مختلف لوگ اپنے اپنے سیاسی نظریات کے مطابق اس کی مختلف توجیہ کرسکتے ہیں اپوزیشن حکمراں ’’یوپی اے‘‘ کو اس کا ذمہ دار قرار دے سکتی ہے جب کہ دائیں بازو کی جماعتیں بائیں بازو کو اس کے لئے مجرم گردان سکتی ہیں اور خود حکمراں محاذ اس کا سارا الزام حزب اختلاف پر ڈال کر مطمئن ہوسکتا ہے دیکھا جائے تو ان میں سے سب پرفرقہ پرستی پھیلانے کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری عائد بھی ہوتی ہے۔
لیکن اس بارے میں یہ کہنا کہ سیاسی مقاصد کی خاطر جبر واکراہ اور تشدد کے راستے کو اپنانے کا طریقہ کشمیر یا شمال مشرقی ہندوستان تک محدود ہے یا صرف بعض انتہا پسند اس کے مرتکب ہورہے ہیں درست نہیں بلکہ غور سے دیکھا جائے تو سارا ملک آج اسی رنگ میں رنگتا جارہا ہے اور اس تعلق سے کوئی جماعت کسی سے پیچھے نہیں۔
یہی وہ ماحول ہے جس میں فرقہ پرست اور نیم عسکری تنظیموں کو فروغ ملتا ہے اور جگہ جگہ سینائیں قائم ہوتی ہیں لہذا آر ایس ایس اور شیوسینا کا عروج اس کی ایک مثال ہے شمال مشرقی ہندوستان میں ناگالینڈ، منی پور اور آسام میں چمکا، ناگا، الفا اور بورڈو دہشت گردوں کی پرتشدد سرگرمیاں یا مختلف ریاستوں کے مابین علاقائی تنازعات ان کے پھلنے پھولنے کی بنیادی وجہ یہی ہے اور نکسلیوں کی روز افزوں سرگرمیاں بھی اسی کی غماز ہیں مرکزی وزارت داخلہ وقتاً فوقتاً ان تنظیموں کے تعلق سے فکر مندی کا اظہار کرتی رہتی ہے لیکن ان کو روکنے کے لئے آج تک کارگر قدم نہیں اٹھایاگیا یہ اسلئے نہیں کہ نظم ونسق کا سوال ریاستی حکومتوں کے دائرہ کی چیز ہے بلکہ اس لئے کہ حکمراں محاذ سمیت کوئی بھی جماعت ایسی نہیں جس نے کسی نہ کسی موقع پر اپنے مفاد کی خاطر متشددتنظیموں سے فائدہ نہ اٹھایا ہو جب پارلیمنٹ کے اندر نمائندگی رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کی جمہوریت پسندی کی حقیقت یہ ہو تو مذکورہ انتہا پسند تنظیموں پر ہاتھ ڈالنے والے کہاں سے آئیں گے؟
اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو تشدد کے ملک گیر رجحان کو بڑھاوا دینے کی سب سے زیادہ ذمہ داری دو باتوں پر نظر آتی ہے ایک اقتصادی اور سماجی نابرابری اور دوسری فرقہ وارانہ ہنگاموں کے سلسلہ میں حکومت کی چشم پوشی بلکہ قومی ضمیر کی بے حسی، آج حالات بدل رہے ہیں تعلیم کا دائرہ پھیل رہا ہے عوام نئے نظریات سے متعارف ہورہے ہیں اور صدیوں کا جمود ٹوٹ رہا ہے نئے عہد کا انسان صرف اس بناء پر کہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے ناانصافی، سماجی تفریق اور اقتصادی اونچ نیچ کو برداشت کرنے پر تیار نہیں اس کے دل ودماغ میں نئے نئے سوالات اٹھ رہے ہیں جن کا جواب وہ اپنے گردوپیش کی دنیا میں تلاش کرتا ہے اور جب کوئی معقول جواب نہیں ملتا تو وہ ان خود ساختہ بندھنوں کو توڑ ڈالنے پر آمادہ ہوجاتا ہے جنہوں نے اس کے لئے زندگی کو نعمت کے بجائے عذاب بناکر رکھ دیا ہے۔
ہندوستان میں آج تشددکا جو بازار گرم نظر آتا ہے اس کا بڑا سبب بہرہ مند اور غیر بہرہ مند طبقوں کے درمیان بڑھتا ہوا یہی فاصلہ ہے جس کو جمہوری طریقہ سے مٹانے کی کوشش اگر کامیاب نہ ہوئی تو ایک دن ہماری جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے رہنماؤں اور سماج کے ذمہ دار طبقوں نے فرقہ وارانہ کشت وخون کے دور رس نتائج کو سمجھنے میں غفلت کی اور یہ طے کرلیا کہ اس سے قوم کے اندر جو برے جذبات پیداہوتے ہیں وہ صرف فرقہ وارانہ معاملات تک محدود رہیں گے اور زندگی کے دوسرے شعبوں پر ان کا سایہ نہیں پڑے گا اسی وجہ سے نہ تو حکومت کی طرف سے فرقہ وارانہ فسادات کو کچلنے کی صدق دلی سے کوشش کی گئی، نہ فسادات میں ملوث ہونے والوں کو سزا دینے پر خاص توجہ دی گئی جبکہ تشدد ایک متعدی بیماری ہے جس قوم میں اس کا رواج عام ہوجاتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتی کہ اس کا مخالف مذہبی نوعیت کا ہے یا سیاسی اور اقتصادی نوعیت کا، سردار پٹیل نے آزادی کے بعد کے فرقہ وارانہ قتل عام کے خلاف بڑے پتہ کی بات کہی تھی کہ’’ میں ہندوؤں کو مسلمانوں کو قتل کرنے کی آزادی ہرگز نہیں دوں گا بلکہ جو ایسا کرے گا اسے گولی سے اڑادوں گا کیونکہ ہندوؤں میں جان لینے کی عادت پڑگئی تو وہ آپس میں ایک دوسرے کی جانیں بھی لینے لگیں گے‘‘ بعد کے لوگوں نے فرقہ وارانہ تشدد کے مسئلہ کو اس نظر سے نہیں دیکھا جس کا نتیجہ آج ملک بھگت رہا ہے۔
گوتم ، گاندھی اور چشتی کے اس ملک میں انسان دوسرے انسان کا خون کافی پہلے سے بہار ہے ہیں اور اب بھی کم وبیش یہی حال ہے درمیان میں کچھ عرصہ کے لئے بدھوں جینیوں پر حملوں کا سلسلہ رک گیا تھالیکن مسلمان عیسائیوں کی طرح جینیوں کو بھی حراساں کرنے کی خبریں ذرائع ابلاغ کے وسیلہ سے اب پھر ملنے لگی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوؤں میں باہم لڑنے جھگڑنے کی جو نفسیات دب گئی تھی اب وہ پھر ابھر آئی ہے اور ولبھ بھائی پٹیل کی مذکورہ تنبیہ پر خاطر خواہ توجہ نہ دینے کا نتیجہ اب سامنے آرہا ہے۔
جواب دیں