فلسفۂ قربانی بھی کیا عجیب و غریب ہے !

از قلم۔ محمد اشفاق عالم نوری فیضی 

اسلامی سال کے آخری مہینہ میں جگر گوشہ خلیل حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے آپ کو راہ حق میں قربان ہونے کے لئے پیش کر دیا ۔اور محرم الحرام میں جگرگوشہ خاتون جنت حضرت امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا تن من دھن اور اپنے چھ ماہ کے نور نظر حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ سمیت بہتر تن قربان کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو زندہ  کردیا ۔ گویا اس مقدس سال کی  ابتداء بھی قربانی پر اور انتہا بھی قربانی پر ہے بلکہ یوں کہیے کہ اس بے مثل خالق تبارک وتعالیٰ کے بے مثل محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بے مثال امت کی تاریخ بھی کیسی بے مثل ہے جسکی ابتدا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی سے ہوئی ۔اور انتہا حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت پر ہوئی۔گویا اس تاریخ مقدس کی حیات تمام تواریخ عالم سے ممتاز و مایہ ناز اور بے نظیر ہے۔ ترجمان حقیقت علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے ملت اسلامیہ کی تاریخ کا  پس منظر اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان فرمایاہے ۔

 غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم 

نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل۔

 

ذی الحجہ کی فضیلت :-

عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت میں بہت کچھ روایت کیا گیا ہے ان میں سے چند باتیں مزید آپ کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں اس امید پر کہ یہ لوگوں کے لئے نفع کا باعث ہو گی اور اللہ تعالی مجھے بھی اجر عطاء فرمائے گا۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے۔  انہوں نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی دن بھی ایسا نہیں جس میں اللہ تعالی دوزخیوں کو دوزخ سے نجات دے کہ ان کی تعداد ان سے زیادہ ہو جن کو یوم عرفہ  دوذخ سے نجات دی  جاتی ہے(زبدت الواعظین)

 

حضرت اسماعیل علیہ السلام غیر ذی زر ع میں:-

ایک روز حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام دونوں اکٹھے کھیل رہے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیار سے اسماعیل علیہ السلام کو گود میں لے لیا اور حضرت اسحاق علیہ السلام کو پہلو میں بٹھا لیا ۔ اس منظر نے  حضرت سارہ کو  غضبناک کردیا ۔ آپ کا جذبہ رقابت بھڑک اٹھا ۔ غصے سے بولیں۔ اب اس  گھر میں ماں بیٹے کے لیے کوئی جگہ نہیں آپ ان دونوں کو فورا کسی اور جگہ چھوڑ آئیں۔ میں انہیں مزید برداشت نہیں کر سکتی۔

  حضرت ابراہیم علیہ السلام جانتے تھے حضرت سارہ دل کے ہاتھوں مجبور ہیں پھر اللہ تعالی کی طرف سے بھی یہی حکم ہوا کہ جبرائیل کی معیت میں ماں بیٹے کو وادی غیر ذی زر ع چھوڑکر آؤ جہاں ہمارا گھر ہے ۔ چنانچہ آپ نے دونوں کو لیا اور تعمیل حکم کے لیے بیت اللہ شریف کی طرف روانہ ہوگئے۔  جو اس وقت ایک ٹیلے کی شکل میں تھا گردوپیش پہاڑیاں تھیں اور قریب ہی ایک بہت بڑا درخت اگا ہوا تھا ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام جب انہیں وہاں چھوڑ کر واپس چل پڑے تھوڑا ہی دور گئے تھے کہ پیچھے سے حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آواز دی اور عرض کیا اے میرے سرتاج ! " اَیۡنَ تَذۡ هَبُ وَتتۡرُ كُنَا بِهٰذَالوَادِیُ الَّذِی لَیۡسَ فِیۡ اِنۡسٌ وَلَا َۡشَیۡء ٌـ " کہ اے ابراہیم علیہ السلام آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں ۔ ہمیں اس وادی میں یک و تنہا چھوڑ کر جس میں نہ کوئی انسان ہے اور نہ ہی کوئی اور چیز  ۔

آپنے یہ کلمات کئی بار دہرائے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مڑ کر نہ دیکھا اور آپ کی طرف متوجہ ہوئے بغیر آخری بار صرف اتنا کہا کہ میں تمہیں اللہ کے سپرد کر کے جا رہا ہوں تو حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بے ساختہ کہا  " فَلَنۡ يَضيۡعَنَا اللّٰهُ  " کہ وہ ہمیں ہرگز ضائع نہیں ہونے دےگا ۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تو ایک بلند مقام پر کھڑے ہو کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس طرح ملتجی ہوئے۔

 " اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد کو تیرے محترم  گھر کے نزدیک اس بنجر وادی میں رہائش پذیر کیا ہے۔اے ہمارے پروردگار ! چاہیے کہ وہ نماز قائم کریں

«
»

عید کے دن نماز جمعہ کا حکم احادیث کی روشنی میں

اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے