فحش فلموں پر پابندی کیوں نہیں لگانا چاہتی بھارت سرکار؟

آج ہمارے ملک میں حالات اس سطح تک پہنچ گئے ہیں کہ ہر عورت خوفزدہ رہتی ہے۔وہ غیر یقینی حالات سے دوچار ہے اوراپنے تحفظ کے تعلق سے فکرمند ہے۔ ریپ کی شکار ہونے والیوں میں چار مہینے کی بچیوں سے لے کر80برس کی بزرگ تک شامل ہیں۔مرکزی حکومت نے پورن سائٹس پر پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرکے بالکل درست قدم اٹھا یا ہے مگر یہ فیصلہ صرف کاغذات تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ میڈیا میں خبر آچکی ہے کہ ۸۵۷ پورن سائٹس پر حکومت نے پابندی عائد کی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ صرف اسی قدر سائٹس پر ہی پابندی کیوں لگائی گئی جب کہ اس قسم کی سائٹس لاکھوں کی تعداد میں ہیں؟ کیا چند سائٹس پر پابندی سے فحاشی کا یہ طوفان رک جائے گا؟ حکومت کی پابندی کا کیا اثر ہوا ہے ؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے جب ہم نے انٹرنیٹ پر سرچ کیا تو چند سکنڈ کے اندر ہی لاکھوں رزلٹ آگئے۔ گویا اس پابندی کے باوجود یہ دھندہ جاری ہے۔حالانکہ خود حکومت بھی کنفیوزڈ نظر آرہی ہے اور مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے کہا ہے کہ یہ پابندی کا دائرہ محض چائلڈ پورن تک محدود ہے۔ 
بھارت کے بازار پر دنیا کی نظر 
بھارت، فحش فلوں کی دنیا میں سب سے بڑی منڈی ہے اور اس میدان میں اربوں روپئے کا ہر ماہ کاروبار ہوتاہے۔ دنیا بھرمیں اس دھندے سے جڑی ہوئی کمپنیوں کی نظر بھارت پر ٹکی رہتی ہے۔ہر لمحے ہمارے ملک میں لاکھوں افراد انٹرنیٹ پر اس بارے میں سرچ کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق انٹرنیٹ پرہونے والی سرچ میں 25فیصد مواد پورن سے متعلق ہوتے ہیں۔ ان سائٹس کاممبر بننے کے لئے 150روپے سے لے کر 400روپے تک خرچ کرنے پڑتے ہیں‘ مگر اس کے بغیر بھی انہیں حاصل کرنا دشوار نہیں ہے۔ قیاس ہے کہ ہر سیکنڈ کم از کم 30ہزار لوگ اس طرح کی سائٹس دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ کرناٹک اسمبلی کے تین ممبران کو اسمبلی کے اندر پورنوگرافی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پایا گیاتھا۔ پورنوگرافی سے ان کمپنیوں کا بھی بھلا ہوتا ہے جو فحش سائٹس پر اپنے اشتہارات دیتی ہیں اور ان کے کاروبار میں خوب اضافہ ہوتا ہے۔حالانکہ اس کی حصولیابی صرف سائٹس کے ذریعے ہی نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کی سی ڈی اور ڈی وی ڈی بھی بہت عام ہیں۔ حد یہ ہے کہ اس کی دکانوں پر اکثر وبیشتر نوعمر لڑکے ہی دکانداری کرتے نظر آتے ہیں۔ 
بچوں پر مضر اثرات
آج انٹرنیٹ کے سبب فحش فلموں کی حصولیابی اتنی آسان ہوگئی ہے کہ پہلے کبھی نہیں تھی۔ پہلے اسے دیکھنے کے لئے اہتمام کرناپڑتا تھا‘ اب


ایک کلک کے ساتھ آپ کے کمپیوٹر اور موبائل پر دستیاب ہے۔ آج ہماری ممبیا فلمیں اور ٹی وی سیریل بھی کہیں نہ کہیں جنسی آوارگی پر اکساتے ہیں مگر پورن سائٹس کی ارزانی نے اسے بچے بچے تک پہنچا دیا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ہمارے سماج میں دواعی زنا اس قدرعام ہوئی ہیں ۔ فحش فلموں کو بآسانی انٹر نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتاہے۔ آپ کے پاس اسمارٹ فون ہونا چاہئے اور آج کل یہ اسمارٹ فون بچے بچے کے ہاتھ میں ہیں‘ جو صرف 98روپے ماہانہ انٹرنیٹ ری چارج کے بعد کچھ بھی ڈاؤن لوڈکرسکتے ہیں۔ فیس بک پرہمیشہ آن لائن نظر آنے والے، عموماً لوگوں کی نظریں بچا کر پورنوگرافی کے مزے بھی لیتے رہتے ہیں۔ آج کی نوجوان نسل موبائل سے فوٹو اتار کر فیس بک پر شیئر کرنے ہی میں آگے نہیں ہے بلکہ یہ فحش MMSمیں بھی بہت تیز ہے۔ اپنے دوستوں کے ساتھ گندے ویڈیوز کے تبادلے اس قدر عام ہوچکے ہیں کہ ان سے اسکول تک محفوظ نہیں رہے۔ اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے ایسے معاملے سامنے آتے رہتے ہیں اورمیڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ اسے حالات کی ستم ظریفی کہاجائے یا بدلتے وقت کا تقاضہ کہ عہد حاضر میں فحاشی کے اثرات ان کچے ذہنوں پر پڑرہے ہیں‘جنھیں بالکل صاف وشفاف ہونا چاہئے۔ انٹر نیٹ تک رسائی رکھنے والے بچوں میں ایسے بچے بھی بڑی تعداد میں ہیں‘ جو بہت کم سن ہیں‘ باوجود اس کے بالغوں کے لئے مخصوص مواد تک پہنچ رکھتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق زیادہ تر بچے 11برس کی عمر میں ہی کسی نہ کسی صورت اس قسم کے مواد سے واقف ہوجاتے ہیں۔بچے اگر کم عمری میں اس قسم کے مواد تک رسائی حاصل کرلیں‘ تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اس بارے میں جب ہم نے ایک ڈاکٹر سے دریافت کیا ‘ تواس کاکہنا تھا کہ وقت سے پہلے بچوں کے اندر جنسی ہیجان کاپیداہونا ایک غیر فطری بات ہے‘ جو ان کے ذہن اور جسم پر زبردست منفی اثر ڈالتا ہے۔جنسی ہارمونس کے ریلیز ہونے کے لئے ایک مخصوص عمر ہوتی ہے ، اب اگر اس عمر سے پہلے ہی یہ ریلیز ہونے لگے تو اس کے جسمانی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
سرکار کیا چاہتی ہے؟
مرکزی حکومت کی طرف سے پورن سائٹس پر پابندی کا خیر مقدم کرنا چاہئے ،جب کہ بعض حلقوں نے اس کی مخالفت کی ہے اور اسے انفرادی آزادی کے خلاف بتایا ہے۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ چند سائٹس پر پابندی لگانے سے یہ طوفان تھمنے والا نہیں ہے ۔ جن سائٹس پر پابندیاں عائد ہوئی ہیں وہ بھی نام بدل کر اپنا کام جاری رکھیں گی۔ اسی کے ساتھ یہ بھی دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ سرکار اس کی آڑ میں کہیں ان سائٹس کو تو بند کرنا نہیں چاہتی جو اس کے خلاف سرگرم ہیں اور حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔جو لوگ حکومت کے اس قدم کی مخالفت کر رہے ہیں ان کی دلیل بھی یہی ہے کہ اس کے پس پردہ سرکار اپنے مخالفین کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔

«
»

کیا حق ہے ہمیں آزادی منانے کا

بیٹی‘ اپنی اور پرائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے