بظاہر تبلیغی جماعت ایک غیر سیاسی تنظیم ہے اس کا دائرہ بھارت کے علاوہ کئی دوسرے ملکوں تک پھیلا ہوا ہے افرادی جوڑ یا لوگوں کی پسند کے اعتبار سے اس وقت یہ مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت ہے یہ چھ باتوں سے لوگو ں کو جڑنے کی دعوت دیتی ہے کلمہ ، نماز ، علم و زکر ، اخلاق ، دعوت و تبلیغ اور اکرام مسلم۔ ان کا تصور ہے کہ جو بھی پریشانی آتی ہے وہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے لہذا اعمال کو درست کرنے کے لئے دین کی محنت ضروری ہے ۔
یہاں یہ بتاتے چلیں کہ مولانا الیاس ؒ نے جب یہ سلسلہ شروع کیا تھا اس وقت قوم سخت حالات سے دو چارتھی ارتداد کی خبریں آرہی تھیں قوم کی فکر رکھنے والے علماء پریشان تھے کہ ان حالات سے کیسے نپٹا جائے مولانا نے جن چھ باتوں کو لیکر دعوت کا کام شروع کیا ان میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے عام آدمی سمجھ نہ سکے یا اسے دین پر چلنا مشکل لگے مولانا کا ماننا تھا کہ جب کوئی شخص کلمہ سے جڑ جائے گا ، نماز کے لئے مسجد تک آجائے گا ۔علم و ذکر کی فکر کرنے لگے گا اخلاق درست کرنے کے بارے میں سوچنے لگے گا ، جو اس نے سیکھا ہے دوسروں کو سکھانے کی ذمہ داری محسوس کریگا تو اکرام مسلم خود بخود پیدا ہو جائے گا ۔پھر اسے دین کے دوسرے احکام و معاملات سے جوڑنا آسان ہو گا اس کی اسلامی بنیادوں پر شخصیت کی تعمیر کی جا سکے گی ۔ شاید اسی لئے انہوں نے دین کی محنت پر زور دیا ۔
حضرت مولانا ذکریا صاحب کی تحریر کردہ کتاب تبلیغی نصاب کو (جس کا علماء کے شدید اعتراضات کے بعد نام بدل کر فضائل اعمال کردیا گیا )جماعت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ امیر جماعت مولانا انعام الرحمن نے اس کتاب کو فروغ دیا مولانا جانتے تھے کہ اس جماعت سے جڑنے والو ں میں کم پڑھے لکھے ، غیر تعلیم یافتہ یا محنت کشو ں کی تعداد زیادہ ہے ۔ وہ اس بات سے بھی واقف تھے کہ ہر جماعتی گروپ میں کسی عالم دین کی موجودگی ممکن نہیں ہوگی کوئی پڑھا لکھا ہو سکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ احادیث پڑھ کر سنانے یا قرآن کی تفسیر بیان کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو اس لئے انہوں نے فضائل اعمال جماعتیو ں کے ہاتھ میں تھما دی ۔ جسے پڑھ کر جماعت کے لوگ مصلیے پر کھڑے ہوکر بیان کرنے لگے ۔حضرت قاری طیب صاحب نے اس صورتحال پر فرمایا تھا کہ مقتدی مقتدیٰ بننے کی کوشش نہ کریںیا پھر اپنے اندر مقتدیٰ بننے کی صلاحیت پیدا کریں ورنہ سماج میں علماء کی وقعت کم ہو جائے گی جو مسلمانوں اور دین کے حق میں نہیں ہے ۔
قاری صاحب کو جو خدشہ تھا وہ صحیح ثابت ہوا تبلیغی جماعت کے حلقہ میں فضائل اعمال کو قرآن پر فوقیت حاصل ہو گئی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ قرآن کی تفسیر کے پروگرام کو اس لئے روک دیا گیا کہ فضائل اعمال کی تعلیم ہونی تھی ۔جن ائمہ مساجد نے فضائل اعمال پڑھنے سے منع کیا یا قرآن کی تفسیر و حادیث پڑھنے پر زور دیا ان ائمہ کو مساجد سے نکال دیا گیا مولانا سعد صاحب نے منتخب احادیث اور اور قرآن کی تفسیر کو تبلیغی حلقہ میں رائج کرنے کی کوشش کی اس سے جماعت میں دو گروپ بن گئے ہیں ایک مولانا سعد کا حامی جس کی تعداد بہت کم ہے وہ منتخب احادیث پڑھتا ہے دوسرا فضائل اعمال پڑھنے والا گروپ ۔جس کی اکثریت ہے ۔کچھ دن قبل اس بات کو لیکر مرکز میں ٹکراؤں کی صورت بھی پیدا ہوئی تھی ۔
سرکار یا اہل وطن کی جانب سے جماعت پر کبھی شک نہیں کیا گیا تبلیغی جماعت کے بارے میں عام رائے یہ رہی ہے کہ یہ سرکار یا سیاست کے کاموں میں دخل اندازی نہیں کرتے یہ کل کی بات کرتے ہیں جس کا آج سے کوئی تعلق نہیں ہے یہاں تک کہ ایمرجنسی میں جب تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی تھی اس وقت بھی اس جماعت کو الگ رکھا گیا تھا سرکار کی خفیہ ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو زمین کے نیچے اور آسمان کے اوپر کی بات کرتے ہیں انہیں دنیا کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ ملک کے بدلے ہوئے حالات میں کونسی جماعت کہاں سے آئی ، کہاں گئی ، کون شخص جماعت میں شامل ہوا ، کتنے دن کے لئے جماعت میں گیا ، اس کی بیک گراؤنڈ کیا ہے ۔ جماعت ان سوالوں کے جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے اس کے جواب میں جماعت کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ کسی کا ریکارڈ نہیں رکھتے کون آیا ، کہاں سے آیا ، کہاں گیا ،وغیرہ ۔ان کا کہنا ہے کہ لوگ اللہ کے لئے اللہ کے کام سے گھر سے نکلے ہیں ایسی صورت میں اس بات کا خدشہ ہے کہ کوئی مجرم جرم کرکے چالس دن ، چار ماہ ، یا ایک سال کی جماعت میں چلا جائے ، قانون اسے کہاں تلاش کریگا ۔
باہر سے آنے والی جماعتوں کو سرکار نے غیر قانونی قرار دیکر انہیں فورا واپس بھیجنے کا حکم جاری کیا ہے جماعت کے حلقہ میں اس بات کو لیکر ناراضگی ہے باہر سے آنے والی جماعتیں ایک ماہ میں سڑک کے ذریعہ نیپال چلی جاتی تھیں وہاں سے ویزے میں توسیع کراکر پھر بھارت آجاتی تھیں اس حکم کے آنے کے بعد نیپال سرکار نے جماعتوں کے سڑک کے ذریعہ آنے پر پابندی لگا دی اور کہا کہ وہ ہوائی سفر کریں ۔ بھارت سے باہر جانے یا باہر سے بھارت آنے والی جماعتوں سے موجودہ حالات میں کئی طرح کے خطرات کی گنجائش ہے مثلا کسی بھی ملک کی خفیہ ایجنسی کا کوئی بھی شخص جماعت میں شامل ہو کر آسانی سے بھارت آسکتا ہے یا بھارت سے باہر جا سکتا ہے ۔ کبوتر بازی کا راستہ بھی کھلتا ہے ، باہر سے آنے والی جماعتوں کی بدولت مرکز کے آس پاس غیر ملکی کرنسی کی تبدیلی اور ٹریول ایجنسی کا کاروبار پھلا پھولا ہے ۔
انسانی فطرت ہے کہ وہ جس نظریہ کو مانتاہے اسے سب سے بہتر سمجھتا ہے اور اپنے نظریہ کو فروغ بھی دینا چاہتا ہے تبلیغی جماعت کے لوگ اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے ساری حدیں پار کر دیتے ہیں مسجد پر قبضہ کرنے کے لئے گالم گلوچ ، مارپیٹ ، اور لڑائی جھگڑے سے بھی انہیں پرہیز نہیں ہے ۔ انہوں نے مساجد کو سرائے میں تبدیل کر دیا ہے جبکہ تبلیغی جماعت کے پرانے لوگوں کو ہم نے یہ کہتے سنا ہے کہ طعام و قیام کے لئے مسجد سے متصل کسی الگ جگہ پر انتظام ہونا چاہئے مسجد ذکر عبادت کے لئے استعمال ہو اعتکاف کے علاوہ مسجد میں قیام ممنوع ہے ۔ مساجد پر غلط طریقوں سے قبضہ کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان بھی فساد کی گنجائش پنپ رہی ہے ۔کئی مساجد میں جماعت کے لوگوں کے داخلہ پر پابندی ہے جبکہ یہ تو دین کی دعوت ہی دے رہے ہیں ۔
تبلیغی جماعت کے اجتماعات میں خاص طور پر دعا میں شریک ہونے کے لئے لاکھوں لوگوں کو جمع کیا جاتا ہے ابھی بلند شہر کے اجتماع کی دعا میں دس لاکھ لوگوں کے شریک ہونے کی بات کہی گئی ۔ایک طرف جماعتوں کے گروپ بنا کر ادھر سے ادھر آنے جانے کو اہل وطن شک و شبہات کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔اس میں حالات کا بھی بڑا دخل ہے کیونکہ کچھ فرقہ پرست عناصر اہل وطن میں جماعت کے تعلق سے غلط فہمیاں پھیلانے کا کام کررہے ہیں ۔ دوسری طرف مسلمانوں کے جماعت، اجتماع ، دعا ، میں شریک ہونے سے لاکھوں گھنٹے اور کروڑوں روپے برباد ہو رہے ہیں کتنے ہی نو جوان ایسے ہیں جنہوں نے جماعت کا چسکا لگنے کی وجہ سے گھر اور خاندان کی ذمہ داریوں سے منھ موڑ لیا ہے اور یہ پورا وقت جماعت میں لگاتے ہیں اس سے کیا حاصل ہوگا اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے دنیا میں ٹینشن اور قوت برداشت کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا ہونا عام بات بن گئی ہے اسلام تو صبر کی تلقین کرتا ہے ایمان کا کام کرنے والے تو اس کی مثال ہونی چاہئے ۔ اس بات پرتوجہ دی جانی چاہئے کہ سفر کے دوران جماعت کے حضرات سے کوئی ایسی غلطی نہ ہو جس سے فرقہ پرست عناصر کو ماحول خراب کرنے کا موقع مل جائے ۔
کاش لاکھوں کے اجتماع کی جگہ 313لوگوں کا اجتماع ہو اور اجتماع پرخرچ ہونے والا کروڑوں روپیہ اس علاقہ کے غریبوں، مسکینوں ، بیواؤں ، بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے اور بیروزگاروں کو وزگار فراہم کرانے پر خرچ کیا جائے ۔تو اس شہر کی کایا پلٹ ہو جائے گی اور ہر علاقہ کے
لوگ خواہش کریں گے کہ کاش ایسا اجتماع ان کے علاقہ میں بھی ہو ۔اہل وطن کے شک و شبہات نہ صرف دور ہوں گے بلکہ وہ ایسے نیک لوگوں پرحملہ کرنے کے بارے میں دس بار سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔کہ ایسے لوگوں کو کیونکر ستایا جائے اس میں ان کے لئے عبرت بھی ہوگی اور دین کی خاموش دعوت بھی ۔
جواب دیں