میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں
آخر فطرتؔ مرحوم کے نام پر ہی بچوں کی لائبریری کیوں؟
عبداللہ غازیؔ ندوی
(مدیر ماہ نامہ پھول بھٹکل)
الحمدللہ ادارہ ادب اطفال بھٹکل اپنے بڑوں کی رہنمائی میں جس انداز اور طریقے سے نسل نو کی ذہنی و فکری تربیت کررہا ہے اس کا اندازہ ہر ایک کو ہورہا ہے۔
گزشتہ دن اس کی ایک اور بچوں کی لائبریری کا افتتاح عمل میں آیا،فطرت مرحوم کا نام سن کر بعض لوگوں کو بہت تعجب ہوا اور ذمہ داروں سے اس بارے میں استفسار بھی ہوا۔
حالاں کہ افتتاحی جلسے میں ذمہ داران نے اس کی ایک حد تک وضاحت بھی کی تھی اور مہتمم جامعہ جناب مولانامقبول احمد کوبٹے ندوی مدظلہ نے فطرتؔ صاحب کی شخصیت اور بھٹکل کے شعراء و ادباء کی فکری و ذہنی تربیت میں ان کے کردار پر بہت خوب روشنی ڈالی تھی۔
حقیقت میں ادارہ ادب اطفال بھٹکل نے فطرتؔ صاحب کا نام رکھ کر لوگوں کو بہت سی باتوں کی طرف اشارہ دیا۔انھوں نے فطرتؔ صاحب کی شاعری سے زیادہ ان کے فکری و تربیتی پہلو کو مدنظر رکھا اور فطرتؔ صاحب کے عظیم کارنامے کو خراج عقیدت پیش کیا۔اس عظیم شاعر نے اُس دور میں صالح ادب و شاعری کی ترویج کا بیڑا اٹھایا جب شعراء کی اکثریت اور نوجوان طبقے کی ایک بڑی تعداد گانوں کی رسیا ہورہی تھی اور فلمی دنیا کا شباب سرچڑھ کر بول رہا تھا،اس زمانے میں نوجوان دلوں پر نعت نبیؐ کی پاکیزگی اور شاعری میں اسلامی رنگ و آہنگ کی اشد ضروت تھی۔اسی لیے فطرتؔ بھٹکلی نے ببانگ دہل کہا کہ
یہ نغمات مغنی روح کو گرما نہیں سکتے
زمانے کو ضرورت ہے حیات افزا ترانوں کی
پھر فطرت صاحب کی ادبی انجمن کا آغاز ہوا،اس وقت جامعہ کے نوجوان استاد مولانا خالد غازیپوری ندوی مدظلہ کی صدارت نے اس ادبی انجمن کو چار چاند لگادیے اور حسرتؔ بھٹکلی،خلیل جوہرؔ،رحمت اللہ راہیؔ، مولانا ہاشمؔ ندوی،مولانا نعمانؔ ندوی ، اسحاق حسانؔ، ڈاکٹرعبدالحمید اطہر ندوی اور ایک لمبے وقفے کے بعد مولاناابوبکرتونسے ندوی، مولانا سمعان خلیفہ ندوی، سعود شنگیٹی ندوی(مجاہدؔبھٹکلی)اور سیدحسن بافقیہ جیسے فطرتؔ مرحوم کے شاگردوں نے اس کارواں کی خوب حدی خوانی کی اور اپنے شعری و ادبی نگارخانے کو اسلامی نقوش سے سجایا۔
وہ نوجوان جو فلمی گانوں سے دلوں کو سرور بخشتے تھے اب ان کے دلوں کی ویران نگری ایمانی ترانوں اور نعت نبیؐ کے زمزموں سے آباد ہوگئی۔گھر گھر فطرتؔ صاحب اور ان کے تلامذہ کے پاکیزہ کلام کی دھوم مچی۔بچے بچے کی زبان پر یہ ورد صبح و شام جاری ہوا کہ
یا رب تو مختار ہے.
حامی ہے غمخوارہے.
تو ہی پالن ہار ہے.
اپنا بیڑا پار ہے.
”انوار مدینہ سے روشن۔۔۔“ اور ”نغمات ازل بیدار ہوئے۔۔۔“ جیسی نعتوں نے شاعرِبھٹکل کی الگ پہچان بنائی۔ایسی ہی نعتوں کو دیکھ کر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ نے فرمایا تھا کہ
”تعجب ہے کہ اردو کے مرکز سے دور بھٹکل جیسی سنگلاخ سرزمین پر ایسا دل نواز شاعر پیدا ہوا“
اس کے بعد مولاناؒ سے فطرتؔ مرحوم کا ربط تادم آخر جاری رہا اور خط و کتابت کا طویل سلسلہ بھی چلا۔دیکھنے والوں نے یہ بھی دیکھا کہ جامعہ کے مہمان خانے میں حضرت مولاناؒ نے فطرتؔ صاحب کا استقبال کیا اور ان کو اپنی مسند پر بٹھایا اور نعت نبؐی کو آخری درجے کی عقیدت کے ساتھ سنا۔ فطرت صاحب نے زندگی بھر اس واقعے کو یاد رکھا اور ہمیشہ اپنے تلامذہ اور اہل تعلق کو فخریہ انداز میں سنایا۔ دراصل یہ مولاناؒ کی وسعت نظری اور عالی ظرفی تھی جو اب نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے۔
قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری
مولانا علیہ الرحمہ کے بعد بھی اس تعلق اور فطرت صاحب کے فکروفن کی قدردانی کے مظاہرے دیکھے گئے، عالمی رابطہ ادب اسلامی نے مولانا نعمان اکرمی ندوی کا مرتب کردہ فطرت صاحب کا مجموعہ ”افق اعلی“ شائع کرکے اس تعلق کو مزید استوار کیا۔رابطے کے ترجمان میں بھی فطرت صاحب کے مضامین شائع کیے۔
فطرتؔ مرحوم کا تعلق جامعہ اسلامیہ سے ابتدائی دورکاتھا،اسی تعلق کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے جامعہ کے لیے ایسا ترانہ لکھا جس کو ادبی شاہ کار کہا جائے تو کوئی ملمع سازی نہیں ہوگی،ادبی اور فنی لحاظ سے بڑے بڑے عالمی اداروں کے ترانے اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ پھر جامعہ کے بعد طلبۂ جامعہ کی انجمن اللجنة العربیہ کا ترانہ لکھا جس کا حرف حرف جامعہ کے ہرطالب علم کی زبان پر ایک مرتبہ سن کر ہی جاری ہوتا ہے۔
خطیب قوم اور سابق مہتمم جامعہ حضرت مولانا عبدالباری ندوی نوراللہ مرقدہ سے فطرتؔ مرحوم کے خوش گوار تعلقات مولانا کی وفات تک تھے،جامعہ کے اکثر طلبہ کو وہ منظر یاد ہوگا جب فطرت صاحب تشریف لاتے اور دیر تک مولانا کے پاس بیٹھ کر اپنی شاعری سے مولانا کو محظوظ کرتے،کبھی مولانا کے خطبے سے متاثر ہوکرمضمون لکھتے تو کبھی مولانا کے اوصاف حمیدہ اور اخلاق کریمہ کو اشعار کے قالب میں ڈھال کر مولانا کی خدمت بابرکت میں روانہ فرماتے۔
یہی وجہ ہے کہ مولانا نے وفات سے قبل آخری مضمون فطرتؔ صاحب کی شاعری پر ان کےغیرمطبوعہ مجموعے”نغمات ازل“میں لکھا جس کو ادارہ ادب اطفال کے صدر ڈاکٹر مولانا عبدالحمید اطہر ندوی ترتیب دے رہے تھے۔فارغین جامعہ کے لیے لکھے گئے فطرت صاحب کے الوداعی ترانے جمع کریں تو ایک خوبصورت مجموعہ بن جائے اور یہ کام جامعہ ہی کا کوئی سپوت کرسکتا ہے۔
لیکن گھر کی مرغی دال برابر کے موافق اس عظیم شاعر کی قدردانی جس انداز سے ہونی چاہیے تھی ان کے حساس اور شاعرانہ مزاج کو نشانہ بنا کر اس میں بڑی کوتاہی برتی گئی۔ فطرتؔ مرحوم یہ شعر گنگنا کر اکثر وبیشتر اپنے فن کی ناقدری کا ماتم کرتے تھے کہ
ہوں گرمیِ نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں
لیکن آخری دور میں ان کی قدر ان لوگوں نے حتی المقدور کی جو اب ادارہ ادب اطفال کے کارواں میں شامل ہیں اور فطرتؔ مرحوم نے بھی ان کی اس انداز میں تربیت کی کہ اب وہ صالح ادب کے علمبردار بن کر علم و فن کی شمعیں جگہ جگہ فروزاں کررہے ہیں۔
فطرت لائبریری ان ہی شاگردوں کی سوغات اور حق شاگردی کو ادا کرنے کی ادنی سی کوشش ہے۔
نسل نو کو اس عظیم اور انقلابی شاعر سے واقف کرانے کا ایک بہانہ اور ان کی شاعری سے کہیں بڑھ کر ان کی اسلام پسندی اور عالی اوصاف سے متاثر ہونے کا ثبوت بھی۔
ان شائاللہ بچوں کی لائبریریوں کا یہ سلسلہ دراز ہوتا رہے گا،جگہ جگہ رنگا رنگ اور جدید ترین انداز میں بچوں کی لائبریریاں قائم ہوتی رہیں گی اور نسل نو کو اپنے محسنین کی یاد دلاتی رہیں گی۔
اللہ کرے مرحلۂِ شوق نہ ہو طے
جواب دیں