مودی سرکا ر نے ’گرین پیس‘ ادارہ کے کارکنا ن کو بیرونی ممالک جانے سے روک دیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟کیونکہ ان کے جانب سے ہندوستان کی بدنامی ہونے کے امکانات تھے۔اس کے بعد فورڈ فاؤنڈیشن کے جانب سے ملنے والی امدادپر پابندی لگانے کا فیصلہ۔ فورڈ فاؤنڈیشن کے جانب سے ہندوستان کے متفرق غیر سرکاری فلاحی اداروں کو ملنے والی مالی امداد کو روکنے کا فیصلہ مودی سرکار نے کیا ہے۔فورڈ فاؤنڈیشن ادارہ ہندوستان کے آئین کو ہونے والے سال کے مساوی پرانا ادارہ ہے۔ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے دور اقتدار میں ہندوستان کی ترقیاتی اور فلاحی کاموں کا انجام دینے کیلئے اس ادارہ نے ایک اہم رول ادا کیا تھا۔پنڈت جواہر لال نہرو ہمیشہ اس ادارہ کے مشکور تھے۔
سال 2002میں اس ادارہ کے گولڈن جوبلی کے موقع پر جب اس ادارہ کی رپورٹ شائع ہوئی تھی،اس رپورٹ میں ہندوستان کو اس ادارہ نے ماضی میں کیسی کیسی اور کن کن مرحلوں میں امداد کی تھی اس کی تفصیلات شائع ہوئی تھی۔اس میں سب سے اہم کا کام جو ادارہ نے کیا وہ تھا جمہوریت کی تشہیر، اس کے علاوہ ماحولیات کے تعلق سے عوام میں بیداری پیدا کرنا، دلت ادیواسیوں کی امدادکرنا جیسے اہم کام انجام دینے والے اداروں کو اس امریکی ادارہ سے مکمل طور پر امداد دی جاتی ہے۔ مگر اب مودی سرکار نے ریزروبینک کو یہ احکامات جاری کیے ہیں کہ اس طرح کی امداد ہندوستانی ادارے نہیں لے سکتے ہیں۔
مودی سرکار کا یہ فیصلہ چند مخصوص اداروں کو مد نظر رکھ کر لیا گیا ہے ۔اس میں سے ایک جو ادارہ ہے وہ محترمہ سیستا سیٹلواڈکا ادارہ ’سب رنگ‘۔ مودی کو جتنا سیاسی پارٹیوں نے للکارہ نہیں ہوگا یا چیلنج نہیں کیا ہوگا ، اتنا اس ’سب رنگ‘ ادارہ نے پریشان کیا، اس کا اعتراف کرنا ہی ہوگا اور یہ بھی اعتراف کرنا ہوگا ، پھر یہ محترمہ سیستا سیٹلوا جس طرح خود کو سیکولر بتا رہی ہے اتنی سیکولر وہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود گجرات فسا د 2002میں متاثرین کو مدد کرنے میں اس محترمہ نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ، اس بات کا بھی ہمیں صدق دل سے اعتراف کرنا ہوگا۔فساد کے بعد مسلم خاندانوں کو انصاف دینے کی محترمہ سیتلواڈ کی جدوجہد مودی کیلئے درد سر بن گئی تھی۔ اگر اس کی روک تھام کے تعلق سے قوانین ہوتے تو گجرات سرکار نے انھیں جیل پہنچایا ہوتا۔گجرات سرکا رکے مطابق سیتلواڈ ضمانت کے بھی اہل نہیں ہے، مگر اس کو صرف عدالت نے بچایا۔پھر عدالت کو جس سیتلواڈ نے بچایا اس کی کمر توڑنے یا اس کو اپاہج کرنے کیلئے مودی نے اپنی فورڈ فاؤنڈیشن سے ملنے والی امداد پر ماری۔اس وقت مودی کو یہ بھی ہوش نہیں رہا کہ فورڈ فاؤنڈیشن یہ امداد دینے والا ادارہ ہے لینے والا ادارہ نہیں ہے۔فورڈ فاؤنڈیشن پر پابندی عائد کرنا یعنی اس ادارہ نے سیستا سیٹلواڈ کے ادارہ کو جو امداد کی تھی اس کا غیر قانونی طور پر استعمال ہوا ہے، یہ بات واضح ہوتی ہے۔
پھر سرکار کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے ، سرکا ر نے یہ بتا دینا چاہیے کہ سیستا سیٹلواڈ کے ادارہ نے فورڈ فاؤنڈیشن ادارہ سے حاصل کردہ فنڈ کا غلط استعمال کیسے کیا؟سرکارکے ہاتھوں میں بیشمار اختیارات ہوتے ہیں ، پھر یہ ثابت کرنا مودی سرکا ر کیلئے کوئی کٹھن بات نہیں ہے۔مودی سرکار نے فورڈ فاؤنڈیشن پر پابند عائد کرنے کے بعد امریکہ میں جو ردعمل ہوا ہے ، وہ اسی بات کی غمازی کرتا ہے کہ فورڈ فاؤنڈیشن کے فنڈ کا غلط استعمال ہوا ہے، اسلئے ہندوستان کے سرکار نے اس پر پابندی عائد کی ہے۔پھر کسی ادارہ کو ملنے والے فنڈ کا زبانی طور پر غلط استعمال ہوا ہے اس وجہ سے ہندوستان سرکار نے بیرونی امداد کا راستہ ہی بند کرنا یہ کونسا انصاف ہے؟
پھر اس طرح کے کئی امریکی اداروں نے ہندوستان کے کئی شخصیات کو اعزاز سے نوازا ہے جس میں میگسیس ایوارڈاور راک فیلر نمایاں ہیں۔بیشمار امریکی اداروں نے ہندوستانی لوگوں اور ہندوستانی فلاحی اداروں کی زندگی سنوار دی ہے۔انّا ہزارے، ارون دھتی رائے سے لیکر کرن بیدی اور کجریوال تک کئی اشخاص اور ان کی تنظیموں کو مالی مدد کی گئی ہے۔ان لوگوں سے یا ان کے اداروں سے سیاسی اختلافات ہوسکتے ہیں مگر امریکی اداروں کے امداد کی وجہ سے ہندوستان میں مثبت تبدیلیاں آئیں ہیں اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔پھر یکایک ان تمام لوگوں کو اور اداروں کو ملنے والی امداد کو فوری طور پر بند کرکے مودی سرکار خود کے تعلق سے عوام کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے۔اس کے علاوہ ہندوستان کی روزگار کمیشن،سینٹر فور پالیسی ریسرچ، احمد آباد کا نیشنل اینسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن سے لیکر فیملی پلاننگ تک ، پھر متعدی امراض کی روک تھام کرنے والے اداروں کو فورڈ فاؤنڈیشن سے فنڈ مہیا کیا جاتا ہے۔یہ تمام فلاحی کام کرنے والے ادارے غلط تھے ایسا مودی سرکار کو محسوس ہورہا ہے کیا؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو مودی سرکا ر نے ان اداروں کی جانچ کرکے اس کی تفصیلات عوام تک پہنچانی چاہیے کہ ان اداروں نے کس طرح فنڈ کا غلط استعمال کیا ہے۔اپنے پاس اختیارات ہیں اسلئے ان کا جی چاہیے ویسا استعمال کرنا مودی سرکار کو زیب نہیں دیتا۔خیر بیرونی ممالک سے امداد لینا مودی سرکار کو منظور نہیں ایسا بھی کہا نہیں جاسکتا، اس کی وجہ بیشمار ہندو ادارے ایسے ہیں جو مودی کے پارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں۔بی جے پی کیلئے بھی بڑے پیمانے پر بیرونی ممالک سے فنڈ آتا ہے ، کیا مودی سرکار ایسے اداروں پر بھی پابندی عائد کرنے کیلئے تیار ہے؟
کسی سرکار کی عظمت اور دانشمندی کا اندازہ اس سرکار نے اپنے اختیارات کا استعمال کس طرح کیا ہے، یہ دیکھ کر نہیں لگایا جاسکتا ہے بلکہ اس سرکار کا عوام کے ساتھ حسن سلوک اور معاف یا درگزر کرنے کا جذبہ دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔مودی سرکار کی پارٹی اس کسوٹی پر کبھی کھری نہیں اُتری ہے۔جن اداروں کو بیرونی ممالک کی امداد ملتی ہے اس میں بیشتر پارٹیاں مودی سرکار کو چیلنج کرنے والی پارٹیاں ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر اس طرح کا چیلنج کرنے کی صلاحیت اس انتظامیہ میں ہے اسی وجہ سے نریندرمودی بھی اقتدار کو قابض کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔اگر اس چیلنج کی طاقت یا صلاحیت ہی اگر مفلوج ہوجائے تو کیااس انتطامیہ کو جمہوری انتظامیہ کہا جاسکتا ؟ اور تاریخ یہی سیکھاتی ہے کہ سیاسی چیلنج کا جواب سیاسی راہ اختیار کرکے ہی دیا جانا چاہیے،مگر جو ایسا نہیں کرتے انھیں اس طرح کی مسلسل جاری رہنے والی لڑائی میں شکست کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔مودی اور ان کے مشیرحضرات کااس صداقت کو نظر انداز کرنا کافی خسارہ کا باعث ہوسکتا ہے۔
اگر امریکہ کے فورڈ فاؤنڈیشن سے مودی سرکار نے امداد لینے کی جاری کردہ پابندی پر نظر ثانی نہیں کی تو وہ دن دُور نہیں جب امریکہ ہندوستان کو بھی سوڈان اور پاکستان جیسے ممالک کی صف میں کھڑا کردے گا۔ ہم کس صف میں کھڑے ہیں کم از کم اس کا اندازہ تو مودی سرکار کو ہونا چاہیے۔
جواب دیں