصد اس بات کو پیش کرنا ہے کہ رسول اکرمؐ نہ صرف اپنے دوست واحباب کے لیے رحمت تھے، انھوں نے نہ صرف اپنے ساتھیوں کے ساتھ عفو و در گذر کا معاملہ کیا؛ بل کہ پوری انسانیت کے لیے آپؐ رحمت تھے۔ آپ کو جب بھی اور جہاں بھی موقع میسر آیا، آپ نے نہ صرف اپنے ساتھیوں پر؛ بل کہ اپنے دشمنوں پر بھی عفو ودرگذر کا مظاہرہ کیا۔ آپ غیر مسلمین کے لیے بھی رحمت ثابت ہوئے۔ آج آزادی رائے کی آڑ میں، نبی اکرمؐ کی تعلیمات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، آپؐ کی پاکیزہ زندگی کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور آپ ؐ کے خلاف طرح طرح کے سوالات کیے جاتے ہیں۔ آج نبی اکرمؐ کی سیرت و سوانح نہایت ہی صحیح سندوں کے ساتھ محفوظ ہے۔ جن کو بھی رسول اکرمؐ کی ذات اقدس پر کوئی اشکال اور اعتراض ہے، ان کو چاہیے کہ پہلے وہ آپؐ کی سیرت و سوانح کا خود مطالعہ کریں۔ جب وہ سیرت محمدی کا مطالعہ کریں گے؛ تو انھیں خود معلوم ہوجائے گا کہ آپ ایک انسانیت نواز شخص تھے، آپ نے لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کیے، آپ نے بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کی پوری کوشش کی اور آپؐ نے اپنے دشمنوں پر بھی سیکڑوں احسانات کیے اور ان کے ساتھ بھی عفو و درگذر سے کام لیا۔ پھر امید ہے کہ اشکالات واعتراضات خود بخود حل ہوجائيں گے، ان شاءاللہ
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔
جواب دیں