فخرالحکماء حکیم سید ضیاء الحسن کی فنِ طب کیلئے خدمات

حکیم ضیاء الحسن خاندانی طبیب تھے، ان کے بزرگوں میں حکیم سید علوی خاں کا نام نہایت احترام سے لیاجاتا ہے، جو مغلیہ حکومت اورنگ زیب کے عہد میں ہندوستان آکر بہادر شاہ اول کے طبیب خاص بنے اور معتمد الملک کے خطاب سے نوازے گئے، حکیم ضیاء الحسن کے والد حکیم نورالحسن کا نام آج بھی پرانی نسل کے لوگ کافی عقیدت کے ساتھ لیتے ہیں، خدمت خلق ان کے مزاج کی ایک نمایاں صفت تھی، اپنی آمدنی کا بڑا حصہ وہ رفاہِ عام کے کاموں میں صرف کیا کرتے تھے، طب کے پیشہ سے ان کے شغف کا یہ حال تھا کہ بیشتر اولادوں کے انتقال کی خبریں، انہیں اپنے مطب میں ملیں اور وہ مریضوں کے ہجوم میں گھرے رہے، فن کی ترویج واشاعت میں والی بھوپال نواب سلطان جہاں بیگم کی خواہش پر آصفیہ طبیہ کالج بھوپال میں قائم کرنے میں انہوں نے جو حصہ لیا وہ بھی ناقابل فراموش ہے۔ 
ایسے نامور باپ کے بیٹے حکیم سید ضیاء الحسن ۱۸۹۴ء میں پیدا ہوئے، ابتدائی درسیات کے بعد طب یونانی کی اعلیٰ تعلیم وتربیت کیلئے وہ حکیم اجمل خاں کی خدمت میں دہلی حاضر ہوئے اور پانچ سال تک ان کے ہمراہ قیام کرکے اور مطب میں ساتھ بیٹھ کر اس فن میں کمال حاصل کرتے رہے، جب بھوپال واپسی ہوئی تو اس وقت نواب سلطان جہاں بیگم کا عہد تھا، ایک مرتبہ بیگم صاحبہ کے سر میں شدید درد ہوا اور کسی طرح افاقہ نہ ہونے سے حکیم اجمل خاں کو بلایاگیا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر آنے سے معذرت کرلی کہ ضیاء الحسن بھوپال میں موجود ہیں بیگم صاحبہ ان سے علاج کرائیں، کم عمری کی وجہ سے بیگم صاحبہ کو ضیاء الحسن صاحب کے علاج پر بھروسہ نہیں تھا، پھر بھی مشیروں کی ترغیب پر وہ راضی ہوگئیں، حکیم صاحب نے ان کا حال دریافت کرکے درد سر کے علاج کے لئے دواء کے بجائے پیاز کاٹنے اور پیسنے کا نسخہ تجویز کیا اور یہ بھی ہدایت کی کہ جب ناک خوب بہنے لگے تو اسے رومال سے پوچھ کر محفوظ کرلیا جائے، بادلِ ناخواستہ بیگم صاحبہ نے اس پر عمل کیا اور حیرت انگیز طور پر ان کو سکون ہوگیا، دوسرے دن حکیم صاحب نے حاضر ہوکر حال دریافت کیا اور رومال منگواکر دیکھا تو اس میں خون کا ایک گہرا دھبہ سا نظر آیا، سرکار بیگم صاحبہ نے وضاحت چاہی تو بتایا کہ آپ کا درد سر ذہنی تناؤ سے بلیڈپریشر بڑھنے کے نتیجہ میں دماغ کے کسی حصہ میں خون جمع ہونے کی وجہ سے تھا، جس کا پیاز کاٹنے اور ناک بہنے سے اخراج ہوگیا ہے۔ ایک مرتبہ حکیم ضیاء الحسن نے مریض کا غیر معمولی پھولا ہوا پیٹ دیکھ کر اس کو جو دواء دی، اس میں پارہ(زہر کی ایک قسم) بھی شامل تھا، اس دواء سے مریض کی آنتوں میں پڑے بل کھل گئے اور پارہ نقصان پہونچائے بغیر جوں کا توں اجابت کے ذریعہ باہر آنے سے بند ریاح بھی خارج ہوگئے اور مریض کو آرام مل گیا۔ حکیم ضیاء الحسن صاحب ہارٹ اٹیک کے ایک مریض کو دیکھنے کیلئے سیہور گئے، بیہوش مریض کی نبض دیکھ کر کوئی دوا اس کے تالو پر رکھی، جس سے اسے پسینہ آیا اور وہ ہوش میں آگیا، سیہور میں ہی کسی دوسرے موقع پر حکیم صاحب نے ایک لڑکی کی کفن پوش نعش دیکھ کر لڑکی کا منہ کھلوایا اور اس کے حلق میں کوئی سیال دواء ڈال دی، تھوڑی دیر بعد لڑکی کے بدن میں حرکت ہوئی اور اس نے آنکھیں کھول دیں تو حکیم صاحب نے بتایا کہ اس کو سکتہ ہوگیا تھا اور کہا کہ اسی طرح کافی مریضوں کو لوگ مردہ تصور کرکے زندہ دفن کردیتے ہیں۔
ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی اہلیہ ملکہ ثریا کے بطن سے اولاد نرینہ کی پیدائش کے خواہشمند شاہ ایران حکیم صاحب سے علاج کرانا چاہتے تھے ، اس سلسلہ کی کارروائی جاری تھی کہ حکیم صاحب کا وقتِ موعود آگیا اور ۲۱؍فروری ۱۹۵۸ء کو انہوں نے داعئ اجل کو لبیک کہا، اس طرح مذکورہ علاج کی کامیابی سے ان کو جو بے نظیر شہرت ملتی اس سے وہ محروم رہ گئے۔
علاج ومعالجہ میں حکیم ضیاء الحسن صاحب کی صلاحیت کے ان گوناگوں واقعات سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ وہ کس پایہ کے معالج، صاحبِ نظر طبیب اور حازق حکیم تھے، بقول حکیم ظل الرحمن صاحب بھوپال میں نصف صدی تک ان کے مطب کا ڈنکا بجتا رہا، ایک مدت تک افسر الاطباء کے عہدہ پر فائز رہے، ریاست کی طرف سے ’’امام طب‘‘ اور فخر الحکماء‘‘ کے خطاب عطا ہوئے، وہ بڑے وقار اور دبدبہ کے آدمی تھے، ہر شخص کی ان تک پہونچ آسان نہیں تھی، امراؤ رؤسا اور والیانِ ریاست کے معالج خاص تھے، ڈاکٹر رحمن ریاست بھوپال کے چیف میڈیکل سپرنٹینڈینٹ سے فنی اور معاصرانہ چشمک رہتی تھی، متعدد ایسے واقعات ہیں کہ خود نواب حمیداللہ خاں کے علاج میں دونوں کی رائے الگ الگ ہوتی مگر نواب صاحب حکیم ضیاء الحسن کی تشخیص سے اتفاق کرتے اور وہ درست نکلتی، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ ایک مرتبہ نسخہ لکھنے کے بعد کبھی تبدیل نہیں کرتے تھے، یہ فن پر بڑے اعتماد کی بات تھی، مدرسہ طبیہ کا قیام تو ان کے والد کا کارنامہ تھا لیکن اس کو کالج کے مرتبہ تک پہونچانے کا سہرا حکیم ضیاء الحسن کے سر بندھتاہے۔حکیم صاحب کی نبّاضی اور اعلیٰ فنی صلاحیتوں کی شہرت ملک کے چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی ، کئی ایسے مریضوں کا علاج بھی انہوں نے کیا جن کو یوروپ وامریکہ میں آرام نہیں ملاتھا، اسی شہرت ومقبولیت اور فن پر قدرت کے باعث ملک کی اہم طبی کانفرنسوں کی صدارت انہیں پیش کی جاتی اور وہ جو صدارتی خطبات پڑھتے ان میں طب یونانی کی عظمت کو ہی نہیں اس کے درخشاں مستقبل کے امکانات کو بھی واضح کرکے مشعلِ راہ بنانے کی تلقین فرماتے تھے۔ (فکروخبر مضمون)

«
»

صلیب اورمذہب مسیحیت

سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام قرآن میں اور ان کی قربانیاں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے