اسی لئے آج سے ۲۸ برس پہلے بعض حلقوں کی طرف سے یہ تجویز آئی تھی کہ ہندوستان جیسے مختلف فرقوں اور مذہبوں کے ماننے والے ملک میں جہاں الگ الگ رسم ورواج اپنائے جاتے ہیں مذہبی قسم کے جلوسوں پر پابندی عائد کردی جائے ورنہ آزادی کے بعد سے آج تک ان جلوسوں سے جتنا انسانی خون بہہ چکا ہے، آگے بھی بہتا رہے گا اور کبھی یہ عقدہ نہیں کھلے گا کہ آخر وہ کونسے عناصر ہیں جو ان جلوسوں پر پتھر پھینک اپنی تباہی کو دعوت دیتے ہیں۔
عام تجربہ ہے کہ بیشتر مذہبی جلوسوں میں ایک غیر منظم بھیڑ اکٹھا ہوجاتی ہے اور اس میں مختلف قسم کے غیر ذمہ دار یا شرارت پسند عناصر بھی موجود ہوتے ہیں، جن پر باآسانی قابو نہیں پایاجاسکتا، اسی طرح عام لوگ ہجوم کے درمیان خود کو محفوظ سمجھ کر نہ صرف بے خوف بلکہ غیر ذمہ دار بن جاتے ہیں اور جیسے ہی انہیں موقع ملتا ہے وہ ہنگامہ آرائی پر اتر آتے ہیں، طلباء کی آئے دن ہونے والی ریلیوں سے بھی اسی نفسیاتی کیفیت کی تصدیق ہوتی ہے کہ جب وہ تنہا ہوتے ہیں تو دوسروں سے مرعوب رہتے ہیں لیکن جیسے ہی انہیں ہجوم کا سہارا ملتا ہے تو کئی بار نفسیات کی اصطلاح میں وہ ’’اجتماعی پاگل پن‘‘ کا مظاہرہ شروع کردیتے ہیں لہذا اس پاگل پن پر قابو پانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ایسے جلوسوں کی کثرت کو روک دیا جائے۔
ہندوستان مذہب کے بارے میں حساس لوگوں کا ملک ہے ، جہاں عوام معمولی معمولی باتوں پر جان لینے اور دینے کیلئے تیار رہتے ہیں، ایسے ملک میں سیکڑوں یا ہزاروں انسانوں کے غیر منظم اور بے قابو جلوسوں کو نکلنے کی اجازت دینا دراصل پریشانیوں اور خطرات کو دعوت دینا ہے، یہ بھی ضروری نہیں کہ الگ الگ مذاہب کے ماننے والوں کے جلوس فتنہ وفساد کا باعث بنتے ہوں، کبھی ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے جلوس بھی شر وفساد کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لکھنؤ میں شیعہ وسنیوں کے درمیان تصادم کی نظیریں کم نہیں، جن میں پوری بے دردی کا مظاہرہ ہوتا ہے، اسی طرح جینیوں اور دوسری ذات کے ہندوؤں کے درمیان یا بودھوں اور دیگر فرقوں کے مابین بھی فسادات ہوچکے ہیں، مدھیہ پردیش میں ۲۸ سال پہلے سیہور کے فرقہ وارانہ فساد کے بعد شب وروز نکلنے والے ان جلوسوں پر پابندی عائد کرکے جو تجربہ کیا گیا تھا، اس کی کامیابی سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس طرح کے جلوسوں کو نکالنے کی اجازت نہ دینا ہی بہتر ہے، جن سے بدامنی پھیلنے کا خطرہ ہو، سوائے ان مخصوص مواقع کے جن میں مذہبی لحاظ سے اجتماع کرنا یا جلوس نکالنا ضروری ہو اس سے بھی زیادہ بہتر طریقہ ہے کہ ہر مذہب کے پیرو اپنی عبادت گاہوں یا اپنے گھروں کے اندر عبادت کریں۔
فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف جس قانون کوبنانے کا مطالبہ ہوتا ہے اس مجوزہ قانون کے مختلف پہلوؤں پر غور وخوض کے ساتھ اس پر بھی تبادلہ خیال ہونا چاہئے کہ رات دن نکلنے والے مذہبی جلوسوں پر کیونکر قابو پایا جاسکتا ہے کیونکہ کوئی بھی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا کہ جلوس نکال کر امن وامان کو خطرہ میں ڈالا جائے، ہر مذہب میں انسانوں کی جانیں بچانا سب سے مقدم سمجھا گیا ہے لیکن مذہب کی اس روح کو عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
جواب دیں