اے فارغینِ علی پبلک اسکول

از :  مولانا سید ہاشم نظام ندوی  

    مبارک ہو تمہیں یہ سال، سال کا یہ دن،اوردن کی یہ مبارک ساعتیں،جن میں تمہارے اساتذہ تمہیں الوداعی پیغام دینے جا رہے ہیں،علی پپلک اسکول کے دسویں جماعت سے پہلے فارغ ہونے والے طلباء کی صف میں لا کھڑا کر رہے ہیں، اس لیے تمہارے یہ لمحات تاریخی ہونگے، انہی لمحات کی آغوش میں تم بھی خود تاریخ کا ایک حصہ بن جاؤگے، لہذا تمہاری کوشش یہ ہو کہ تم بھی انہی لمحات کے ساتھ تاریخ ساز بن جاؤ۔یقینا تمہارا یہ اسکول عام اسکولوں کی طرح ایک اسکول نہیں ہے، جس میں صرف تعلیم مقصود ہو، یا تعلیم برائے حصولِ روز گار ہو،بلکہ یہ تمام اسکولوں میں ایک امتیازی شان ہے، اس کی اپنی ایک پہچان ہے، اس کے مقاصد عظیم اور عزائم بلند ہیں، اس میں تربیت تعلیم سے پہلے ہے اوردین وشریعت فن و ہنر پر مقدم ہے، اس کے بانی مولانا محمد الیاس فقیہ احمدا ندوی کے بقول "تعلیم بہانہ اور ایمان نشانہ ہے۔"
    تم نے یہاں رہ کر مختلف تعلیمی اور ثقافتی پروگراموں میں حصہ لیا ہے،یہاں تمہیں برسرِ عام اپنی مافی الضمیر ادا کرنے کا ہنر سکھایاگیا ہے، تحریری اور تقریری صلاحیتوں کو اجاگر کرانے کے لیے جن طلباء نے اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہوگا یا اس میں شریک ہو کر اس سے فائدہ اٹھایا ہوگاوہ تا دمِ حیات احساسِ کمتری میں مبتلا نہیں ہو سکتے۔وہ جہاں جائیں گے متاثر ہونے کے بجائے مؤثر بن کر رہیں گے۔
    اب تم حصولِ علم کی ایک منزل پر قدم رکھ چکے ہو، ان شاء اللہ آگے کسی خاص موضوع میں اختصاص پیدا کرنے کے لیے قدم بڑھا ؤ گے۔ مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے بقول، طالبِ علم کے لیے دو چیزیں لازمی ہیں، ایک اللہ کے ساتھ اخلاص اور دوسرا فن کے ساتھ اختصاص، جو دو چیزیں اسے حقیقی منزل سے ہمکنار کرائیں گی۔ اس لیے آنے والے ایام کی قدر کرو، اپنے مقام اور مرتبہ کو پہچانو، اس وقت جتنی محنت و جانفشانی سے کام کروگے اتنا ہی فائدہ اٹھاؤ گے، لہذا حصولِ علم میں غواصی کرتے چلو،بلند ہمتی کے پر لگا کر اونچی اڑان اڑو، ہواؤوں کے دوش پر کیا اس بھی بلند پروازکرو، اڑواور اڑتے ہی چلے جاؤکہ شمس وقمر سے بھی آگے نکل جاؤ، پھر دنیائے علم میں تمہارا بھی نام چمکے گا، بلکہ زمانہ تمہارے نام کی رٹ لگائے گا، مستقبل میں تمہارے ناموں کی مثال پیش کرے گا۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے           ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہے

     افراد اور اقوام کی زندگی میں تربیت اور تعلیم کو ایک بنیادی اہمیت حاصل ہے، افراد کی ساری زندگی کی عمارت انہی دو بنیادوں پر تعمیر ہوتی ہے، ایک تربیت اور دوسری تعلیم، اورقومیں اپنے تعلیمی فلسفہ کے ذریعہ ہی سے اپنے نصب العین، مقاصد ِ حیات، تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کا اظہار کرتی ہیں،اگر انسان کی صحیح تربیت کی جائے، مناسب تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاق حسنہ کے زیور سے اسے آراستہ کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ گلدستہ کائنات کا ایک حسین پھول بن جاتا ہے اور ایک مشفق باپ یا ماں،فرمانبردار اولاد،باوفا شوہر یا بیوی، مخلص دوست‘ محب وطن اور اچھے انسان کا بہترین نمونہ بن جاتا ہے لیکن اگر بد قسمتی سے انسان اچھی تعلیم و تربیت سے محروم ہو جائے تو جہالت کے گہرے سائے اس کے دل و دماغ کو ڈھانپ لیتے ہیں پھر وہ ایک پیکر وحشت،نمونہ ظلمت اور مجسمہ عبرت بن کر رہ جاتا ہے۔
    تعلیم کا بنیادی اور حقیقی مقصد انسانی سیرت و کردار کی تعمیر ہے جس سے انسان کے اندر تسخیر ِ حیات کی صلاحیت کو تقویت دیناہوتاہے اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالی کی ذات، کائنات، اور انسان کو ایک کلی نظام کی حیثیت سے دیکھنا ہے۔لہذا صرف روحانی اور مادی تعلیم کی تقسیم بے معنی ہے، دنیوی اور دینی کہہ کر الگ الگ کرنا درست نہیں ہے اورروح و مادہ کو ایک دوسرے سے جدا کرنا غلط ہے۔تعلیم کا فرض ہے کہ تن اور من دونوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھا جائے،جسمانی اور روحانی تقاضوں کو یکساں اہمیت دی جائے اور اسے ایسے سانچے میں ڈھالا جائے جس سے انسان خود کو مفیدسے مفید تر بناتے ہوئے ایک اچھا شہری بن کر صالح معاشرے کو وجود میں لانے میں مدد کر سکے۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا         لیا جائے گا تجھ سے کا م دنیا کی امامت کا

«
»

امن و اتحاد ہی سے ہندوتو کا بیڑا غرق ہوسکتا ہے

شاہین باغ کا پرچم ابھی جھکنا نہیں چاہیے…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے