فرقہ پرستی نہیں فرقہ پرستوں کو ختم کیا جائے

حیرت ہے کہ پرانے رپورٹروں کو تعجب کیوں ہوا؟ جبکہ یہ ہر کسی کی دوسرے اور تیسرے سال کی تقریر میں اس لئے دیکھا جاتا ہے کہ پہلے سال کے کئے ہوئے وعدے اور سہانے سپنے ہر وزیر اعظم کے سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں اور تقریر کرنے والا ہکلانے لگتا ہے۔
ہر وزیر اعظم کی پہلی تقریر بہت آسان ہوتی ہے اور اس کے بعد ہر تقریر بوجھل۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ 15 مہینے میں 15 پیسے کا بھی ان کی حکومت میں بھرشٹاچار نہیں ہوا اور اس کی وضاحت نہ کرنا کہ ان کی حکومت کیا صرف پی ایم او تک محدود ہے؟ یا پورے ملک کے وہ وزیر اعظم ہیں۔ اگر صرف ان کے دفتر تک ہے تو وہ سچے ہیں اور اگر پورے ملک پر ان کی حکومت ہے تو وہ معاف کریں ان سے بڑا کذّاب کوئی نہیں ہے۔ انہوں نے 2014 ء میں عوام سے کانگریس مکت بھارت مانگا تھا۔ عوام نے ان کی جھولی میں کانگریس مکت بھارت ڈال دیا۔ انہوں نے عوام کو بھرشٹاچار مکت مہنگائی مکت اور فرقہ پرستی مکت بھارت دینے کا وعدہ کیا تھا اور ریٹائرڈ فوجیوں کو ان کا 20 برس سے کیا جارہا مطالبہ ’وَن رینگ۔ وَن پینشن‘ حکومت بنتے ہی دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان میں سے کسی بھی وعدہ کا چوتھائی بھی پورا نہیں کیا اور یہی وعدہ خلافی تھی جس کی ندامت سے فرار کے لئے گذشتہ سال کے مقابلہ میں اس سال ضرورت سے زیادہ چیخنا بلکہ دہاڑنا پڑا۔ تاکہ عوام سمجھ جائیں کہ بادشاہ سلامت کو جلال آگیا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے ایک جملہ یہ کہا کہ فرقہ پرستی کے جنون کو ترقی کے امرت سے ختم کیا جائے گا۔ ہم اپنے کم علم کی بناء پر پرستی کے معنیٰ پرستش کہتے اور سمجھتے آئے ہیں۔ لیکن جب وزیر اعظم یہ لفظ بولیں تو اس کے معنیٰ اپنے فرقہ کی حمایت یا طرفداری کے سمجھے جاتے ہیں جیسے آنجہانی ہیمنت کرکرے نے جب ایک سادھوی اور ایک کرنل اور ان کے ساتھیوں کو دہشت گرد ثابت کردیا تو اس وقت کے بی جے پی کے سب سے بڑے لیڈر اڈوانی دوڑتے ہوئے وزیر اعظم کے پاس گئے کہ ان سب کو ٹارچر نہ کیا جائے اور سیکڑوں مسلمانوں کو جیسی جیسی ’’ایس ٹی ایف‘‘ نے جیل سے باہر اذیتیں دی ہیں ان کی اگر دس فیصدی بھی ان لوگوں کو دی جاتیں تو ہر ہندو دہشت گرد کا نام اور پتہ معلوم ہوجاتا۔
ہم اسے بھی فرقہ پرستی کہیں گے کہ مودی کی کابینہ میں رہی وزیر مایا کدنانی اور ان کے دُلارے بابو بجرنگی یا نہ جانے کتنے مسلمان نوجوانوں کا قاتل ڈی جی ونجارہ سب ضمانت پر باہر ہیں اور امت شاہ کو تو صرف باہر ہی نہیں لایا گیا بلکہ ان کے سر پر تاج بھی رکھ دیا گیا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں یہ جواب دیا جائے گا کہ ضمانت دینا نہ دینا عدالت کا کام ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سرکاری وکیل عدالت کا نہیں سرکار کا نوکر ہوتا ہے۔ اور جب اسے حکم دے دیا جاتا ہے کہ ضمانت کی مخالفت نہ کرنا تو امت شاہ بابو بجرنگی اور ونجارہ سب باہر آجاتے ہیں۔ اور برسوں اس لئے باہر رہتے ہیں کہ ہندو وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم اس کے خلاف اپیل نہیں کرتے۔ لیکن اگر اسے ترقی کے امرت سے ختم کرنے کی کوئی بات کرے تو اسے جھوٹا نہ کہیں تو کیا کہیں؟
اکشردھام مندر میں دھماکوں کے الزام میں جیسے عالم اور مفتی کو فرقہ پرستی نے جیل میں ڈالا اور جب وہ رہا ہوئے تو اُن کی لکھی ہوئی جیل بیتی کی رونمائی کی بھی گجرات حکومت نے اجازت نہ دے کر کیا فرقہ پرستی کا مظاہرہ نہیں کیا؟ جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہر اس پولیس والے کو پوٹا جیسے ذلیل قانون کے تحت بند کرکے 20 برس تک انہیں جیل میں سڑایا جاتا۔ جنہوں نے اُن محترم بزرگوں کو گرفتار کیا اور جھوٹا مقدمہ بناکر جیل بھجوایا۔ ہر ہندو وزیر اعلیٰ اور ہر پولیس کا بڑا افسر سب فرقہ پرست ہیں۔ اس بات کو مودی خوب خوب اس لئے جانتے ہیں کہ وہ خود اس لعنت کو گلے کا ہار بنائے ہوئے ہیں اور اس لئے اسے ختم کرنے کے لئے کسی سخت قدم کی بات کرنے کے بجائے ترقی کے امرت جیسے پرُفریب کھلونے سے کھیل رہے ہیں۔ انہیں اب ان سب کو ضمانت پر رہا کرانا ہے جو ہندو ہیں اور کسی ایک مسلمان کو نہ اب تک ضمانت ملی ہے اور نہ ضمانت دینے کا ارادہ ہے۔
اگست کے پہلے ہفتہ میں نگینہ بجنور کے ایک گاؤں کے رہنے والے یعقوب اور ان کے قریب گاؤں کے رہنے والے نوشاد اور ناصر کو بھی چار کلو آر ڈی ایکس اور بم بنانے کے آلات کے ساتھ گرفتار کرنے کی کہانی گڑھی تھی اور انہیں حرکت الجہاد الاسلامی کا ممبر بتایا تھا۔ وہ مسلمان تھے اس لئے غدارِ وطن اور دہشت گرد قرار دے دیا گیا تھا۔ ہماری بے بس عدالتوں نے قیافہ شناسی کا شاید ایک سبق بھی نہیں پڑھا۔ ورنہ وہ اس بدنام ایس ٹی ایف سے معلوم کرتی کہ جسے تم پکڑتے ہو اس کے پاس چار کلو آر ڈی ایکس ضرور دکھاتے ہو۔ کیا یہ گاؤں کے بازاروں میں یوریا کی طرح بکتا ہے یا وہی چار کلو ہے۔ جسے ڈاکٹر طارق، خالد مجاہد پھر یعقوب، نوشاد اور ناصر ہر ایک کے پاس دکھا دیتے ہو۔ یہ پانچ یا تین کلو کیوں نہیں ہوتا؟
ملک میں سب سے بڑے دہشت گرد ایس ٹی ایف اور پولیس کے افسر ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ جو بھی الزام لگائیں اسے سچ مان لیا جائے۔ یا وہ جو مانگیں وہ سامنے رکھ دیا جائے۔ ہمارے ساتھ خود یہ سب ہوچکا ہے۔ ندائے ملت کے مسلم یونیورسٹی نمبر کو ضبط کرنے کے لئے جب سی آئی ڈی اور پولیس کے ایک درجن میرے مکان میں داخل ہوئے تو اُن میں سے ایک نے معلوم کیا کہ حفیظ نعمانی صاحب کون ہیں؟ ہم نے بڑھ کر کہا کہ فرمایئے۔ میں حفیظ ہوں۔ انہوں نے ایک کاغذ بڑھایا کہ یہ تلاشی وارنٹ ہے ہم تلاشی لینے کے لئے آئے ہیں۔ ہم نے اپنے سب آدمیوں کو ہٹاکر اپنے پاس بلا لیا۔ پھر وہ سب ہوا جو ہم لکھ چکے ہیں۔ وہ ہمیں ساتھ لے گئے اور کوتوالی کی حوالات میں بند کردیا دوسرے دن اتوار تھا اس لئے شام تک یہیں رہنا تھا۔
دوپہر میں حوالات کے سامنے سے ایس پی گذرے اور معلوم کیا۔ ارے بھئی کسی نے نعمانی صاحب کو کھانا وانا بھی کھلایا؟ اس کے دو گھنٹہ کے بعد حوالات کا دروازہ کھلا دو سپاہی ہتھکڑی لئے ہوئے داخل ہوئے اور کہا کالی داڑھی والے کو بلا رہے ہیں صاحب لوگ۔ یہ وہی لوگ تھے جو حفیظ نعمانی کون ہیں؟ اور نعمانی صاحب کو کھانے کے لئے معلوم کرچکے تھے مگر اب ہتھکڑی اور کالی داڑھی کہہ کر یہ دکھانا چاہ رہے تھے کہ ہم جو معلوم کریں وہ بتادیں۔ وہ صرف یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ جو مضامین چھپے ہیں اس کے مسودے کہاں ہیں؟ ان کی اہمیت ہم جانتے تھے اس لئے وہ گرفتاری سے دو دن پہلے ایسی جگہ محفوظ کرا دیئے تھے کہ کسی کو ہوا بھی نہیں لگ سکتی تھی۔ اور وہ گھما پھراکر اسی کو مانگ رہے تھے اور ہم یقین دلا رہے تھے کہ اخبار تیار ہونے کے بعد وہ بیکار ہوجاتے ہیں اس لئے کوڑے میں چلے گئے ہوں گے۔ اور جب سرکاری وکیل نے کہا کہ اخبار میں جن کے مضامین ہیں ان کے متعلق یہ بھی معلوم نہیں کہ کس نے لکھے ہیں۔ اس لئے کہ مسودہ کسی کا بھی نہیں ہے۔ تو ہمارے وکیل صاحب نے ترتیب سے لگے ہوئے سب مسودے ہائی کورٹ کے جج کے سامنے رکھ دیئے کہ انہیں ملاحظہ فرمالیجئے اور سرکاری وکیل کا منھ سوّر جیسا ہوگیا۔
ہم اخبار والے تھے اس لئے بس اتنا ہی کرسکے اور جسے بھی پکڑتے ہیں اسے دہشت گرد اور وطن کا دشمن یا غدار سے کم کسی کو نہیں بناتے۔ اب مودی صاحب اس فرقہ پرستی کو کس ترقئ امرت سے ختم کریں گے۔ جبکہ ہر وزیر اور ہر افسر فرقہ پرست ہے؟

«
»

دشمن کا دشمن دوست

بھاگلپور فساد کمیشن کی رپورٹ مسلمانوں کے ساتھ ایک بڑا فراڈاور بھونڈہ مذاق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے