عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ عرب کے نامورادیب،لغت کے باکمال عالم،شعروسخن میں یکتائے روزگار،امام ابوسعیدعبدالملک بن قریب اصمعی (المتوفیٰ:828ء/216ھ) لکھتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ بصرہ کے کسی راستے سے گزر رہا تھا، کیادیکھتا ہوں کہ ایک کوڑا چننے والا، نہایت خستہ حال و پراگندہ بال شخص اپنی ہی دُھن میں مست یہ شعر پڑھ رہاہے […]
عرب کے نامورادیب،لغت کے باکمال عالم،شعروسخن میں یکتائے روزگار،امام ابوسعیدعبدالملک بن قریب اصمعی (المتوفیٰ:828ء/216ھ) لکھتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ بصرہ کے کسی راستے سے گزر رہا تھا، کیادیکھتا ہوں کہ ایک کوڑا چننے والا، نہایت خستہ حال و پراگندہ بال شخص اپنی ہی دُھن میں مست یہ شعر پڑھ رہاہے اور کہہ رہا ہے ؎؎ ''ضرورمیں اپنے نفس کی عزت رکھوں گا؛ اس لیے کہ اگر میں نے ہی اس کی توہین و تذلیل کردی تو ائے نفس تیرے حق کی قسم! میرے بعد کسی کے ذمہ میں اس کی عزت باقی نہیں رہے گی''۔ امام اصمعیؒ کہتے ہیں کہ میں نے از راہ مزاح اس سے سوال کیا:تم کس اعزاز و اکرام کی بات کررہے ہو؟؟جب کہ کوڑے کی یہ گٹھری تمہارے کاندھوں پر ہے اور تم کوڑا جمع کرنے والے ایک معمولی انسان ہو۔اُس کوڑا چننے والے نے کہا: مجھے اللہ نے تم جیسے لوگوں کے گھر کے دروازے پر کھڑے ہونے کی ذلت سے بچا لیااور میری عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دیا۔ میں اس اکرام کی بات کررہا ہوں۔امام اصمعی فرماتے ہیں:اس کا یہ جواب سن کر مجھے بڑی سبکی ہوئی اور میں نے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت محسوس کی۔(جامع نوادر وأساطیر وأمثال العرب) ایک باغیرت انسان کے لیے عزت نفس کے کھو جانے،جذبہئ احترام کے ماند پڑ جانے اور انسانی حمیت کے چھن جانے سے بڑھ کر کون سی چیز تکلیف دہ ہوسکتی ہے؟؟اس مختصر سے واقعہ کے ذریعہ ہم بہ خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک کوڑا چننے والاغریب آدمی بھی اپنے اندر غیرت ِنفس رکھتا ہے؛جس کی بناء پر وہ ادنی سے ادنی پیشہ اختیار کرنے میں تو کوئی عار محسوس نہیں کرتا؛مگر دست سوال دراز کرنے میں ذلت واہانت سمجھتا ہے۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد آپ ذراتصور کیجیے کہ محلے کا ایک خود دار و غیرت مند انسان جو مفلس و محتاج ہے، محنت مزدوری کے ذریعہ اپنا اور گھر والوں کا پیٹ بھرتا ہے،یکایک حالات سے دوچار ہوجاتا ہے؛ لیکن اس کی عزت نفس کسی کو یہ بتانا پسند نہیں کرتی کہ اس کے یہاں فاقے چل رہے ہیں اور پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتے سے گھر میں چولہا جلانے کی نوبت تک نہیں آئی ہے،معصوم بچے بھوک سے بلبلا رہے ہیں،ماں انہیں تسلی دے دے کر سلارہی ہے۔یہ سارا منظر وہ خود بھی اپنی نم آنکھوں سے دیکھ رہاہے؛ لیکن مجال کہ کسی کے آگے دست سوال دراز کرے۔ صاحب کو اس کی غربت کا پتہ چلتا ہے تو دل میں خدمت خلق کا جذبہ انگڑائی لینے لگتا ہے،فوراًمبلغ ایک ہزار روپے مالیت کا مختصر ساپیاکیج تیار کرتے ہیں، دوست احباب کے ہمراہ اس کے گھر پہونچتے ہیں، اور راشن دیتے ہوئے اس غریب و خود دار انسان کی تصویر لے کر اس کی عزت نفس کوایسے پامال کرتے ہیں کہ اپنی نیکی وہمدردی تو میڈیا کی زینت بن جاتی ہے اور اس غریب کو معاشرے کے سامنے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ اسلام کی روشن تعلیمات کے مطابق حکم یہ ہے کہ بہ حیثیت انسان کسی کی عزت نفس پر حملہ نہ کیا جائے،کسی کو اس کی غربت کا طعنہ نہ دیا جائے،نام و نسب یا مال و دولت کی بنیاد پر کوئی برتری ظاہر نہ کی جائے۔اس حوالے سے صرف ایک واقعہ عبرت و موعظت کے لیے نقل کیا جارہا ہے: حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے قبیلے کے سردار تھے، بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تھوڑے ہی عرصے بعد انھیں قبول اسلام کی سعادت حاصل ہوئی، بڑے جلیل القدر صحابی تھے،ادھرحضرت بلال رضی اللہ عنہ غلام تھے،حبشہ سے تعلق رکھنے والے تھے،وہ بھی مشرّف بہ اسلام ہوئے، انھیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خرید کرآزاد کردیا تھا،اسلام نے اونچ نیچ، اعلی ادنی،اسود ابیض اور اشرف ارذل۔۔۔۔ہر طرح کا فرق مٹا دیا تھا اور سب بھائی بھائی بن گئے تھے۔ایک مرتبہ کسی بات پر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ میں جھگڑا ہوگیا۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے غصے میں آ کر انھیں ''یا ابن السوداء'' (اے کالی کلوٹی عورت کی اولاد) کہہ دیا، انداز بتا رہا تھا کہ اس اظہار میں تحقیر کی آمیزش تھی،بلال رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کردی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بلاکر سرزنش کی۔ فرمایا:کیا تم نے اس کی ماں کا حوالہ دے کر اسے عار دلائی ہے؟ مزید فرمایا:تمھارے اندرتو اب تک جاہلیت کی خوبوباقی ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان)بعض روایتوں سے پتہ چلتاہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو اپنی غلطی کااحساس ہوا، انھوں نے جاکر حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے معافی مانگی اور جب تک انھوں نے معاف نہیں کردیا، انھیں چین نہیں آیا۔ نیکی کر دریا میں ڈال والی مثال تو ہر ایک کو یاد ہے؛ لیکن اس پرعمل کرنا یاد نہیں۔یاد رکھیں! اگر ہم سے مخلوق کی خدمت کا کوئی کام ہوجائے تواسے اپنی سعادت مندی سمجھیں! احسان جتا کر اپنی نیکی کو ضائع نہ کریں۔ کسی کے ساتھ کوئی نیکی کرکے اس کو یاد نہ دلائیں، نہ احسان جتائیں، نہ اس سے اس کے شکریہ کے طالب بنیں۔ آپﷺکی وساطت سے پوری امت کو دوسری ہی وحی میں یہ نکتہ بتایا گیا،فرمایا“اور احسان کر کے زیادہ لینے کی خواہش نہ کر”۔(مدثر،6)دوسرے مقام پر ارشادہو تا ہے: ”جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعدنہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہوں گے۔نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس صدقہ سے بہترہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو اور اللہ تعالیٰ بے نیا ز و بردبار ہے”۔ (بقرہ: 263) انفاق فی سبیل اللہ کی مذکورہ فضیلت(لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون) صرف اس شخص کو حاصل ہوگی جو مال خرچ کر کے احسان نہیں جتلاتا، نہ زبان سے ایسا کلمہئ تحقیر ادا کرتا ہے جس سے کسی غریب، محتاج کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف محسوس کرے؛ کیونکہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ نبیﷺ کا فرمان ہے”قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا، ان میں ایک احسان جتلانے والا ہے”(مسلم، کتاب الایمان)۔اس کے بعدحق تعالی شانہ فرماتے ہیں: ”اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو“۔(بقرہ،264)اس آیت کے ذیل میں امام بغوی ؒنے عبدالرحمن بن زید بن اسلم کا یہ قول نقل کیا ہے،وہ فرماتے ہیں کہ میرے والد کہا کرتے تھے:جب تم کسی شخص کو کچھ عطا کرو اور تمہیں یہ بات محسو س ہو کہ تمہارا اس کو سلام کرنا بھی گراں گزرتا ہے تو تم اس کو سلام بھی نہ کرو!یعنی اس فعل سے تمہارے دل میں اگر یہ خیال گزرتاہے کہ کہیں یہ شخص یہ نہ سمجھے کہ احسان جتلانے کے لیے سلام کرتا ہے تو سلام کرنا چھوڑدو۔ کسی غریب کو راشن دیتے ہوئے تصویر کھینچنا یا کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرتے ہوئے ویڈیو بنانا شرعی اعتبار سے درست ہے یا نہیں؟یہ تو اہل فتوی اور ارباب دانش بتائیں گے نیز تقسیم کرنے والوں کے اخلاص و نیک نیتی پر انگشت نمائی بھی بدگمانی سے خالی نہیں۔ تاہم اتنا ضرور لکھنا چاہوں گا کہ اس نادار و غریب کے شکستہ دل پر کیا گزرے گی جسے غیرت نے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے تو روکے رکھا؛مگر احسان کرکے جتلانے والوں نے اسے سر عام رسوا کرڈالا۔ جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے؛ جس میں حق تعالیٰ شانہ نے صدقات کے ظاہر کرنے کو بہتر بتایاہے،تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جس شخص کو صدقہ دیاجارہا ہے اُسے بھی منظرِ عام پر لایا جائے، اس کی جگ ہنسائی کی جائے، سرعام اسے بدنام و رسوا کیا جائے؛ بل کہ صدقات کو ظاہر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو عمدہ، بہتراور محبوب شیئ راہ خدا میں خرچ کی جارہی ہے اور جس اہم مصرف میں دی جارہی ہے،مقتدی و پیشوا حضرات عوام الناس کو ترغیب دینے کی غرض سے ظاہرکرناچاہیں تو کرسکتے ہیں۔ امام بغوی لکھتے ہیں کہ بعض علماء کے نزدیک چند وجوہات کے پیش نظر زکوٰۃ پوشیدہ نہیں؛ بلکہ ظاہر کر کے ادا کرناافضل ہے جبکہ نفلی صدقات پوشیدہ اور چھپا کر ادا کرنا افضل ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے فرائض مسجد میں (سب کے سامنے) ادا کرنا افضل ہے اور نوافل گھر میں۔ آج کل ہم زکوٰۃ اسلامی حکومت کو نہیں دیتے،لہٰذا نہ تو اس کا ظاہر کرنا بایں طور ضروری ہے کہ اخفا ممکن نہیں اور نہ ہی عاملین درمیان میں موجود ہیں کہ حساب کتاب میں مسئلہ پیش آ سکتا ہے؛ البتہ تہمت کا اندیشہ اب بھی ہے کہ ایک متمول شخص اگر چھپا کر زکوٰۃ دیتا ہے تو اس کے بارے میں یہ بدگمانی پیدا ہو سکتی ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتا اور نتیجۃً وہ متہم بھی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اگر وہ زکوٰاۃ کی ادائیگی اس تہمت سے بچنے کیلئے اعلانیہ کرتا ہے توبہ شرطِ اخلاص اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔واللہ اعلم الغرض:نیکی کا مقصد اللہ تعالیٰ کا قرب ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اخلاص لازم ہے؛کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ انسان کے دل اور نیت پر ہوتی ہے اس کی زبان پر نہیں ہوتی۔ بڑے بڑے طالبانِ نمود و نمائش اپنے مقام سے اللہ تعالیٰ کے ہاں گر جاتے ہیں۔ اگر ہمارا مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے تو ہمارا عمل ہمارے لیے باعث اجر بن جائے گا۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا تو وہ ریاکاری کے زمرے میں آجائے گا جس کے بارے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“جو شہرت و ناموری کے لیے نیک اعمال کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو ذلیل و رسوا کر ے گااور جس نے ریاکاری کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے لوگوں کے سامنے ذلیل و رسوا کر دکھایا”(طبرانی:199/20)اس حدیث میں ہمارے لیے واضح کر دیا گیا کہ نیکی کا معیار شہرت اور ناموری نہیں ہے؛ بلکہ اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی ہے۔ اگر ہم محنت کر کے نیکی والے راستے پر آتے ہیں تو اس کو خود لوگوں کے سامنے رکھ کر ضائع مت کریں۔ہمیں عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر پہرہ بھی دینا چاہیے تاکہ نیکی ہمیشہ قائم رہے اور آخرت میں کام آئے۔ ملک کے معاشی منظرنامے اور موجودہ لاک ڈاؤن کی تشویش ناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے،بلاتفریق مذہب وملت خدمت خلق کی انجام دہی وقت کی اہم ضرورت اور دین اسلام کا اولین تقاضا ہے؛ مگر تلخ نوائی پر پیشگی معذرت کے ساتھ اس حقیقت سے پردہ اٹھانا ضروری سمجھتاہوں کہ ان ہنگامی مواقع پر رفاہی تنظیموں اور خیراتی اداروں کی اک باڑ آئی ہوئی ہے،ہروہ شخص جو چند لوگوں کے درمیان مقبولیت پاجاتا ہے یا پانا چاہتا ہے ایک عدد تنظیم بنانے اوراس کا غیر ضروری پرچار کرنے کو حق واجب سمجھتا ہے،خواہ اس حوالے سے تجربہ رکھتا ہویا نہ رکھتا ہو،خواہ حق دار تک حق پہونچانے کاحوصلہ ہو یا نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت پیشہ ور گداگروں کے لیے تویوم العید کاسا سماں ہے اور عفیف و پاک دامن ضرورت مندوں کے حصے میں فاقہ مستی و بھکمری۔ یہاں اس فرق کی وضاحت بھی مناسب ہے کہ ادارے کی کارکردگی کومنظرِ عام پر لانا، مختلف سرگرمیوں سے معاونین کو واقف کروانا واقعتاً ایک اہم ضرورت ہے؛ مگر بہتر ہوگا کہ اس ضرورت کو ضرورت کے درجہ میں رکھا جائے،خواہش نفس یاواہ واہی لوٹنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ ایسے کتنے خیراتی ادارے ہیں جہاں سے غرباء کے لیے لاکھوں کا تعاون جاری ہوتا ہے؛مگر ان کے اپنے ہی ملازمین مستحق ہونے کے باوجود اس سے محروم ہیں۔ایک عصری تعلیمی ادارے کے بارے میں یہ سن افسوس ہواکہ انتظامیہ نے جمیع معلمین ومعلمات کو یہ کہہ کر چھٹی دے دی کہ اب دو تین ماہ تک تعلیم کے ساتھ ساتھ تنخواہ بھی موقوف رہے گی اورآئندہ سال جب تعلیم کا آغاز ہوگا تو از سرنو معاملہ کیا جائے گا۔ یہ کس قدربے حسی کی بات ہے کہ ہر طرح کے حالات میں برسوں سے ساتھ دینے والے مخلص ملازمین کو تو معاشی بحران کی دہائی دے کراور نت نئے بہانے تراش کر یکلخت برخواست کردیا جائے یاپھر مشاہرے سے محروم رکھا جائے اور باہر لاکھوں روپیے کی ہنگامی امداد کا اعلان کیا جاتا رہے۔ انصاف کاتقاضا تو یہ تھا کہ اپنی بساط کے مطابق سب سے پہلے ان کی ضرورتوں کا تکفل کیاجاتا،معاونین کو اس ضرورت کا احساس دلایا جاتا پھر بعد میں دوسرے حاجت مندوں کی حاجت برآری کی فکر کی جاتی؛ مگر ائے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔۔۔۔۔۔۔اس حوالے سے بعض دینی جامعات کا طرزعمل قابل تقلید اور لائق صد تحسین ہے جنہوں نے بے سرو سامانی کے باوجود کسی طریقے سے قرض لے کراپنے مدرسین کو بروقت تنخواہیں پہنچائی اور اس افتاد میں ان کی معاونت کرکے انسانی ہمدردی کا بین ثبوت پیش کیا۔ مختصر یہ کہ کسی مستحق کی مدد کرنی ہوتو اس طرح نہ کریں کہ اس کی عزت نفس مجروح ہو، اس کی مفلسی کا تماشا بنے، اس کے احترام و وقار کا جنازہ نکلے؛بل کہ ہر انسان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے بہت شایستگی کے ساتھ اس کی مدد کی جائے نیزسرکار دوعالم نبی ﷺ کی اس وعید کوبھی یاد رکھاجائے کہ شہرت کے بھوکے سخی کو کل ریاکاری کے اس کھیل کی وجہ سے جہنم میں دھکیل دیاجائے گا اور ڈھیروں روپیے خرچ کرنے کے باوجود بھی اسے کوئی صلہ نہیں ملے گا۔ اللہ پاک ہم سب کو خلوص دل کے ساتھ اس کے کنبے پر خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروی نہیں۔ (ادارہ فکروخبر بھٹکل )
25 اپریل 2020
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں