فتح مکہ۔۔۔ عالمی امن کا پیغام

یہ دلچسپ تماشے ہمارے روز مرہ کا معمول ہیں۔ انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی دعویدارانِ امن اور مرتکبیں ظلم میں تفریق مشکل ہے۔اِس گنجلک پس منظر میں اُمید کی کرن ہمیں صرف سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں نظر آتی ہے،جہاں امن عالم کا حقیقی پیغام نہایت نکھری ستھری شکل میں امن کے حقیقی طلبگاروں کا منتظر رہتاہے۔’’فتح مکہ‘‘ عالمی امن کے پیغام کی بیّن نظیرپیش کرتی ہے ، جو آج بھی اِنسانوں کو حقیقی امن کی ضمانت دیتی ہے۔ تفصیلات میں گئے بغیر ہم سیدھے فتح مکہ سے متعلق اُمور پر گفتگو کرتے ہیں اور نہایت اختصار کے ساتھ فتح مکہ کے حوالے سے امن کے عالمی پیغام کا خلاصہ پیش کرتے ہیں، اِس اُمید کے ساتھ کہ امن و امان کی جستجو میں سرگرداں افراد و تنظیمیں اِس سے اپنے لائحہ عمل کے لیے روشنی حاصل کر سکیں گے۔ 
۸سن ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد جو اخلاقی فتح اہلِ ایمان کوحاصل ہوئی تھی، اِس کا سب سے پہلا نتیجہ یہ سامنے آیا تھا کہ صحابیاتؓ وصحابہؓ کے لئے ممکن ہوگیا کہ وہ بلا خوف وخطر پورے جزیرۃ العرب ، مختلف قبائل اور خود اپنے قبیلوں کو دعوتِ قرآن کی خاطرنکل سکیں یا اِس غرض کے لیے دور دراز کے سفر کرسکیں۔اِس کا دوسرا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ مذکورہ اسفار میں دعوتِ توحید کے ساتھ اُن بے بنیاد الزامات کے قلع قمع کا موقع بھی ہاتھ آیا جو Communication Gapکی وجہ سے ماقبل صلح حدیبیہ ممکن نہ ہو سکا تھا۔اِسی کے ساتھ اصل حقائق جزیرۃ العرب کے مختلف قبائل کی سمجھ میں آنے شروع ہوئے۔قریشِ مکہ کی جانب سے اہلِ ایمان کے سروں پر تنی عصبیت کی چادر بھی تار تار ہونے لگی۔ لوگوں میں دعوت الی اللہ کی قبولیت کی راہیں ہموار ہونے لگیں۔ایسے خوشگوار حالات کے درمیان ایک نا خوش گوار واقعہ پیش آتا ہے، عمرہ کی خاطر گئے ہوئے چند صحابہؓ کاحرمِ مکہ میں بلکہ عین مطاف میں بعض شریر عناصر کے ہاتھوں قتل ہوجاتاہے اورشہر طائف میں بھی چند اصحابِ رسولؐ قاتلانہ حملے کا ہدف بنتے ہیں۔قرب و جوار میں بھی مؤمنین کے قتل کی وارداتوں کی خبریں سامنے آتی ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم وجہ قتل کے ساتھ دو مطالبے کفار کے سامنے ر کھتے ہیں،یا تو قصاص میں خوں بہا ادا کرو،یاپھر مجرموں کو حوالے کردو ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اِن جائز مانگوں کورعونت کے ساتھ ٹھکرا دیاجاتا ہے۔ظاہر ہے ،جب ایک حریف کی جانب سے شرائط حدیبیہ کا لحاظ ہی نہ رکھا جائے تو معاہدۂ امن چہ معنی دارد۔!
ابو سفیان جو مکہ کے بزرگ اور قابل احترام شخصیت تصور کیے جاتے تھے، انہیں ان سنگین حرکتوں کے عواقب کا احساس ہوا۔معاملے کو رفع دفع کروانے کی خاطر انہوں نے مدینہ طیبہ کا سفر کیا۔ چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا مرتکبینِ قتلِ صحابہؓ کو سزا لاگو کیے جانے والا مطالبہ مبنی بر عدل تھا،اِس لیے ابو سفیان کو اِس مطالبے کو پلٹوانے کی یا اِس میں تبدیلی کروانے کی جرأت نہ ہو سکی۔صورتحال دھماکہ خیز بن گئی ۔ مکہ والوں سے جنگ ناگزیر نظر آنے لگی ۔
دنیا جانتی ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ و سلم کی کوئی جنگ اِقدامی جنگ کبھی نہیں رہی ۔ اِس کے برعکس اُنؐ کی جنگیں خالصتاً مدافعتی جنگیں تھیں۔یہ اور بات کہ حقائق پر متعصب تاریخ دانوں نے شکوک کے پردے ڈالے اورعصر حاضر کے ہمارے سورما ؤں نے بھی صحابہؓ کو جنگجوثابت کرنے کے سارے جتن کیے، فخر کی سیاست کو بڑھاوا دیا اور نوجوانوں میں خونریزی کی سفاکانہ روش عام کرنے کی حماقت کی اور چندہی صدیوں میں امن وامان کاداعی دینِ اسلام ایک متشدد مذہب کے روپ میں دُنیا کے سامنے آیا۔اب اگر ہر چہار جانب سے یہ شور برپا ہوتا ہے کہ اِسلام تلوار کے زور سے پھیلنے والا مذہب ہے تو اِس میں دینِ اِسلام کا کیا قصور؟۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہی کچھ ہمارے بعض سورما اپنی سیاست، امارت، خلافت اور شہنشاہی کے زعم میں چاہتے بھی تھے۔
آمدم برسرِ مطلب، مکہ والوں کی معاہدہ کی خلاف ورزی اور اُن کی پیدا کردہ خونریز بدامنی و فتنہ سامانی کو امن وامان میں بدلنا مقصود تھا، اِس لئے مزید ایک اور مدافعتی جنگ کے آثار پیدا ہونے لگے:
عزیزؔ ۔۔۔پھر یہ تقاضہ ہے ہم سے ظالم کا
ایک اور جنگ کریں امن و آشتی کے لیے
یہ جنگ بھی اقدامی نہ ہوکر اپنی روح میں گزشتہ جنگوں کی طرح مدافعتی ہی ثابت ہوئی۔ابوسفیان کو بھی اس حقیقت کا اندازہ ہوچکا تھا۔ان خطرات کے باوجود مکہ والے قتل کے مجرموں کو سزا دینے یا حضورؐ کے مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہے۔تاہم آنحضورصلی اللہ علیہ و سلم نے باقاعدہ مکہ والوں کو اس جنگ کی پیشگی خبر دے کر جنگ کے آداب کا پاس و لحاظ رکھا۔صحابہؓ کوجنگ کی تیاری کی ہدایات جاری فرما ئیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد قریش کے نقصِ معاہدہ کے سبب اُن کی ساکھ کو بے حد نقصان پہنچ چکاتھا۔لہٰذاسارے عرب میں اُن کی اخلاقی پسپائیوں کے چرچے عام تھے۔مکہ پر انکی سیادت پر ہی سوال اٹھنے شروع ہوگئے تھے۔ اِن سارے حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے قریش نے حسب سابق سارے ہی قبائل کو مکہ والوں کی طرف سے جنگ میں حصہ لینے کی اور اُن کی طرف سے جنگ لڑنے کی دعوت دی۔لیکن اُ ن کی حرکتوں کا ریکارڈ ایسا تھا کہ ، سارے جزیرۃ العرب کا باضمیرطبقہ اِس حقیقت کا قائل ہو چکا تھا کہ زیادتی کس فریق کی جانب سے ہوئی ہے اور اوّل روز سے بے انصافی کی روش پر کون گامزن رہا ہے!!! غرض کہ پروپیگنڈہ کے تارپود بکھرنے لگے۔کفار خود اپنے جال میں پھنس کر رہ گئے۔ جن قبیلوں سے قریش کو مدد کی اُمید تھی اُنہوں نے بھی کسی قسم کے تعاون سے صاف انکار کردیا۔ یہ بات اہلِ مکہ کے لئے فکر مندی کا باعث تھی کہ عرب قبائل کی مدد کے بغیر وہ مقابلہ کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ پھرجنگ احزاب میں پورے جزیرے کے سورماؤں کی جو کچھ درگت بن چکی تھی وہ سب کے سامنے تھی۔ اب انکے لئے ایسا کوئی آپشن نہیں رہ گیا تھا کہ جنگ کے مورچے پر رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور اصحاب رسولؐ کا سامنا بھی کرسکیں۔چنانچہ وہ حضورؐ اور صحابہؓ کے مقابلے کی ہمت جٹا نے سے قاصر رہے ۔
یہ تھا وہ پس منظر جس میں کفار کا حقیقت سے فرار ناممکن ہوگیا۔ اُنہوں نے اِسی میں اپنی خیریت سمجھی کہ پہاڑوں پر نکل جائیں ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا، فریقِ مقابل کے افراد نے میدان اور شہر ہی خالی کر دیا،اور اہلِ ایمان کے حصہ میں اللہ نے کسی کشت وخون کے بغیرفتح مقدر فرمادی۔سچی بات تو یہ ہے کہ وہاں کوئی جنگ ہوئی ہی نہیں تھی، کہ اِسے’’ جنگ مکہ‘‘کا نام دیا جاسکے۔یہ تو جنگ کے بغیر’’ مکہ کی فتح‘‘ تھی،اِسی لیے اِسے ’’جنگِ مکہ‘‘ کے بجائے’’ فتح مکہ‘‘قرار دیا گیا۔ البتہ اِسے ہم ایک نفسیاتی جنگ ضرور کہہ سکتے ہیں، جسے اِن لوگوں نے اپنے آپ سے چھیڑ رکھا تھا۔ اِ س لیے کہ وہ اپنے کرتوتوں کے بوجھ کو اپنے ضمیروں پر لادنے کے قابل نہیں رہ گئے تھے۔ ان کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ دو دہائیوں سے جس طرح اِنہوں نے اہلِ ایمان کو امن شکن ثابت کرنے کی یک طرفہ عصبیت کاجو کبھی ختم نہ ہونے والا سلسلہ بنا رکھا تھا، اہلِ ایمان کی مخالفت کی جو بساط بچھا رکھی تھی، پروپیگنڈوں کے ذریعہ اِن کی زندگیوں کو جس طرح اجیرن بنا رکھا تھا ، یہاں تک کہ جو مجبور ہو کر اپنے وطن سے ہجرت کرگئے تھے، اورحرم میں داخلے سے بھی محروم تھے ، اللہ نے ’’فتحِ مکہ‘‘ کاعظیم تحفہ ان کے دامن میں ڈال دیا۔ اِس طرح یہ جنگ بجا طور پر ’’جنگ مکہ‘‘ نہ ہوکر’’ فتح مکہ‘‘ ثابت ہوئی۔
جب مکہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کاداخلہ ہو رہا تھا تو دنیا نے یہ منظربھی دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اونٹنی قصویٰ پراِس طرح تشریف فرما تھے کہ آپ کا چہر�ۂمبارک اونٹنی کی پیٹھ سے جا لگا تھا اور صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپنے رب کا شکر بجا لانے میں مصروف تھے۔اِس موقع پر آپ کے لبوں پر سورۂ بنی اِسرائیل(۱۷) کی یہ آیت جاری تھی:’’وَقُلْ جَاء الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقاً۔۔۔’’اور اعلان فرما دیجیے کہ حق آگیا اور باطل شکست کھا گیا، بے شک باطل ہوتا ہی ہے مٹ جانے کے لیے۔۔۔‘‘(۸۱)۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت اللہ کاطواف کیا اور عام معافی کا اعلان فرما دیا۔آپ کے اعلان کے تین ایمان افروز اجزاء اِن الفاظ پر مشتمل تھے: اولاً، جو شخص اپنے گھر کے اندر ہوگا اُس سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا،ثانیاً، جو شخص سامنے ہوگا اس کا تعاقب نہیں کیا جائے گااورثالثاً، جو شخص فلاں فلاں قریش کے سردار کے گھر میں پناہ گزیں ہوگا اس پر بھی کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔اہلِ مکہ پہاڑوں کی اوٹ سے تماشہ ہائے لطف کرم دیکھ کر نہ جانے اپنے قلب و ذہن میں کیسے کیسے طوفانوں کو برپا ہوتے محسوس کر رہے ہوں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے لطف و کرم کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہے۔اِن میں سے کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں وفد کی شکل میں حاضر ہوا جائے۔چنانچہ سرکردہ افراد پر مشتمل ایک وفد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ سلم نے اِن سے دریافت فرمایا:’’ آج کے دن تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟‘‘ ۔ اُنہوں نے کہا:’’ آپ عبدالمطلب کے پوتے ہیں، عبداللہ کے بیٹے ہیں، آپ سے ہم اچھے سلوک کی ہی توقع رکھتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت یوسف علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے سورۂ یوسف (۱۲)کی یہ آیت پڑھی۔۔۔ :قَالَ لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ(92) ۔۔۔’’ (یوسف ؑ نے) کہا کہ آج کے دن تم پر کچھ عتاب(یا ملامت) نہیں ،اللہ تمہیں معاف کرے، بیشک اللہ تو ہے ہی ارحم الراحمین۔ ‘‘(۹۲)۔
اعدائے مکہ جو قریب ہی تھے، رحمت للعالمین کے لطف و کرم کا وہ بھی مشاہدہ کر رہے تھے۔ ہجرت کے بعد صحابہؓ کرام کی جائیدادوں، بلکہ خود آنحضرت کے ذاتی مکان پر بھی کفار قابض تھے۔پسپا کفار کو یہی گمان گزرا کہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کے بعداب آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ذاتی مکان کی جانب متوجہ ہوں گے۔خود صحابہؓ بھی اِسی بات کے منتظر تھے کہ شاید ایسا ہو۔ کیونکہ کفارکے قبضے سے اپنے مکانوں کو چھڑانے کا راستہ اُسی صورت میں کھل سکتا تھا ، جب خود صاحبِ فتح مکہ( صلی اللہ علیہ و سلم) اپنے کھوئے ہوئے گھر کی طرف متوجہ ہوں اور اِس طرح وہ بھی آنحضرت کی پیروی میں اپنے گھروں میں داخل ہونے کا موقع حاصل کرلیں۔ صحابہؓ کو اِس حقیقت کا علم تھا کہ وطن سے ہجرت اور اپنے ما ل واسبا ب سے محروم ہوکرنبی کریم صلی اللہ علیہ سلم جب ہجرت فرما رہے تھے تو اُن کی بے سروسامانی کاکیا عالم تھا۔ تن کے کپڑوں کے علاوہ اُن کے پاس بوقتِ ہجرت اور کچھ بھی نہیں تھا۔ظاہر ہے طویل عرصے تک اپنے مال و اسباب اور اپنے گھر سے محروم رہنے کے بعد کسی فتح یاب گروہ کے قائد کی اِس سے بڑھ کر ترجیح اور کیا ہوگی کہ وہ اپنے گھر پر اپنا قبضہ بحال کرلے۔لیکن قربان جائیے قائدِ فتح مکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پرکہ ، اُنہوں نے اپنے ہی مکان کی بازیافت کے سلسلے میں کسی کارروائی کی کوئی ضرورت محسوس نہیں فرمائی۔جاں نثار صحابہؓ نے بھی پیروئ رسول کو مقدم جانا اور اُنہوں نے بھی یہی کیا۔
اُدھرمکہ کی پہاڑیوں میں پناہ گزیں افراد جو ایثار و قربانی، جاں نثاری و فدا کاری کے یہ ایمان افروز مناظر ملاحظہ کر رہے تھے، پہاڑوں سے احساسِ شکست خوردگی کے ایک بھاری احساس کے ساتھ،نیچے اُتر آئے۔ اُنہیں یقین ہو گیا تھا کہ مکہ پر ایمان والوں کا قبضہ یقینی ہے ۔وہ اپنے دلوں میں اِس حقیقت کے معترف بھی ہو گیے تھے کہ اہلِ ایمان اِس صورتحال کے سبب مکہ پر قبضے کے جائز طور پر حقدار ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اِس فرمان پردُنیا حیران تھی کہ اب کوئی فرد اپنے ایمان کی خاطر مدینہ ہجرت نہیں کرے گا(بلکہ امن کا گہوارہ بننے والے مکہ ہی میں بے خوف و خطر مومن رہے گا)۔ دراصل ساری دنیا کو اِس فرمان کے ذریعہ یہ پیغام جارہا تھا کہ Settledافراد کا نقل مکانی ۔۔۔چاہے وہ کسی بھی وجہ سے ہو۔۔۔شہری آبادیوں کے مفاد میں نہیں ہوتی ۔یہی تو وہ فرمان تھا جس کے ذریعہ نقل مکانی سے شہروں کے سوشل فائبر Fibreکے ڈسٹرب کرنے سے گریز کی اہمیت کا دنیا کو اندازہ ہوا۔
اپنے پیغام کی عملی تعبیریں بھی آنحضرت نے عوام کے سامنے رکھیں۔مثلاً بیت اللہ کی چابی کو آپ نے اس کے مستحق Care Takerکے پاس ہی رہنے دیا۔قارئیں کی دلچسپی کے لیے جو گفتگو ہوئی ، اُس کی ایک جھلک حاضر ہے:
اِس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کنجی بردارِ کعبہ کو یا ددلایا :’’تمہیں یاد ہے کہ ہجرت سے پہلے ایک بارمیں نے یہ چابی تم سے مانگی تھی اور تم نے جواباً کہا تھا کہ :’’ ۔۔۔(اے محمدؐ)کیا تم سمجھتے ہو کہ اہلِ قریش اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ خانۂ کعبہ کی کنجی تم جیسے لوگوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جائیں، جو اپنے آبائی دین کو تج چکے ہیں۔۔۔!‘‘ میں نے کہا تھا:’’ اُس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب یہ چابیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی؟ ۔۔۔!‘‘ اور تم نے انگشت بہ دنداں ہوکرپوچھا تھا :’’ کیا قریش اِتنے ذلیل ہونے والے ہیں کہ یہ کنجی تمہارے ہاتھوں میں دیکھنے کی نوبت آجائے گی؟‘‘۔ آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا:’’ نہیں:(کسی کی ذِلّت کا سوال نہیں ہوگا، بلکہ)جس دن یہ کنجی میرے ہاتھ میں ہوگی، اُس دن قریش عزت پاچکے ہونگے۔ ‘‘
غور کرنے کا مقام ہے کہ یہ بات اُس وقت کہی گئی تھی جب فریقِ ثانی ابھی ایمان نہیں لایا ہوا تھا۔اِس کا صاف مطلب یہ تھا کہ’’فتح‘‘ لازماً مغرور بناکر پیش کرنے کا نام نہیں۔بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ جنگی فتوحات سے یہ لازم نہیں آتا کہ فاتحین سارے ہی اِنتظامی اُمور مفتوح اقوام سے لازماً چھین ہی لیں۔ ’’ فتحِ مکہ‘‘کے موقع پر سابق کنجی بردارکو Disturbنہ کرکے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک عظیم مثال پیش کی اور’’ فتح یابی ‘‘ پر شکرِ خداوندی کے لیے کسی طرح کے انتظامی امور کے ذمہ دار کوبدلنا ضروری نہیں سمجھا۔دنیا نے اِس سے یہ پیغام بھی لیا کہ مفتوح قوموں کی وفاداری پر بلا وجہ شک کرنے کے بجائے،یہ سوچنا ضروری ہے کہ ایسے مواقع پر اِن کی وفاداریاں کس طرح حاصل کی جانی چاہئیں۔ بعض صحابہؓ سوچ رہے تھے کہ مکہ میں چونکہ ہماری جائیدادو مکانات ہیں اور یہ ہمارا ہی وطن ہے، اِس لئے یہاں بودوباش اختیارکرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن وہ مزاج شناسِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے۔ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا کیا ہے۔
عظیم فتح مکہ نے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ فتح مندی ، نشے میں چور ہونے کا نام نہیں، نہ کھیل تماشوں کا۔جس طرح جدید دور کی بے ہنگم موسیقی،آتش بازی، ناچ گانوں کے اِنعقاد سے فتح کے جشن منائے جاتے ہیں،ایسا جشن نہیں، بلکہ فتح مکہ نے دنیا کو بتا دیا کہ فتح کا جشن کس طرح منایا جاتا ہے۔ افسوس کہ دنیا نے اس سبق کو بھلا دیا،یا مسلسل بھولتی جارہی ہے ۔ہم عاشقانِ رسول ؐنے توصدیوں پہلے ہی اِس سبق کو بھلا دیا اورآج تو،ہم جہالت کی اِنتہا پر ہیں۔مثلاً،معمولی کرکٹ کی فتح کو ہم ہضم نہیں کر پاتے،موسیقی، کھیل تماشے، آتش بازی، بے ہنگم رقص و سرور اور نہ جانے کیا کچھ کرتے پھرتے ہیں، اور پھر بھی عاشقِ رسول ؐ ہو نے کا دعویٰ جو ں کا توں برقرار رہتا ہے۔جس دین میں کہا گیا ہو، کہ اللہ کی نصرت یا فتح آجائے ، یہاں تک کہ لوگ اگر جوق درجوق لوگ اللہ کے دین کے ہم نوا بننے لگیں اور تفاخر کے عوامل کی کارفرمائی ہونے لگے، تو ایسے موقع پر بھی رب تعالےٰ کی تسبیح کی تاکید کی گئی۔ فتوحات کے موقع پر تسبیح، استغفار اورمعافی کی تاکید کی گئی ، توبہ اور اپنے رب کی طرف پلٹنے کا حکم دیا گیا ۔سورۂ النصر(۱۱۰) اِسی حقیقت پر دلالت کرتی ہے:إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ۔۔۔وَرَأَ یْْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ أَفْوَاجًا۔۔۔فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہُ کَانَ تَوَّابًا ۔۔۔’’جب اللہ کی نصرت اور فتح آ جائے ۔۔۔ اور تم لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق آتا دیکھو۔۔۔تو اپنے رب کی تسبیح میں مصروف ہو جاؤ، حمد(و ثنا) کے ساتھ، اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو ، بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘ (۱تا۳)۔
قیامت تک پیدا ہونے والے اِنسانوں کو یہ سبق دیا گیا کہ، فاتح’’ امانت دارانِ کتاب اللہ افواج‘‘ کا مفتوح اقوام کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے۔دل خوش کن نعروں اور روایتی جلسے جلوسوں کے بجائے،بتایاگیا کہ عملاًایک ایسا معاشرہ برپا ہو جہاں لینے سے زیادہ دینے کا اور خالص یک طرفہ طو ر پردیتے رہنے کا نظام جاری و ساری ہو۔اِ س سے پہلے کہ اپنے حقوق کا طلب گار اپنے حقوق کی طلبگاری کی کوئی مہم چلائے ، اِسکے حقوق ادا کر دئے جائیں۔جنگوں میں فتح یابی کے بعد فاتح افواج کے روبرو مفتوحین سر جھکائے کھڑے ہوں تو اِن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ امن و امان کے ماحول میں ، اِنسانی جانوں کی ارزانی کا جب ایک عام Potential موجود ہو توخون کا ایک قطرہ بہائے بغیر فتح کو کس طرح ڈائجسٹ کیا جائے اور فاتحین کے جوشیلے عناصر کی جانب سے مفتوحین پر کسی متوقع اِنتقامی حملے سے کس طرح بچایا جائے اور کس طرح اِنسانی جان کے تحفظ کی ضمانت مل جائے،اعلی اخلاق اور عام معافی کے نقوش کس طرح ثبت کئے جائیں،جن کے دھندلے پڑنے کا قیامت تک کوئی امکان باقی نہ رہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم میدانِ جنگ میں بھی مینارِ رحمت دکھائی دیتے ہیں،ساری اِنسانیت کے لیے۔
یہ ایک المیہ ہے کہ آج مسلمان کہلانے والے کچھ نام نہاد گروہ دین ہی کے نام پرغیروں کا نہیں، خود اپنے بھائیوں کا خون بہاتے نظر آتے ہیں۔جن کے ہاتھ اپنو ں ہی کے خون سے۔۔۔یہاں وہاں نہیں بلکہ عبادت گاہوں میں تک۔۔۔ بار بار خوں آلود ہو جاتے ہیں۔ کفار اورمشرکین سے جنگ کے دوران جن اسباق کو ملحوظ خاطر رکھنے کو کہا گیا تھا، انہیں یکلخت بھلا دیا گیا ہے۔یہاں تک کہ خوداپنے مسلم حریفوں کے ساتھ اِن کا رویہ ، کفار اور مشرکین سے رویوں سے بھی گیا گزرا نظر آتا ہے۔یہ دین محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کی خود پیرو کارانِ دین کے ذریعہ کھلے عام نفی نہیں تو اور کیا ہے؟فتح مکہ کے پیغامِ امن نوازی کو یکسر فراموش کر دینے وا لے نام نہاد مسلمانوں کو خبر بھی نہیں کہ وہ نا دانستہ طور پراغیار کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دین پرہنسنے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں اور پھر بھی خود ساختہ’’ فرزندانِ توحید ‘‘کا اپنی پیشانی پر لیبل لگائے پھرتے ہیں۔افسوس کہ جنہیں سورۃالنصر کا مطلب تک معلوم نہیں، وہ’’فتحِ مکہ‘‘ کے حوالے سے عالمی امن کے پیغام کو کیا سمجھ پائیں گے ، کجا کہ عالمِ اِنسانیت تک یہ پیغام دے پائیں ! یہ تو دن میں خواب دیکھنے جیسا لگتا ہے۔
ہم آخر میں اِختصار کے ساتھ وہ اسباق دہرانا چاہتے ہیں جو’’ فتح مکہ‘‘ کے موضوع کے ذیل میں ہمیں حاصل ہوتے ہیں، گو کہ گزشتہ سطروں میں’’فتحِ مکہ‘‘ کے حوالے سے بہت ساری گفتگو ہو چکی ہے،مگر پیغامِ فتحِ مکہ کو ہم ایک بار اور اپنے قارئین کے ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں، تاکہ فتحِ مکہ کے حوالے سے جو اہم اسباق ہمیں میسر آتے ہیں،وہ کبھی ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائیں:
۱)۔۔۔جنگ اگر مدافعتی بھی ہو تو اِس کا ایجنڈا اِس کے سوا کچھ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ’’فی سبیل اللہ ‘‘ ہوگی۔حوالہ سورۂ بقرہ(۲۲)۔۔۔آیت( ۱۹۰) 
۲)۔۔۔’’امن ۔۔۔امن۔۔۔ اور صرف امن‘‘۔۔۔یعنی جنگ کو ٹالنے اور کشت و خون سے بچنے کے لیے کسی بھی قیمت پر ایک بلند عزم و حوصلے کے ساتھ امن کو خریدا جائے اور رب تعالیٰ سے فتحِ مبین کی اُمید رکھی جائے۔قیامت تک امن کی یہی کنجی ہوگی۔حوالہ صلح حدیبیہ اور سورۂ فتح(۴۸)۔۔۔ آیت(۱)۔
۳)۔۔۔صلحِ حدیبیہ میں معاہدے کی شقیں ہر زمانے کے امن کے علمبرداروں کے ذہنوں میں ہر وقت تازہ رہیں:(الف) اہلِ ایمان سالِ رواں میں عمرہ کیے بغیر لوٹ جائیں گے۔۔۔(ب) آئندہ سال عمرہ میں صرف تین دن سے زائد قیام نہیں ہوگااور عازمینِ عمرہ دورانِ عمرہ غیر مسلح رہیں گے۔۔۔(ج) قریش سے تعلق رکھنے والا کوئی اہلِ ایمان مکّہ سے مدینہ چلا جائے تو اِسے قریش کے حوالے کردینا ہوگا ، لیکن مدینے سے کوئی شخص قریش کی پناہ میں آنا چاہے گا تو پناہ دی جائے گی اور کسی صورت اُسے واپس نہیں کیا جائے گا۔۔۔(د) یہ عہد نامہ دس سالوں کے امن و امان کی ضمانت کے لیے قائمIn Forceرہے گا۔۔۔(ہ) فریقین کی جانب سے مختلف مقامات کی جانب لوگوں کی آمد و رفت میں کوئی مداخلت یا کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔
۴)۔۔۔صلحِ حدیبیہ میں ہونے والے معاہدہ کے خاتمے کا اعلان: صحابہؓ کے قتل کی صورت میں اہل مکہ کی جانب سے نقصِ معاہدہ کاجو واقعہ پیش آیا، اِس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے مطالبۂ خوں بہا ، یا قاتلین کے حوالے کیے جانے کے تقاضے کا نتیجہ بے ثمر ثابت ہوا اوررسول اللہ علیہ و سلم کو مجبوراً اہلِ مکہ کی طرف پیش قدمی کرنی پڑی۔تاہم رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ و سلم نے دشمن پر کسی قسم کے شب خون مارنے یادشمن پر اچانک حملہ آور نہ ہونے کی عظیم سُنت قائم فرمائی، اور چار ماہ کی نوٹس کا طریقہ عالم اِنسانیت کوعنایت فرمایا۔اِس کی ترتیب یہ رکھی کہ اولین مرحلے میں معاہدے کے اِختتام کا اعلان کیا جائے،حملے سے پہلے فریقِ ثانی کو چار ماہ کی نوٹس دی جائے، اوراگر اِس مدت میں وہ اپنی باغیانہ روش سے باز آجائے تو کسی بھی قسم کی کارروائی سے گریز کیا جائے۔حوالہ سورۂ توبہ(۹)۔۔۔آیت(ا تا ۴)۔
۵)۔۔۔ واضح رہے کہ ابو سفیان سے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قریبی رشتہ داری تھی،وہ ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کے والد اورقریش کے بزرگ تھے،لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم نے رشتے پر اُصولی تقاضۂ اخلاق کو ترجیح دی۔اِس واقعہ میں یہ سبق موجود ہے۔
۶)۔۔۔یہ ایک حقیقت ہے کہ حالت امن میں ہی دعوت کے پھیلنے کی اُمید کی جاسکتی ہے،بلکہ امن و سلامتی کی ضمانت کے بغیر کوئی ترقیاتی کام کبھی ممکن نہیں ہو سکتا۔تاریخ اِس حقیقت کی گواہ بن گئی۔
۷)۔۔۔یہ یقین کہ فتح صرف اورصرف اللہ کے اختیارکی بات ہے،اِنسان اور تمام تر اِ نسانی کوششوں کی سرخروئی کامعاملہ اللہ کے دست قدرت میں ہے، اصل شأ ہے، اوراسباب سے اوپر اُٹھ کر مسبب الاسباب کی پہچان ایک مومن کا مطمحِ نظر ہونا چاہیے۔کیونکہ نصرت اور ہر نوع کی ترقی تو مذکورہ یقین کی مرہونِ منت ہوگی،چاہے امن کے حالات ہوں کہ جنگ کے۔حوالہ سورۂ آل عمران(۳)۔۔۔(آیت ۱۲۶)اورسورہ انفال(۸)۔۔۔آیت(۱۷)۔
۸)۔۔۔قدرت کا اٹل قانون یہی ہے کہ زمین پر ہمیشہ صرف امن پسندوں کا غلبہ رہے گا، کسی بھی اِقدامِ شر اورمنفی سوچ سے کبھی کوئی نتیجۂ خیر اورانجامِ مثبت برآمد نہیں ہو سکتا۔یہ اُسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ایک داعی اپنے ہدایت ناآشنا مدعو کا خیر خواہ بن جائے ،اُس کی جھنجلاہٹ پر صبرکا مظاہرہ کرے، اُس کے شرکو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا چلا جائے۔ دعوت کا کام عزیز ہو تویک طرفہ صبرہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ حوالہ سورۂ بقرہ(۲)۔۔۔
آیت(۱۵۳) اور(۴۱)سورۂ حم السجدۃ ۔۔۔ آیت (۳۴تا۳۵)
۹)۔۔۔فتح مکہ کا خود صاحبِ فتح مکہ پر۔۔۔ جو اِس پورے Operationکے کمانڈر تھے۔۔۔ جواثرات مرتب ہوئے ، اُس کی گواہی خود قرآن قیامت تک دیتا رہے گاکہ فتح کے جشن کس طرح منائے جاتے ہیں ۔حوالہ سورۂ اِسرا(۱۷)۔۔۔آیت(۸۱) اور سورۂ نصر(۱۱۰)۔۔۔آیت(۱تا۳)۔ہم نے اِس کی تفصیل گزشتہ سطور میں پیش کردی ہے۔ 
۱۰)۔۔۔اپنے اعلیٰ ا خلاق وبلندئ کردار ، بے داغ د یانت داری وکامل ایمانداری،بے پناہ جذباتِ خیر خواہی اورمتاثر کن نرم خو ئی سے دوست و دشمن کے ساتھ یکساں اور منصفانہ سلوک کرنے والے ، دوسروں کی تکلیف پر مضطرب ہواُٹھنے والے ، اپنے قول کے دھنی رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کا اِس طرح دل جیتاکہ وہ آقاؐ کے آگے سرنگوں ہوگئے اور اُن کے قلب و ذہن پر آپ ؐ نے وہ چھاپ چھوڑی کہ اُن کے دلوں کی دُنیا میں اِنقلاب برپا ہو۔حوالہ سورۂ یوسف(۱۲)۔۔۔آیت (۹۲) اور سورۂ توبہ(۹)۔۔۔آیت (۱۲۸)۔
۱۱)۔۔۔ پیغمبرانہ زندگی کے ۲۳ سالہ طویل عرصے میں دونوں ہی فریقین کے حیرت انگیز طور پر محض چودہ سو جانوں کے اتلاف کے ساتھ انسانیت کے گلے میں اِنسانوں کی غلامی کے طوق کو نکال پھینکنے اور ایک معبودِ برحق کی غلامی کا قلادہ اِس کے گلے میں پہنانے کا جوعظیم کارنامہ رحمت للعالمین نے انجام دیا ہے اِس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
فتحِ مکّہ کے اِن پیغامات سے دُنیائے اِنسانیت کیا اب بھی بے خبر رہے گی؟
کیا اب بھی ہم فتحِ مکہ کے عالمی امن کے پیغام سے دُنیا کو رُو شناس نہیں کرائیں گے۔۔۔!!!

«
»

بے قصوروں کو پھنسانے والوں کوسزا کب ملے گی؟

عرب بہار پر خزاں لانے والے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے