اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی دورائے نہیں کہ میڈیا کی کامیابی سچائی مکمل آزادی ، اور حقیقت پسندی کے بغیر ناقابل فہم ہے لیکن آزادی کے دائرہ کار کی تحدید بھی ضروری ہے ۔ سچائی سے واقفیت اور حقیقت کی حقیقی شناس سے باخبر ہونا بھی صحافت کے اصولوں کا اولین تقاضا ہے ۔ اگر یہ چیزیں نایاب ہیں تو پھر وہ صحافت اور میڈیا کے نام پر ایک سیاہ دھبہ ہے ۔ اس ادارے کا مقصد جرنلزم نہیں بلکہ مذہبی جنگ کو فروغ دینا ہے۔ جس کا انجام بہت ہی خراب ہوتا ہے۔
یہ باتیں آج میں لکھ رہاہوں فرانس کے شہر پیرس میں ایک اخبار کے دفتر پر ہوئے حملہ کے پس منظر میں ۔ چارلی ہبدو فرانس کی مشہور ہفت روزہ میگزین ہے ۔یہ میگزین 1969 میں شروع ہوئی تھی ،1981 میں یہ میگزین بند ہوگئی ۔ 1992 میں یہ میگزین دوبارہ شروع ہوئی اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ میگزین ہر بدھ کو شائع ہوتی ہے ۔
آزادی رائے اور سچائی پر مبنی صحافت کی آڑ میں یہ میگزین شروع سے مذہب اور مذہبی رہنماؤں کے خلاف نازیبا تبصرہ اور ان کا مذاق آڑاتی رہی ہے ۔اس میگزین کے گذشتہ شمارے سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے مذہب اسلام کے ساتھ عیسائت اور یہودیت کے خلاف بھی آرٹیکل شائع کیے ہیں۔ لیکن اس میگزین نے سب سے زیادہ اسلام کا مذاق اڑایا ہے ۔ بارہا محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا کارٹون شائع کرکے عالم اسلام کی عدالت میں ناقابل معافی جرم کا ارتکاب کرچکی ہے ۔
2005 میں ڈینش نام کے ایک اخبار نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخانہ کارٹون شائع کیا تھا ۔ اخبار کے اس حرکت کے خلاف عالمی سطح پر شدید ردعمل آیا لیکن اس اخبارنے اس سے سبق سیکھنے کے بجائے 2007 میں اسی کارٹون کو اپنے صفحات پر شائع کردیا ۔
211 میں اسی میگزین نے ’’شریعت بدو‘‘ کے نام سے اپنا خصوصی شمارہ نکالنے کا اعلان کیا تھا اور کہاتھا کہ وہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ ایڈیٹر ان چیف کہیں گے۔میگزین نے اپنے سرورق پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اس کیپشن کے ساتھ لگائی تھی کہ’’اگر ہنسے ہنسے آپ مرتے نہیں ہیں تو( نعوذ باللہ) آپ کو سوکوڑے لگائے جائیں گے۔اور آخری صفحہ پر سرخ رنگ کی ناک میں یہ کہنے ہوئے دیکھاگیا تھاکہ ’’ہاں اسلام اور مزاح ساتھ ساتھ چل سکتا ہے ۔ اس ضمیمے کے صفحہء اول پر فرانسیسی مصنف مشیل ویلبیک کی بھی تصویر تھی۔ ویلبیک کی ابھی حال ہی میں ایک انتہائی متنازعہ ناول منظر عام پر آئی ہے، جس میں انہوں نے ایک ایسے فرانس کی منظر کشی کی تھی، جس کا صدر ایک مسلمان ہے۔2012 میں اسی میگزین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر طنزیہ کارٹونوں کی ایک پوری سیریز شائع کی تھی۔
چارلی ہبدو میگزین کا یہ ہے صحافتی سفر ہے جس میں اس نے ہمیشہ حقائق سے انحراف کرکے ، سچائی کو پس پشت ڈال کر ، مذہبی تعصب کا عینک لگاکر صحافت اور میڈیا کی دنیا میں اپنی آزادی کا ڈنکاپیٹنے کی کوشش ہے اور پوری دنیا نے بھی یہ کہتے ہوئے اس کی پیٹھ تھپتھپائی ہے کہ ہاں اس میڈیا گروپ میں آزادی اور حقیقت پسندی درجہ کمال تک پائی جاتی ہے۔
کسی بھی مذہب ، اس کے بانی ، اور رہنماؤں کا مذاق اڑانے جیسے عمل پر آزدای کا لیبل لگانا اور اسے اظہار رائے کی ازادی سے تعبیر کرنا آزادی کو روح کو سنگسار کرنے کے مترادف ہے ۔ دنیا کا کوئی بھی عقل مند انسان اس کی حمایت نہیں کرسکتا ہے ۔
نہ ہی کوئی مذہب کسی مذہب کی تضحیک اجازت دیتا ہے ۔لیکن اس میگزین نے ہمیشہ سے یہی کام ہے اور بارہا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔میگزین کے اس عمل پہ پوری دنیا کے مسلمانوں ہمیشہ رد عمل کا اظہار کیا ہے لیکن بارہا تنبیہ کئے جانے کے باوجود اس ادارے نے اپنے مذموم عزائم میں تبدیلی لانے کی کوئی کوشش نہیں کہ بلکہ مسلسل یہ سلسلہ جاری رکھا ۔کچھ دنوں قبل میگزین نے داعش کے سربراہ ابوبکر بغدادی کا بھی ایک توہین آمیز کارٹون شائع کیا تھا ۔
گذشتہ کل یعنی بدھ کو اس میگزین کے دفتر پرایک غیر متوقع حملہ ہوا جس میں تقریبا دو پولس سمیت بارہ صحافیوں کی موت ہوگئی ۔فرانس حکومت نے اسے دہشت گردانہ حملے سے تعبیر کیا ہے اور یہ بھی کہاہے کہ ہم اسے کسی بھی صورت میں معاف نہیں کریں گے ۔ یہ حملہ کس نے کیا ہے ؟ کیوں کیا ہے ؟ اب تک اس کی تحقیق نہیں ہوسکی ہے ۔ البتہ ہندوستانی میڈیا کو مجرم کا پتہ چل گیا ہے ۔ انڈین میڈیا کے بقول اس حملے میں القاعدہ کے لوگ ملوث ہیں اور اب پورے یورپ پر اسلامی انتہاپسندوں کا خطرہ منڈلارہا ہے۔انڈین نیوز چینلوں پر بریکنگ نیوز بن کر یہی خبر چل رہی ہے کہ یہ حملہ پورپ کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے اور اس کی لپیٹ میں پورا یورپ آئے گا۔ عالمی میڈیا کی رائے ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں باربار گستاخی کے ارتکاب کرنے کے عمل کا یہ ردعمل ہے۔ پیر س میں اس حملے کے بعد تازہ ترین اطلاع مساجد پر حملے کے سلسلے میں بھی ہے ۔ خبروں کے مطابق مشرقی فرانس کی ایک مسجد میں نماز مغرب کے بعد تین بم پھینکا گیا البتہ اس میں کسی ہلاکت کی کوئی اطلاع نہیں ہے ۔
فرانس کے ایک صحافی کرسٹوف ہاسل باخ کا کہنا ہے کہ اس میگزین نے بارہا ایسے کارٹون شائع کیے ہیں جس پر پوری دنیا کے مسلمانوں احتجاج کیا ہے ۔گذشتہ سالوں میں اس کے دفترکو نذر آتش بھی کرنے کی کوشش کی گئی تھی اس لئے یہ حملہ بھی ایک عمل کا ردعمل ہے اور یقینی طور حملہ میں ملوث مسلم قوم کے ہی لوگ ہیں۔
جرمن سے شائع ہونے والے اخبار ڈی ڈبلیو کو دیئے گئے انٹر ویو میں کرسٹوف نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہاہے کوئی اخبار کسی مذہب یا اس کی مقدس شخصیات کا مذاق اڑانے کا حق رکھتا ہے،وہ ملکی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسا کر سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چارلی ہبدو و نے پاپائے روم اور مسیحی تنظمیوں کو بھی طنز و مزاح کا نشانہ بنایا ہے۔ کیتھولک مسیحیوں کو یقیناً یہ بات پسند نہیں آئی ہو گی تاہم انہوں نے اسے برداشت کیا۔ انہوں نے مزید کہاہے کہ کسی حکومت کو بھی اس طرح کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ ایک آزاد جمہوری معاشرے میں برداشت بہت ضروری ہے اور ایک حکومت اپنے تمام شہریوں سے اسی طرح کے رویے کی امید رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اس حوالے سے خصوصی مراعات نہیں دی جا سکتیں۔
یورپ کے ممالک میں سب سے زیادہ مسلم آبادی فرانس میں ہے یہاں تقریبا 60 لاکھ سے زائد مسلمان ہیں ۔ ان میں زیادہ تر بے روزگار ہیں اور حکومتی اعانت پر زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی وجہ سے سماجی طور پر یہ لوگ کمزور بھی ہیں اور چھوٹی چھوٹی بستیوں میں رہ رہے ہیں۔
اس حملے کے نتیجے میں کچھ تبصرہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب وہاں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جاسکتا ہے ۔دائیں بازو کی نیشنل فرنٹ نامی جماعت جو غیر ملکیوں اور خصوصی طور پر مسلمانوں کے خلاف ہے۔پیرس میں ہونے والے واقعے کے بعد اس جماعت کے حامیوں کی سوچ مزید پختہ ہو جائے گی۔ اس صورتحال میں مسلم مخالف جذبات میں اضافہ ہو گا اور مسلم برادری کا غصہ بھی بڑھے گا ۔گزشتہ برس ہونے والے یورپی انتخابات میں یہ جماعت ایک طاقت بن کر سامنے آئی تھی۔
میگزین کے دفتر پر ہونے والا حملہ یقینی طورپر قابل مذمت ہے ۔جس نے بھی یہ حرکت کی ہے وہ ناقابل معافی ہے لیکن اسی کے ساتھ بغیر کسی تحقیق کے مسلمانوں کو اس کا مجرم ٹھہرانا اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنا سراسر غلط ہے ۔ساتھ ہی میگزین کا عمل اور اس کا پورا صحافتی سفرنامہ بھی افسوسناک اور شرمناک ہے ۔ آزادی اور سچائی کسی پر الزام تراشی ، کسی کی تضحیک اور کسی کی دل آزای کا نام نہیں ہے۔ کسی بھی مذہب کا مذاق اڑانا ، اس کے بانی کی تذلیل کرنا اور اس کے پیروکاروں کے جذبات کو مجروح کرنا خلاف انسانیت عمل اور بدترین جرم ہے اس کا مرتک بدترین اور سخت ترین سزا کا مستحق ہے ۔
جواب دیں