زار وں جوانوں،بچوں،عورتوں اور بوڑ ھوں کو شہید کیاگیا،موقر مذہبی رہنماؤں اورمبلغین و دُعات اورمجاہدین کو پر اسرار طورپر غائب کردیا گیا یاوحشیانہ انداز میں اُنھیں آغوشِ نیست میں پہنچا دیاگیا،قبضے سے لے کر اب تک کی تاریخ میں نہ جانے کتنے امن مذاکرات اور معاہدے ہوئے،یورپی یونین،اقوام متحدہ،امریکہ اورخود اپنے طورپر فلسطینی اتھارٹیز نے خطے میں قیام امن کی کافی کوششیں کیں،مگردنیا کا دہشت گرد نمبر ایک اسرائیل تمام تر معاہدوں،مذاکرات اور ان میں پیش کی جانے والی قراردادوں کو سرِ عام ٹھکراتا اور فلسطینی معصوموں کے خونِ ناحق سے اپنی بہیمیت کو آسودگی بخشتا رہا۔
فلسطینیوں پر عرصۂ حیات تنگ سے تنگ کیے جانے اورخطے میں بدامنی کے شیوع میں جہاں پڑوسی اسلامی حکومتوں نے ماضی میں انتہائی غیر ذمے دارانہ؛بلکہ منافقانہ و ایمان فروشانہ کردار اداکیا،وہیں خود فلسطین کی سیاسی جماعتوں کے باہمی انتشار و افتراق نے بھی اس سلسلے میں کم اہم رول نہیں اداکیا ،ان کے آپسی اختلافات اورتنازعات سے اسرائیل کو فائدہ پہنچتا رہا اور اس نے انھیں باہم الجھاکر اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر کارروائی مسلسل جاری رکھی،فی الوقت فلسطین میں سیاسی جماعتوں اورتنظیموں کی تعدادتواچھی خاصی ہے،مگر ان میں تحریکِ مزاحمتِ اسلامی(حماس،تاسیس:۱۹۸۷ء)اورتحریکِ آزادیِ فلسطین (الفتح،تاسیس:۱۹۶۴ء) نمایاں حیثیت رکھتی ہیں،اول الذکر کی اساس اسلام پسندی پر ہے اوراِسی جرم کی وجہ سے اُس پر امریکہ ،یورپی یونین،کینڈا،جاپان اور حال ہی میں مصر کی باغی فوجی حکومت نے بھی دہشت گرد تنظیم ہونے کی تہمت لگائی ہے،اسرائیل بھی اسی تنظیم کو اپنے راستے کا سب سے بڑا روڑا سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے حماس کے زیرِ اقتدارغزہ پٹی کاگزشتہ چھ سالوں سے بری،بحری اور فضائی محاصرہ کررکھاہے،وہ اسے جھکانے اور زیر کرنے کی ہر ممکن تدبیر کرچکاہے اور اب بھی کیے جارہاہے،مگر حماس بھی پوری دلیری و حوصلہ مندی کے ساتھ تمام تر مشکلات اور مصائب کو جھیل رہی اور اپنے شہریوں کی ہر ممکن امداد رسانی میں مصروف ہے،دوسری تنظیم الفتح ہے ،جس کی بنیاد مذہب سے زیادہ نیشنلزم پرہے اورجوقدرے لبرل سمجھی جاتی ہے،ماضی میں اس کے افکار و نظریات میں کچھ ایسے ’’جھول‘‘ظاہر ہوئے،جن کی بناپرحماس کا اس کے ساتھ اختلاف ہوگیا،پھر جنوری ۲۰۰۶ء میں متحدہ حکومت بنانے کے لیے پارلیمانی الیکشن کرایاگیا،جس میں حماس کو اکثریت حاصل ہوئی،توالفتح نے اس الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا؛چنانچہ حماس نے اپنے بل پر ایک جمہوری حکومت قائم کی، جسے ۲۰۰۷ء میں محمود عباس نے توڑکرمغربی کنارے اور مقبوضہ فلسطین میں الگ حکومت قائم کرلی اور حماس غزہ پٹی میں محصور ہوگئی،اسی دوران دونوں میں کئی جھڑپیں بھی ہوئیں،جنھوں نے ان کے مابین نفرتوں کی مزید خلیجیں حائل کرنے کاکام کیا، ۲۰۱۱ء میں مصری حکومت کی ثالثی میں فتح اور حماس کے مابین مصالحتی معاہدہ ہوا تھا ،جس کے تحت دونوں نے آزاد اور غیر جانب دار ماہرین پر مشتمل نگراں حکومت کی تشکیل اور فلسطینی علاقوں میں نئے صدارتی،پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات کرانے پر اتفاق کیا تھا،مگر دونوں جماعتوں میں کچھ بدگمانیوں کی وجہ سے اورکچھ دشمنوں کی مکاریوں کی وجہ سے تاہنوز اس معاہدے پر عمل نہیں ہوسکاہے۔
خطے میں امن کے قیام میں ناکامی کی ایک وجہ عالمی برادری اوربین اقوامی اداروں کی منافقانہ پالیسیاں بھی رہیں،جو ایک طرف تو فلسطین میں امن اور سلامتی کے قیام کی بات کرتے رہے،مگر دوسری طرف اسرائیل کی پشت پناہی بھی ان ہی کے ذریعے ہوتی رہی،خود امریکہ ،جس کومشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے بڑی کوششیں کرنے کا کریڈٹ حاصل ہے،وہ اسرائیل کا نمبر ایک کا نہ صرف حامی؛بلکہ اس کا سرپرست ہے،اسرائیل فلسطین میں بیٹھ کر وہاں کے اصل باشندوں کو بے گھر اور جلا وطن کرنے،انھیں بے دست و پا کرنے،اُن کے اموال و جاے داد پر ہاتھ صاف کرنے اور ان کے بیوی بچوں کوہلاک کرنے کا جو کھیل کھیل رہاہے،اس میں امریکہ بھی برابر کا شریک ہے،اُس نے تو اُسی دن اسرائیل کی مکمل حمایت و نصرت کا وعدہ کیا تھا،جب پہلی مرتبہ اسرائیل کا ناپاک قدم شہرِ قدس پر پڑا تھا،اُسی عہدکووہاں کی حکومتیں باری باری پورا کررہی ہیں،ماضی میں کئی بار امن مذاکرات کا سوانگ رچانے کے بعد گزشتہ سال جولائی میں امریکہ نے نوماہ پر مشتمل امن مذاکرات کاایک نیاپرپوزل تیار کیاتھا،جس پرعمل کے لیے وہاں کے وزیر خارجہ جان کیری کو مامور کیاگیاتھا،گزشتہ سال بھر میں جان کیری نے دسیوں دفعہ مشرق وسطیٰ کے دورے کیے ،ہر بار اُنھوں نے فلسطینیوں کو قیامِ امن کی نئی امید دلائی اور دوسری طرف اسرائیل اس دوران گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا اورخود اپنے کیے گئے وعدوں سے مکرتا رہا،حالیہدومہینوں سے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں قیامِ امن کے سلسلے میں فلسطین و اسرائیل کے مابین مذاکرات کے لیے بڑی کوششوں کی خبریں چل رہی تھیں،ایسا کہا اور لکھا جارہاتھا کہ جان کیری اس معاملے کو لے کر کافی حساس ہیں اور وہ کسی بھی حال میں خطے میں امن قائم کروانا چاہتے ہیں اور وہ اس کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں اور وہ’’ کچھ بھی‘‘ یہ تھا کہ وہ فلسطین کواسرائیلی مفادات کے سامنے جھکاکر مذاکرات کی میز پر لانا چاہ رہے تھے،جب کہ دوسری جانب اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو رہاکرنے کے اپنے کیے ہوئے وعدے کو بھی پورا کرنے پر تیار نہیں تھا،رواں ماہ کی ۲۹؍تاریخ اس مذاکراتی عمل کی ڈیڈلائن تھی اور ایسا کہا جارہا تھا کہ اس کے بعد بھی مذاکرات جاری رکھنے کی کوشش کی جائے گی،مگرخداکا کرنا ایسا ہواکہ فلسطینی اس ڈرامے کووقت رہتے سمجھ گئے،کہ وہ ماضی میں بھی اس طرح کے کتنے ہی ڈرامائی مرحلوں سے گزر چکے تھے، اُنھوں نے انتہائی دانش مندی اور فہم و فراست کا ثبوت دیتے ہوئے فلسطینی سیاسی جماعتوں میں مصالحت کی سوچی،اس پر عمل بھی کیا اور تنظیم آزادی فلسطین، تحریک مزاحمتِ اسلامی(حماس)اور دیگر فلسطینی جماعتوں کے سربراہان نے۲۳؍اپریل کو ایک مذاکراتی مجلس میں آپس میں مصالحت کے عہد و پیمان کیے اورآیندہ پانچ ہفتوں میں مقامی پارٹیوں کی نمایندگیوں پر مشتمل غزہ،مغربی کنارہ اوردیگر فلسطینی علاقوں میں ایک مشترکہ حکومت کے قیام اور اس کے چھ ماہ بعدعام انتخابات منعقد کرانے پر اتفاق عمل میں آیا،جس وقت پریس کانفرنس میں حماس کے رہنما اور غزہ کے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ نے ماضی کے اختلافات کو بھلاکرقوم اور وطن کی خاطراتحاد و اتفاق کے ساتھ جدوجہدکرنے کا اعلان کیا،اُس وقت خود فلسطینی مسلمانوں کے قلوب مارے خوشی کے بلیوں اچھل رہے تھے،ہزارہا فلسطینیوں نے سڑکوں پر اترکراس عظیم الشان پیش رفت کا خیر مقدم کیا،اس موقعے پر ان کے چہروں پر خوشی اور چمک کا وفور یہ بتلارہاتھا کہ وہ عرصے سے اس لمحے کے منتظر تھے اورانھیں اس حقیقت کا بھر پوراحساس ہے کہ جب تک ان کی نمایندگی کرنے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی صفوں میں اتحاد نہیں پیدا ہوگا،اس وقت تک ان پراسرائیلی جبرو قہرکے سلسلے نہیں تھمنے والے،دنیا بھر کے مسلمان بھی فتح و حماس کی اس مصالحت کومایوسیوں کی شبِ سیاہ میں روشنی کی لکیرِتازہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں،اُنھیں اپنے قبلۂ اول کے استخلاص کے تئیں امیدکی نئی کرنیں نظرآنے لگی ہیں،ایسا لگ رہاہے کہ قدرت نے بے گناہ اور معصوم و مجبور فلسطینیوں کی شب و روز کی آہوں،کراہوں اورسسکیوں میں ڈوبی ہوئی دعاؤں کو سن لیا ہے اور جلد ہی پردۂ غیب سے کسی بڑی اورخوشگوار تبدیلی کے رونما ہونے کی توقع ہے۔
دوسری جانب جس دن یہ معاہدہ عمل میں آیا ہے،اُسی دن سے امریکہ و اسرائیل کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگا ہے،ایک جانب امریکہ فلسطینی اتھارٹی کواسرائیلی مفادات کو تسلیم کرنے کی تلقین اور حماس سے معاہدے پرنظرِثانی کی ہدایت کے ساتھ یہ دھمکی بھی دے رہاہے کہ حماس سے معاہدے کی وجہ سے اس کو دی جانے والی پانچ سو ملین ڈالر کی امریکی امداد روک دی جائے گی،تو دوسری جانب اسرائیل نے بھی فلسطین پرنئی اقتصادی پابندیوں کے ساتھ مغربی کنارے اور غزہ پر اپنے حملوں کے سلسلے تیز کردیے ہیں،اس کے ناہنجار وزیرِ اعظم نتن یاہونے واضح طورپر امن مُذاکرات معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے،اس کا صاف کہنا ہے کہ محمود عباس یا تو حماس سے معاہدہ کریں یا اسرائیل سے ؛حالاں کہ فتح اور حماس کے مابین معاہدہ ان کا اندرونی معاملہ ہے اور اسرائیل سے مذاکرات کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،محمود عباس کا یہی کہنا ہے،وہ اب بھی مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہیں،انھوں نے تحریک آزادی فلسطین کے اجلاس میں واضح طورپر کہا ہے کہ اسرائیل ہماری دوشرطیں پوری کرے،ہم مذاکرات کے لیے ہر وقت تیار ہیں،ایک یہ کہ وہ ۳۰فلسطینی قیدیوں کو رہاکرنے کا اپنا وعدہ پورا کرے اوردوسری یہ کہ دورانِ مذاکرات فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری کی توسیع بندرکھے ،ویسے یہ کوئی الگ سے لگائی جانے والی شرطیں نہیں ہیں،گزشتہ سال جب مذاکرات شروع ہوئے تھے،تبھی اسرائیل نے یہ دونوں وعدے کیے تھے،مگراپنی فطری خست اور دنائت کے زیرِ اثر اس نے گزشتہ نومہینوں میں ان وعدوں کی بے پناہ خلاف ورزیاں کی ہیں۔
فتح و حماس کے مابین ہونے والے مصالحتی معاہدے پر نتن یاہو یا واشنگٹن حکومت کی چراغ پائی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حماس واقعتاً ایک دہشت پسندتنظیم ہے،جیساکہ وہ سمجھتے اوردنیاکوباورکرانا چاہتے ہیں،بات درصل یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل فلسطینیوں کو متحد ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے ،وہ انھیں مذاکرات کے کھلونوں سے بہلاتے رہنا اور ان کا قسطوں میں صفایا کرنا چاہتے ہیں؛کیوں کہ انھیں خدشہ ہے کہ اگرانھوں نے اخلاص و اتحاد کے ساتھ ہمارا محاسبہ شروع کردیا، تو’’گریٹراسرائیل ‘‘کی تشکیل اور’’ہیکلِ سلیمانی‘‘کی تعمیرکا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا؛اس لیے اب،جب کہ فتح و حماس کے درمیان مصالحت واتفاق کی نئی فضا قائم ہوئی ہے،گزشتہ معاہدوں پر عمل آوری کو یقینی بناناچاہیے،انھیں کسی بھی قسم کی شکستہ پائی کے احساس کا شکار نہیں ہونا چاہیے،انھیں اپنے حوصلے جواں رکھنا ہوگا،انھیں کسی بھی اسلامی یا غیر اسلامی حکومت اور برادری نہیں،صرف کارسازِ کائنات پر بھروسہ کرتے ہوئے پورے اخلاص اور ملی دردمندی و فکرمندی کے ساتھ آپس کے تمام تر گلوں اورشکووں کو بھلاتے ہوئے اپنے دست و بازو مضبوط کرکے اسرائیل پر کاری ضرب لگانا اور امریکہ کو اس کی دوغلی پالیسی کا جواب دیناہوگا……اِس مہم میں فلسطین کے خانماں برباد،مگرایمان کی دولت سے غنی مسلمانوں کی جرأتیں،ہمتیں،حوصلہ مندیاں اورقبلۂ اول پر مرمٹنے کے جذبہ ہاے فراواں توان کے ساتھ ہیں ہی،مگران کے علاوہ بھی دنیا بھر میں اربوں قلوب ہیں،جوشب وروزان کے لیے دھڑکتے،بے شمار ایسی زبانیں ہیں،جودن کے اُجالے اور رات کی تاریکیوں میں ان کے لیے دست بدعا رہتیں اورنہ معلوم کتنی روحیں ہیں کہ جب اُنھیں شہرِ قدس اوروہاں کے مکینوں پر ہونے والے اسرائیلی ظلم و جور کی خبر ملتی ہے،تو وہ تڑپ اٹھتی ہیں،ایسے تمام اہلِ ایمان کی دعائیں اورنیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں؛اس لیے وہ اسرائیل و امریکہ کی تہدیدو ترہیب سے بے پرواہوکرآپس میں مکمل اتحاد و یک جہتی کا ثبوت دیتے ہوئے قدم بڑھائیں،ان شاء اللہ کامیابی ان کے قدم بوس ہوگی۔
جواب دیں