فرقہ پرست دہشت گردوں کے نشانے پر اترپردیش

ادھر شاملی میں بھی بجرنگ دل کے لوگوں نے بچھڑا چوری کو بہانہ بناکر فرقہ وارانہ ماحول میں زہر گھولنے کی کوشش کی۔ اسی طرح بہرائچ میں فیس بک پوسٹ کے سبب حالات بگڑنے لگے مگر پولس نے مستعدی دکھاکر حالات کو کنٹرول کیا۔ دلی سے
متصل غازی آباد کو اس وقت فرقہ پرستوں نے نشانے پرلیا جب کچھ لوگوں نے ایک مسجد سے زبردستی مائک ہٹانے کی کوشش کی۔ظاہر ہے یہ تمام چھوٹے چھوٹے الاؤ سلگانے کی کوشش ہوئی اس امید پر کہ کسی ایک کو بڑے دنگے میں بدلا جاسکے اور لاشوں پر آئندہ الیکشن لڑا جائے۔ ہندو اور مسلمان کے نام پر ووٹوں کی تقسیم جہاں بی جے پی کو بھاتی ہے وہیں دوسری طرف سماج وادی پارٹی کوبھی سوٹ کرتی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ جب تک ۲۰فیصدمسلم ووت متحد ہوکر اس کے ساتھ نہیں آئے گا تب تک وہ صرف۸فیصد یادوووٹ سے جیت نہیں حاصل کرسکتی۔بی جے پی بھی مظفر نگر دنگوں کی فصل گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں کاٹ چکی ہے اور ایک بار پھر اسمبلی الیکشن میں بھی وہ ایسا ہی چاہتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی چنگاری کو جنگل کی آگ بنانا چاہتی ہے۔ 
مظفر نگر کو دوبارہ آگ لگانے کی کوشش 
مظفرنگر کے بھوما گاؤں میں ایک نوجوان کے قتل کے بعد کشیدگی پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے حالات نے فرقہ وارانہ منافرت کا رنگ لینا شروع کردیا۔ غصے میں آکربھیڑ نے ایک مسجد میں چھپے مسلمانوں کا گھیراؤ شروع کردیا او مسجد پر حملہ بھی کیا۔مسجد کے امام منیر کا کہنا ہے کہ مسجد کے اندر دو بم پھینکے گئے جبکہ بعض مقامی لوگ اسے درست نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ بم مسجد کے اندر رکھے گئے تھے، جن میں سے ایک پولیس نے برآمد کیا اور دو اندر ہی پھٹ گئے۔غور طلب ہے کہ گزشتہ۳۰ جون کی دوپہر پولیس نے یہاں لاٹھی چارج کیااور ہوا میں گولی چلا کر بھیڑ کو منتشر کیا۔ یہ معاملہ ایک دن پہلے رات سے شروع ہوا جب چار موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے بھوما گاؤں کے رہائشی ستویر کو اس کے گھر کے باہر گولی مار دی۔ اس کے بعد درجنوں لوگ گھر کے باہر جمع ہو گئے اور پولیس کارروائی کا مطالبہ کرنے لگے۔پولیس نے بتایاکہ ہجوم نے پتھر پھینکے اور فائرنگ کی، جس کے بعد علاقے میں موجود مسلمان خاندانوں نے مسجد میں پناہ لے لی۔ اس جھڑپ میں ایک پولیس حولدار زخمی ہو گیا۔پولیس کے مطابق ستویر پر حملہ کرنے والو ں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ 
شاملی کو خاک وخون میں نہلانے کی سازش
فرقہ وارانہ طور پر حساس شاملی علاقے میں بھی ماحول بگاڑنے کی کوشش چل رہی ہے۔ یہاں جھگڑا شروع ہوا ایک بچھڑے کی چوری کے الزام سے۔ جس پر چوری کا الزام لگا وہ مسلمان تھا۔ الزام لگانے والے بی جے پی اور بجرنگ دل کے کارکن تھے، جنھوں نے اس کے ساتھ مارپیٹ کی اور پھر اس واقعے کو بہانہ بناکر فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی شروع کی گئی۔انسپکٹر جنرل آف پولس آلوک شرما کے مطابق فرقہ پرست تنظیموں کے افراد ماحول بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔بنت گاؤں کے رہنے والے ریاض کو پولس نے بجرنگ دل والوں کی طرف سے لگائے گئے بچھڑا چوری کے الزام کے تحت گرفتار کیا ہے جب کہ بجرنگ دل کے افراد پر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا الزام ہے مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ اب علاقے میں جمعیۃ علماء ہند اور رہائی منچ نے مل کر تحریک شروع کی ہے کہ ریاض بے قصور ہے اسے چھوڑا جائے اور بجرنگ دل کے لوگوں کو گرفتار کیا جائے۔اس پورے معاملے کو جن لوگوں نے واٹس ایپ پر ڈا ل کر کشیدگی پھیلانے کی کوشش کی انھیں بھی پولس تلاش کر رہی ہے۔ 
بہرائچ میں فیس بک پوسٹ پر ہنگامہ
بہرائچ میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا سبب بن گیا فیس بک۔ دعووں کے مطابق فیض احمد نامی ایک شخص نے کسی ایک فرقہ کے خلاف فیس بک پر ایک پوسٹ کیا جسے اس کے دوستوں نے لائک بھی کیا مگر جب دوسرے فرقہ کے لوگوں کو پتہ چلا تو وہ پولس اسٹیشن پہنچ گئے اور فیض احمد کے خلاف شکایت درج کرائی۔ پولس نے اسے گرفتار بھی کرلیا مگر تب تک کشیدگی پھیل چکی تھی۔بہرائچ کی ایس پی نیہا پانڈے کے مطابق فیض احمد، حضور پور گاؤں کا رہنے والا ہے اور اس کے پوسٹ کے سبب جو حالات بنے ہیں اس سے پورے علاقے میں اشتعال ہے اور پولس کو جگہ جگہ تعینات کرنا پڑا تاکہ امن وامان قائم رہے۔
بہرائچ میں قابل اعتراض پوسٹ کا ایک معاملہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ دوسرا معاملہ سامنے آیا۔ بعض لوگوں نے اسلام، قرآن اور مسلمانوں کے خلاف کچھ نازیبا باتیں فیس بک پر پوسٹ کردیں اور حالات بگڑنے لگے۔ الزام ہے کہ اس پوسٹ کے لئے وپل سنگھ، آسو سنگھ ، اوم پرکاش، سروج اور اروند ذمہ دار ہیں۔ مقامی مسلمان اس پوسٹ کے سبب اشتعال میں آگئے اور تھانہ کا گھیراؤ شروع کردیا مگر پولس کے سمجھانے اور کارروائی کی یقین دہانی پر واپس لوٹ گئے۔پولس نے حالات کی نزاکت کودیکھتے ہوئے ملزمین میں سے بعض کو گرفتار کرلیا۔ 
غازی آباد میں مائک پر تنازعہ
ادھر دلی این سی آر میں واقع غازی آباد میں مسجد میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے کو لے کر حالات اس قدر خراب ہوگئے کہ جھڑپ میں تیس افراد زخمی ہوگئے۔ ان میں پولس والے بھی شامل ہیں۔ یوپی کے اس اہم شہر میں مقامی مسلمانوں کا الزام ہے کہ اکثریتی فرقہ کے لوگوں نے مسجد کے مائک کو زبردستی بند کرانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے حالات بگڑ گئے۔ تشدد میں کئی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اور مسلمانوں کی دکانوں کو لوٹ کر آگ لگایا گیا۔ یہ واقعہ فرید نگر علاقے کا ہے۔ ماحول خراب کرنے کے الزام میں علاقے کے سابق چیئر مین للت کارگ اور موجودہ کونسلر عارف کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پولس نے حالات کو قابو میں کرنے کے ارادے سے سیاسی لوگوں کی علاقے میں آمد پر پابندی لگادی ہے۔ 
ادھر ہاتھرس میں پربھات کمار نامی ایک ۲۲سالہ شخص کو گولی ماردی گئی جس کے بعد ماحول کشیدہ ہوگیا یہ الگ بات ہے کہ قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں ملا اور پولس اندھیرے میں ہاتھ پیر مار رہی ہے۔علاوہ ازین کانپور، کاسگنج اور یوپی کے کچھ دوسرے علاقوں سے بھی فرقہ وارانہ دہشت انگیز ی کی خبریں آرہی ہیں۔تشویش کی باتجہاں ایک طرف یوپی میں فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ جاری ہے ،وہیں دوسری طرف مرکزی سرکار نے ریاستی سرکار سے رپورٹ طلب کی ہے اور جاننا چاہا ہے کہ حکومت کیا کرہی ہے۔ ادھر مسلمانوں میں بھی شدیدبے چینی پائی جارہی ہے اور جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے اترپردیش میں فرقہ وارانہ فسادات کے خطرات کی خبر پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے خفیہ ایجنسی آئی بی کے ذریعہ مرکزی حکومت کو سونپی گئی رپورٹ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے جہاں ایک طرف حکومت اترپردیش کو متنبہ کیاہے کہ وہ
حالات پر قابو پانے کیلئے ضلعی انتظامیہ کو جواب دہ بنائے، وہیں دوسری جانب انہوں نے یوپی کے عوام سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ کسی بھی سازش کا شکار نہ ہوں۔ مولانا محمود مدنی نے حکومت ہند اور حکومت اترپردیش سے پرزور مطالبہ کیاہے کہ ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے جلد از جلد انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل لایا جائے اور اسے اتفاق رائے سے منظور کرایا جائے کیونکہ فرقہ پرستی پر قابو پانے کیلئے ملک کو اس وقت مضبوط قانون کی ضرورت ہے۔
یوپی میں دنگوں کاسیاسی کھیل
فی الحال بہار میں اسمبلی الیکشن ہے مگر انتخابی تیاریاں بہار سے زیادہ یوپی میں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ جہاں ایک طرف اندرونی خلفشار سے دوچار بی جے پی فرقہ وارانہ دہشت پھیلاکر الیکشن جیتنے کا پروگرام بنا رہی ہے وہین دوسری طرف سماج وادی پارٹی بھی خوفزدہ ہے کہ کہیں ریاست میں مسلم ووٹ تقسیم نہ ہوجائے۔ بی جے پی کے پاس یوپی میں ایک بھی ایسا چہرہ نہیں ہے جس کے دم پر وہ الیکشن جیت سکے اور اس کے لیڈران کے بیچ شدید اختلافات ہیں۔صرف برہمن ووٹ کے دم پر وہ نہیں جیت سکتی اور پسماندہ برادریوں کے ووٹ اس کے ساتھ تب ہی آئیں گے، جب دنگے ہوں گے اور مسلمانوں سے الگ وہ ووٹنگ کرینگے ۔ ادھر سماجوادی پارٹی اسی وقت جیت پاتی ہے جب مسلم ووٹ متحد ہوکر اس کے حق میں پڑے۔ سماجوادی سرکار نے مسلمانوں سے کئے وعدے پورے نہیں کئے ہیں اور اب وہ اسی بھروسے ہے کہ بی جے پی کی دہشت کے خوف سے مسلمان اس کے حق میں متحد ہوجائیں گے۔ اسے اس بات کا بھی خطرہ ہے اویسی برداران کی مجلس اتحادالمسلمین کہیں انتخابی میدان میں کود نہ پڑے جو یہاں کے حالات پر نظر جمائے ہوئے ہے۔ اسی کے ساتھ راشٹریہ علماء کونسل، پیس پارٹی،ایس ڈی پی آئی اور ویلفیئر پارٹی جیسی جماعتیں بھی انتخابی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ علاوہ ازیں بی ایس پی بھی بہت سے مسلمان امیدوار میدان میں اتارے گی اور اس سے سماج وادی پارٹی کو نقصان پہنچے گا۔ اندر کی خبر تو یہ بھی ہے کہ سماج وادی پارٹی اپنے ۵۰فیصد ممبران اسمبلی کے کام کاج سے خوش نہیں ہے اور ان کے ٹکٹ کاٹنے کی تیاریاں بھی کر رہی ہے۔ان حالات کے پیش نظر یوپی میں فرقہ وارانہ دہشت کی سیاست کو سمجھا جاسکتا ہے۔

«
»

’سپر ہسپتال‘ بڑے ہونے کا مطلب اچھا ہونا نہیں

یعقوب میمن کو پھانسی!ہندوستان کا سوتیلاانصاف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے