پغمبر اسلام صلی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے اہانت آمیز کارٹون شائع کرنے کی پاداش میں 4سال پہلے اس جریدے کے دفاتر پر پیٹرو بم سے حملے کئے گئے تھے۔ اس کے باوجود یہ کارٹونسٹس اپنی گستاخانہ حرکات سے باز نہیں آئے تھے۔ انہیں مبینہ طور پر بار بار خبردار بھی کیا گیا۔ ملک بھر میں مسلم جماعتوں نے احتجاج بھی کیا۔ مگر اپنی شہرت کے نشے میں چور ان کارٹونسٹس نے توجہ نہیں دی اور پھر جو بھی ہوا وہ دنیا کے سامنے ہے۔ حملے میں زندہ بچ جانے والی خاتون کارٹونسٹ کے بیان پر یقین کیا جائے تو یہ حملے القاعدہ کارکنوں نے کئے کیوں کہ حملہ آور اپنے آپ کو القاعدہ کا ظاہر کررہے تھے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ گولی چلاتے ہوئے انہیں القاعدہ کا ذکر کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی۔ آیا یہ بحث پروپگنڈہ ہے یا حقیقت‘ اس کا مستقبل میں پتہ چلے گا۔
فرانس ایک طویل عرصہ سے اسلام دشمن پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ یورپ میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد 5ملین یہیں پر ہے۔ اس کے باوجود یہاں کی حکومت مسلسل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اقدامات کرتی رہی ہے۔ 2013ء میں کم از کم 470مخالف اسلام اقدامات کئے گئے۔ اس کی وجہ یہ خوف طاری ہے کہ اسلام فرانس کا اگلا مذہب ہوگا۔ یہاں کے لوگ بہت تیزی سے اسلام کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ نئی نسل کو اسلام کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے باقاعدہ ’’مخالف اسلامی خوف کمیٹی‘‘ Committee against Islamophobia in France (CCIF) کی تشکیل دی گئی ہے جو آئے دن مسلمانوں کے خلاف تحریکات منظم کرتی ہے۔ یہاں کے سیاستدان اور صحافی دونوں ہی اسلام کے خلاف پروپگنڈے میں مصروف ہیں۔ حتی کہ فرانس کے مشہور نامہ نگار مشیل ویل بیاک نے اپنے نئے ناول ’’سب میشن‘‘ میں یہ پیشن گوئی کی ہے کہ 7برس بعد 2022ء میں فرانس میں مسلم انتہا پسند جماعت اخوان المسلمین کی حکومت ہوگی اور آج فرانس کی سب سے مشہور ’’سوربو یونیورسٹی‘‘ کا نام پیرس سوربو اسلامی یونیورسٹی ہوجائے گا۔ یہ دراصل فرانس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی سازش ہے۔ ابھی سے نئی نسل اور موجودہ نسل کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر ابھی سے قابو نہیں پایا گیا تو فرانس میں اسلام پھیل جائے گا۔ اسلامی اقدار، روایات، رسومات سے فرانس کا نوجوان طبقہ متاثر ہے جس سے خائف فرانسیسی حکومت اور میڈیا نے یہ منظم طریقہ سے خواتین کے حجاب یا اسکارف پر پابندی عائد کی۔ اور یہی نہیں بلکہ مذہبی تعصب کے خلاف آواز اٹھانے بلند کرنے والی خاتون سماجی جہد کار میرین لی پن پر بھی مسلمانوں کے لئے قانونی چارہ جوئی کرنے پر پابندی عائد کردی تھی جسے حال ہی میں ختم کردیا گیا ہے۔فرانس کے اس رویہ پر اسلامی ممالک نے دبے دبے لہجہ میں احتجاج کیا تاہم ترکی صدر رجب طیب اردغان نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور فرانس کو دوٹوک لہجہ میں مشورہ دیاکہ وہ اسلام کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کی بجائے اسلام کے خوف کو ختم کرے۔ یہ خوف یوروپی سماج کے لئے نقصاندہ ہے۔ اس سے یوروپی اقدار متاثر ہوسکتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اسلام فرانس کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور یہاں سنی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کا غلبہ ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق ایک لاکھ دس ہزار فرانسسی شہریوں نے اسلام قبول کیا اور یہ سلسلہ جاری ہے جس سے فرانس کی پیشرو نسل فکر مند ہے۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ 1872میں فرانس میں مذہبی بنیادوں پرمردوم شماری پر پابندی عائد کی گئی تھی تاکہ یہاں کے شہریوں میں کسی قسم کی عدم مساوات نہ ہو تاہم مساجد اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے خوف زدہ فرانس کو مسلمانوں کی اصل آبادی سے واقفیت ضروری تھی چنانچہ 2010میں پہلی بار مذہبی بنیادوں پر مردوم شماری کی گئی۔ اگرچیکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف بیس لاکھ مسلمان ہے مگر یہ ایک حقیقت ہیکہ مسلمانوں کی آبادی پچاس سے ساٹھ لاکھ کے درمیان ہے۔ اور PEWکے سروے کے مطابق 2010میں مسلم آبادی 4.7ملین تھی اور 2030تک یہ سات ملین تک پہنچ سکتی ہے۔ دوسری طرف جین پال کورویچ کے مطابق میٹروپولیٹن فرانس میں 77لاکھ مسلمان موجود ہے۔ بیس فیصد فرانسیسی مسلمان مساجد میں نماز پڑھتے ہیں ، 70فیصد رمضان میں روزہ رکھتے ہیں۔ ان میں سے جیسے بھی ہے جو اسلامی عبادات کے ساتھ ساتھ رومن کیتھولک عقائد رکھتے ہیں مگر ان کی تعداد قابلِ نظر انداز ہے۔
مسلمانوں نے کبھی جنوبی فرانس پر بھی حکومت کی تھی‘ اگرچہ کہ یہ عرصہ مختصر رہا۔فرانسیسی مورخین کا دعویٰ ہے کہ 1543ء اور 1544ء کے دوران حیرالدین بربروسا کی قیادت میں جنوبی فرانس کا تولو خلافت عثمانیہ کے بحری بیڑے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔1609ء اور 1614ء میں اسپین سے مسلمانوں کے اخراج کے بعد 50ہزار کے لگ بھگ مسلمان فرانس میں داخل ہوئے تھے۔ 1960ء اور 1970ء کے دہائی میں الجیریا اور شمالی افریقی ممالک سے مسلمان یہاں منتقل ہونے لگے اور 1922ء میں پیرس کی جامع مسجد تعمیر ہوئی۔
فرانس میں مسلمانوں نے بتدریج اپنے وجود کا احساس دلانا شروع کیا اور 2002ء میں فرینچ کونسل آف دی مسلم فیتھ (Conseil Francais du Culte Musulman-CFCM) تشکیل دی۔ حکومت فرانس نے اسے تسلیم کیا اور دوسری طرف یونین آف اسلامک آرگنائزیشن آف فرانس UOIF بھی تشکیل ہوئی اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے مخالف ہیں‘ تاہم یو او آئی ایف مسلمانوں کو قانونی موقف کیلئے مسلسل جدوجہد کرتی رہی ہے۔
فرانس نے عالمی برادری میں اپنے آپ کو ایک مہذب سیکولر ملک کے طور پر پیش کیا ہے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ یہاں مسلمانوں کے ساتھ ہر شعبہ حیات میں امتیاز برتا جارہا ہے۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ملازمتوں میں صلاحیتوں کے باوجود انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے تعلیم یافتہ مسلم نوجوان دوسرے ممالک میں روزگار کے متلاشی ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ 1980ء سے حالیہ عرصہ تک کئی فسادات ہوئے۔ مساجد پر حملے کئے گئے۔ مسلم قبور کی بے حرمتی کی گئی۔ ان پر خنزیر کے سر رکھے گئے‘ ان واقعات کے لئے مسلمانوں ہی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔
1989ء سے حجاب کے استعمال پر پابندی کی کوشش کی گئی۔ 1990ء میں شمالی پیرس کے ایک اسکول سے تین لڑکیوں کو اسکارف پہننے کی پاداش میں اسکول سے نکالا گیا۔ ان لڑکیوں نے اسکول انتظامیہ کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کیا۔ اسکول ٹیچرس نے اسکارف کے خلاف مظاہرہ کیا۔ 1994ء سے سینکڑوں لڑکیوں کو اسکارف پہننے کی سزا کے طور پر اسکول سے نکال دیا گیا۔ فرانس کی اس ذلیل حرکت کے خلاف شدید ردعمل ہوگا۔ عراق میں تعینات دو فرانسیسی صحافیوں کو یرغمال بناتے ہوئے دھمکی دی گئی کہ اگر فرانس پہ مخالف اسلام پالیسیوں سے دستبرداری اختیار نہیں کی گئی تو انہیں ہلاک کردیا جائے گا۔ تاہم بعد میں کسی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر انہیں چھوڑ دیا گیا۔25؍جنوری 2010ء کو یہ اعلان کیا گیا کہ پارلیمنٹری کمیٹی عام مقامات پر خواتین کے چہرے پر نقاب پر پابندی عائد کرے گی۔
اِن تاریخی حقائق اعداد و شمار کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ یہ بتایا جائے کہ فرانس مخالف اسلام رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ اس نے آزادی کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کی توہین کے مرتکب عناصر کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے‘ مگر اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کسی بھی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کرسکتا۔ ویسے بھی تاریخی اوراق گواہ ہیں‘ جب جب رسول اکرم صلی ا للہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی گئی تب تب اِن گستاخوں کا انجام عبرتناک ہوا۔ فرانس کے کارٹونسٹس کی ہلاکت پر عالمی صحافتی برادری مذمت کررہی ہے ہم بھی اِن میں شامل ہوتے اگر یہ صحافی اور کارٹونسٹس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی نہ کرتے۔ محسن انسانیت کی اہانت کرنے والے کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔ ہم دہشت گردی کے مخالف ہیں۔ بے گناہوں انسانوں کو قتل کرنے والوں کو سب سے بڑا مجرم سمجھتے ہیں مگر جو کروڑوں مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرے ان کی دلآزاری کرے اور اس اُس ہستی کی شان میں گستاخی کرے جسے تمام مسلمان جان سے عزیز رکھتے ہیں‘ اُن کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس پر کوئی افسوس نہیں یہ اقدام چاہے عام آدمی نے کیا ہو یا کسی دہشت گرد تنظیم نے!
جواب دیں