فوج کے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت

عارف عزیز(بھوپال)

آزادی کے بعد جمہوری نظام کے تحت جو انتظامی ڈھانچہ وجود میں آیا اس میں ایک نئے حکمراں کا ورود ہوا جس کو عام اصطلاح میں نیتا، لیڈر یا قائد کہا جانے لگا۔ لیڈر کی اصطلاح جو ہمارے ملک میں رائج ہوئی اس کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ لیڈر عوام کا خدمت گار ہوتا ہے۔ آزاد ہندوستان میں عوام کے مصائب بڑھنے کے ساتھ ساتھ لیڈروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ خدمت کرنے والے یہی لیڈر بعد میں فرمانروا اور حکمراں بھی بنے اور انگریزوں کے زمانے میں حکمرانی کرنے لگے۔ جس طرح انگریزی حکومت کا کلکٹر جہاں انگریز حکمرانوں کے لئے ریونیو اکٹھا کرنے والا یا اس کا نمائندہ کہا جاتا تھا، آزادہندوستان میں کلکٹر کو عوام کا خادم یا نوکر کہا جاتا ہے۔ لیکن اس سے بڑا خدمتگار لیڈر کہلاتا ہے۔ یہ دونوں خادم عوام کی خدمت میں اس قدر مشغول ہیں کہ انہیں ’’انتظامی ڈھانچے‘‘ کا کوئی دھیان نہیں رہا۔ انتظامی ڈھانچے میں آئے بکھراؤ کو ہی ’’نظم و نسق‘‘ کے تباہ و برباد ہونے کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ آج پورے ملک کا انتظامی ڈھانچہ سہولیات و وسائل کی کمی کا شکار ہے۔ پہلے یہ ڈھانچہ تو کرپٹ نہیں ہوا تھا اور اصول و ضوابط کے مطابق اپنے فرائض کے ساتھ کسی قدر انصاف کرتا تھا مگر اب یہ بھی بگڑ گیا ہے۔
آج انسانی ضروریات کی بات کون کرے، انتظامیہ کے لئے ضروری وسائل فراہم کرانے کے سوال کو بھی نظر انداز کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں چاروں طرف لاقانونیت، انتشار اور تال میل میں تضاد بڑھ گیا ہے۔ اس سے جمہوریت کے چاروں ستونوں کی بلندی ظاہری طور پر تو نظر آتی رہی لیکن اس کے نیچے کے سبھی ڈھانچے بکھرتے چلے جارہے ہیں اور انتظامی ڈھانچے میں شامل تمام محکموں کی عدم کارکردگی کے اثرات ہمارے نظم و نسق کی تمام اکائیوں پر پڑ رہے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں ملازمین کی کمی تو ہو ہی گئی، ملازمین کے کام کرنے کے وسائل میں بھی کمی ہوتی گئی ہے۔ انتظامیہ، عدلیہ، محکمہ پولس جیسے اہم انتظامی ڈھانچوں کی سہولیات اور وسائل میں کٹوتی ہورہی ہے، اس کے ساتھ فوج جیسا اہم محکمہ جو قومی وقار و تحفظ کا ضامن ہوتا ہے، اس میں بھی کمی و کوتاہی دکھائی دینے لگی ہے۔ جس کا اظہار فوجی جوانوں میں خودکشی کی وارداتوں یا نوکری چھوڑ دینے کے رجحان سے ہورہا ہے۔ موصولہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برسوں میں کم و بیش ۴۰ ہزار فوجیوں نے اپنی نوکریوں سے دستبرداری اختیار کر لی ہے۔ ان فوجیوں کے نوکری چھوڑنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بہتر وسائل زندگی کا فقدان، کام کے متعین اوقات نہ ہونا، انٹرٹینمنٹ کا وقت مختص نہ کیا جانا وغیرہ۔ وہ اپنی نوکریاں اس لئے بھی چھوڑ رہے ہیں کہ ان پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اُن کی طرز زندگی کے بارے میں غور نہیں کیا جاتا اور انہیں وسائل اور بنیادی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔ اگر یہی رجحان رہا تو ملک کے فوجی دوسری مصروفیات کی تلاش کے لئے کوشاں ہوں گے اور افواج میں کمی واقع ہوگی جس سے ملک کمزور ہوگا اور اگر ملک کمزور ہوگا تو اِس کا فائدہ حریف ممالک اٹھائیں گے جو ہمارے ملک کے حق میں نہیں ہوگا۔

 

مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
23؍ جولائی 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

«
»

مدینہ منورہ میں حجاج کرام کی آمد کا سلسلہ جاری

کانگریس پر ’’مسلم تشٹی کرن ‘‘کے الزام کی حقیقت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے