فارغین ندوہ 98 گروپ اورارشد اعظمیؒ کاکردار!!

 

 

 

(دوران پروازبنارس سے بمبی جاتے ہوئے سکوت قلب کیوجہ سے اچانک انتقال)

 

 

 ڈاکٹر آصف لئیق ندوی

عربی لیکچرار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد

 

آج مورخہ 10/جنوری 2023 ۔فارغین ندوہ گروپ پر جو خبر بجلی بن کر گری،جس نے گروپ پر ایک ہلچل مچا دی، اح باب ورفقاء جس سے بڑے بے چین ہوگئے، وہ بالکل توقع کے خلاف خبر تھی ،جس سے کتنی آنکھیں اشکبار ہوگئیں!! کتنے دل مغموم ہوگئے!! رنج وغم کا سماں قائم ہوگیا! افسوس کی فضا قائم ہوگئی! تأثرات کا سلسلہ جاری ہوگیا! جسکا احباب ورفقاء نے تصور بھی نہیں کیا تھا، جو ہمارے وھم و گمان اور حاشیۂ خیال میں بھی نہیں تھا، اچانک وہ اندوہناک حادثہ ہمارے ساتھ پیش آگیا، گروپ پر جو زیادہ بےباک، بے خوف اور نڈر سمجھا جاتا تھا، انکی باتوں کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھااور انکو لائق اعتنا اور انکے مشوروں کو قیمتی سمجھا جاتا تھا، وہی فعال ندوی داغ مفارقت دے گیا،جو جود وسخا کا پیکر اور خیر وخوبی کا علمبردار اورانسانیت کا بہی خواہ تھا،وہی نشیط اور جوانمرد چل بسا، جوبھاری بھرکم جسم اور طاقتورقدوقامت کا تھا ،وہی بہادر ساتھ چھوڑ گیا، جو ہنستا کھیلتا مکھڑا اور خوبروصورت وسیرت کا  تھا،وہی رفیق درس جدا ہوگیا، جسکی صحت وتندرستی پر کسی قدر بھروسہ تھا، وہی ہمارے درمیان سے چلا گیا۔۔۔آنکھوں کا تارا! دل کا دلارا! وہ ارشد ہمارا۔۔۔آج اک سکوت قلب سے قیامت ہی ڈھا گیا۔

اب جس پر کوئی انا للہ وانا الیہ راجعون  پڑھ رہا ہے تو کوئی اللہ سے غریق رحمت و مغفرت ہونے کی دعائیں کررہا ہے، ہمارے لئے یہ ایک جانکاہ حادثہ سے کچھ کم نہیں ہے! یہی وجہ ہے کہ جس کی تاب نہ لاکر بعض احباب بلکتے، روتے اوراچانک انکی جدائی پر تڑپتے نظر آرہے ہیں، جو کوئی بھی اس خبر کو سن رہا ہے، ہرشخص اس حادثہ پر اپنے درد والم کی داستان سنا رہا ہے، کوئی اپنی مصیبت کا اظہار کررہا ہے تو کوئی اس تکلیف پر ماتم کناں بنا ہوا ہے، اپنے دوست اور رفیق کی موت پرصدمے اور افسوس کا اظہار فطری ہے،اسی لئے  کوئی اپنے اپنے قیمتی تأثرات کو قلمبند کررہا ہے، توکوئی انکے محاسن کو اجاگر کررہا ہے ، کوئی مضمون لکھ کر اپنے پوشیدہ غم کو زمانے سے بیاں کررہا ہے، تو کوئی تدفین وتجہیز میں شرکت کی تیاری کررہاہے، حیرت ہے کہ ہمارے درمیان سے متنوع صفات کا حامل ہمدم، ایک زندہ دل انسان اور ایک متحرک و فعال کارکن چلا گیا، جو گوناگوں اوصاف وکمالات کا جامع وپیکر تھا، اسی بات کی ایک ادنی کوشش اس حقیر فقیر رنجور راقم نے بھی کی ہے- تقبل اللہ منا ومنکم صالح الاعمال۔ہم بھی اپنے مرحوم ومغفور دوست کیلئے خراج عقیدت پیش کرنے کی سعی کررہے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ قبول فرمائے۔

یادش بخیر جب وہ تصور میں آ گیا ..شعر و شباب و حسن کا دریا بہا گیا

جب عشق اپنے مرکز اصلی پہ آ گیا …خود بن گیا حسین۔ دو عالم پہ چھا گیا

جو دل کا راز تھا اسے کچھ دل ہی پا گیا …وہ کر سکے بیاں، نہ ہمیں سے کہا گیا

ناصح فسانہ اپنا ہنسی میں اڑا گیا …خوش فکر تھا کہ صاف یہ پہلو بچا گیا

اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل …ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا

دل بن گیا نگاہ نگہ بن گئی زباں …آج اک سکوت شوق قیامت ہی ڈھا گیا

میرا کمال شعر بس اتنا ہے اے جگرؔ …وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا

گروپ کو ارشد اعظمی ندوی رحمہ اللہ کے سانحۂ ارتحال کی خبر سب سے پہلے سکریٹریٔ گروپ جناب مولانا نجیب الحسن صدیقی ندوی نے دی، جوامیدکے خلاف خبر تھی اور وہ ایک سنجیدہ اور ذمہ دار ساتھی بھی ہیں،پھر بھی فوراً دل میں یقین کی کیفیت پیدا نہیں ہوئی، جب اس کی کچھ تفصیل بانیٔ گروپ جناب ڈاکٹر وقار الدین لطیفی ندوی نے بتائی، جو مرحوم دوست کی داستان جدائی بیان کر رہی تھی، جسے تسلیم کرلینے کے سوا کوئی  چارہ  نہیں تھا!! پھر کیا تھا؟! گہرے رنج و الم کا اظہار، زخموں سے چور، غموں سے رنجور  تعزیتی کلمات وتاثرات کا تانتا بندھ گیا، جس کا سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے ۔بہت افسوس کیساتھ  کہ۔۔آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں۔۔۔سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں۔۔آجائیں رعب غیر میں ہم وہ بشر نہیں۔۔کچھ آپ کی طرح ہمیں لوگوں کا ڈر نہیں۔۔اک تو شب فراق کے صدمے ہیں جاں گداز۔۔اندھیر اس پہ یہ کہ ہوتی سحر نہیں۔۔

بالآخر اس صدمے نے راقم الحروف پر بھی گہرا اثر مرتب کیا ، دل کی دنیا میں ایک سکوت سا چھاگیا،فانی دنیا سے دل اجڑنے لگا ،جسم پر کپکپی طاری ہو گئی، طبیعت بوجھل ہوگئی ،دعائیں پڑھتے ہوئے آنکھیں نمناک ہو گئیں، آنسوؤں کو کپڑوں سے چھپانا چاہا مگر بیگم نے کیفیت دیکھ لی، خیریت دریافت کی، رونے کا سبب بتاناہی پڑا، وہ بھی شریک رنج والم ہو گئیں، ڈیوٹی کا عین وقت تھا، تیاری مکمل ہو چکی تھی، مگرقدم اٹھانا  آسان نظر نہیں آیا، حیران و ششدر بن کرکافی دیر  گھر سے باہر قدم نہیں نکا ل سکا۔موت سے کسکو رستگاری ہے۔آج وہ!!! کل ہماری باری ہے!!

کون جانتا تھا کہ ارشد اعظمی صاحب کی بنارس سے بمبی کی پرواز آخری پروازثابت ہوگی، جہاں وہ کافی دنوں سے مقیم تھے، وہیں انکا بزنس تھا، اعظم گڑھ سے وہ بمبی واپس جارہے تھے اور اکثر وہ فلائٹ سے ہی آیا جایا کرتے تھے، اتفاق سے اس دن فلائٹ شام کی تھی اور وہ چار گھنٹے لیٹ ہوگئی، سردی سے بچاؤ کا ان کے پاس کوئی  معقول بندوبست نہیں تھا، انتظار کے وقت سردی کا اثر ہوا، پہلے سے بھی وہ شوگر اور بلڈ پریشرکے مریض تھے، دوران پرواز مرحوم ارشد اعظمی ندوی پرقلب اوردماغ پر دورےکا اثر پڑا، بمبی پہونچکر ہسپتال لے جایا گیا مگرکوئی تدبیر کارگرنہیں آئی بالآخر ۸ جنوری کی صبح تین بجے  ان کی زندگی کا آخری لمحہ اور وقت ثابت ہوا، جس کوسن کر کلیجہ پھٹ گیا، ایسا لگا کہ کسی نے جگر پر پتھر پھینک کر مار دیا ہو!!یہی کہہ کر اپنے اور بے قرار دلوں کو اطمینان دلا سکتا ہوں کہ تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا۔۔۔ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں۔

اللہ بردار مرحوم ارشد اعظمی کو غریق  فضل ورحمت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب کرے۔۔۔آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔۔۔سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے۔

انتہائی رنج وغم کے عالم میں لمحہ لمحہ جب رفیق درس ارشد اعظمی ندوی کی یادوں نے ستانا شروع کردیا، جن کی خوش مزاجی نے راقم کو انکا گرویدہ اور خوش بیانی نے انکامسحور بنا رکھا  تھا، جن کی فکر و نظر اور بلند نگاہی سے فارغین ندوہ 98گروپ پہلے سے روشناس تھا، ہماری ان سے مکمل شناسائی اسی گروپ کے ذریعے ہوئی تھی۔ انکے انتقال کی خبر سنتے ہی ایسا محسوس ہوا کہ ہم نے اپنا کوئی رشتہ داریا سگابھائی کھو دیا ہے، جن کو احباب انکی دوربینی اور بلندنگاہی کیوجہ سے علامہ علامہ کہہ کر پکارتے تھے، وہ بڑے ہنس مکھ تھے ،ان کی کسی بات کا احباب برا نہیں مانتے تھے، بلکہ ان کی فکروں سے مستفید ہوتے تھے، ان کی تحریروں کو جی لگا کر پڑھتے تھے، ان کے مشوروں کابہت احترام کرتے تھے، ان کی باتوں سےہم لوگوں کو بڑی  ہمت وقوت پیدا ہوتی تھی، وہ کم لکھتے تھے مگر لکھتے لکھتے لکھاڑ بن گئے تھے ، انکی موجودگی گروپ میں باعث رونق و زینت تھی،مگر مالک کو کچھ اور ہی منظور تھا، اللہ ان کی تمام خوبیوں کو قبول فرمائے اورانکو اس کا نعم البدل عطا کرے۔

فارغین ندوہ گروپ کا ہم لوگوں پر یہ بڑا احسان ہے کہ مدتوں بعد جس نے ہمیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا، لمبی جدائیگی کے بعدپھرآپس میں جوڑا، اللہ عزوجل جوڑنے والے کو سدا خوش و خرم رکھے اور ان کی عمریں دراز فرمائے،اس کے نتیجے میں ہم ایک دوسرے سے پھر ویسے ہی شیروشکر ہوگئے جیسے ہم دوران درس و تدریس تھے، بلکہ اسکی نوعیت و افادیت اوردو چند ہو گئی، جس کا اندازہ  ہر صاحب علم و فکر ساتھی کوبخوبی ہوگا ۔

 بیس سال کے طویل عرصے بعد بچھڑے ساتھیوں کو آپس میں ملایا گیا ،ایسا محسوس ہونے لگا کہ ہم اپنے گھر لوٹ آئے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے ایک روم اور کلاس میں لمبے فراق و جدائی کے بعد جمع ہوئے ہیں ،جہاں ہم خوش گپیاں بھی کرتے ہیں اور کام کی باتیں بھی کرتے ہیں دوسروں کے دکھ درد میں شریک بھی ہوتے ہیں اور اپنے احوال وکوائف سے بھی واقف بھی کراتے ہیں، جہاں ہم طنزومزاح کی مجلسیں بھی سجاتے ہیں اور ہنسی ومذاق کے ماحول سے اپنے تھکان و پر یشانی کو ختم بھی کرتے ہیں، وہیں شعر و ادب کی محفلوں سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کا خیال بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔

               اس گروپ کی یہ بھی کرم فرمائی ہے کہ اس میں رہ کر ایسا محسوس کرتے ہیں کہ گویا ہم اپنے رشتہ داروں اور خاندانوں کے درمیان ہیں، جہاں سے ہمیں نفس کی اضمحلالی دور ہوتی ہے، طبیعت کو تروتازگی ملتی ہے  اور فرحت و انبساط کی کیفیت  حاصل ہوتی ہے، مکدر ذہن کی صفائی ہوتی ہے، یہی وہ اسٹیج ہے  جہاں سے ہمیں آسانی سے مسئلے مسائل کا حل بھی ملتا ہے، حالات وواقعات سے واقفیت بھی ہوتی ہے اورقوم و ملک کے حق میں مثبت بات چیت ہوتی ہے، اسی طرح سیادت وقیادت کے ٹوپک پر ڈبیٹ بھی ہوتا ہے۔جہاں عقیدت و محبت کا ماحول قائم ہوتا ہے، یکجہتی اور یگانگت کی گفتگو ہوتی ہے اورالفت ومحبت کی فضا قائم ہوتی ہے، نفرت و عداوت کے ماحول کو الفت و محبت کے ماحول سے بدلنے کی مختلف آراء آتی ہیں، کوئی اس پر مقالہ لکھتا ہے تو کوئی اپنے کمنٹس سے اس کی تائید و تردید کرتا ہے، کوئی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو کوئی مقالہ اور مضمون نگار  کا حوصلہ بڑھاتا ہے،کوئی اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتا ہے تو کوئی اپنی بیدارمغزی سے جذبات کی رو میں بہہ جانے سے روکتا ہے اور نفس پر کنٹرول رکھنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور معتدلانہ مزاج پیدا کرنے کی رہنمائی کی جاتی ہے، تخلیقی ذہن پید ا کیا جاتا ہے اور تخریبی ذہن سے بالاتر ہو کر تعمیری ذہن اور کردار سے لیس ہونے کی بھرپور ترجمانی ہوتی ہے، کبھی اس پلیٹ فارم سے احباب و رفقاء کو متعدد رہنمائی  کی جاتی  ہے تو کبھی اس گروپ کے جھنڈے تلے عظیم الشان اجلاس کی پلاننگ ہوتی ہے، کبھی دوروزہ اجلاس کے ذریعے احباب کوایندھن فراہم کیاجاتا ہے، اور اسی اسٹیج سے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہےاور حالات سے مقابلے اور چیلنجز سے نمٹنے کا  ایجنڈا تشکیل پاتا ہے۔

غرض کے یہ ایک ایسا سماجی،اصلاحی، ایمانی ،تعلیمی، اخلاقی، روحانی اور انسانی  خیرخواہی کا اسٹیشن بن گیا ہے جہاں سے احباب ورفقا اپنے مادر علمی اور اساتذہ ٔ کرام سے بھی جڑ گئے ہیں ادارے کی امداد اور ضرورت مند احباب و رفقاء کی ضرورت پر بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے ہیں اور اپنا قیمتی تعاون پیش کرکے اپنی اخلاقی ذمہ داری کا بھرپور ثبوت پیش کیا جاتا ہے، اساتذہ ٔکرام اور احباب کے بچھڑنے پر تاثرات پیش کر کے بہترین خراج عقیدت بھی پیش کیا جاتا ہے، کوئی اپنے اشعار سے ان کی ترجمانی کرتے ہیں تو کوئی مضمون سے عقیدت و محبت کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔

اپنے احباب و رفقاء کی کیا کیا خوبیاں بیان کیا جائے! آج جب کہ سب پر رنج وغم کا ماحول طاری ہے ،کوئی بلکتا اور روتا ہوا نظر آرہا ہے تو  کسی پر بجلی ٹوٹ پڑی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو!! کیونکہ ہمارا خوش مزاج ساتھی جو انہی خوبیوں کا حامل اور انہی صفات کا  جامع وپیکر  تھا! آج ہم سے وہ مرد باوفا، فعال نوجوان ،فارغ ندوہ اور عالیہ عرفانیہ کا بہترین پروڈکٹ  اور ہمارا  رفیق درس  وتدریس ہمیشہ کیلئے الوداع کہہ  گیا۔اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔قارئین کرام سے بھی خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے۔

مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔

«
»

اسمارٹ فون نسل نو کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں

رحمت عالمؐ کی مثالی دوستی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے