اگرجرم نہیں تو کیوں بارہاایسا ہوتا ہے کہ محض شک کے بنیادپرپس زنداں کردیاجاتا ہے ؟اگرایسا ہی ہے تو پھرخفیہ محکمہ اوراس سے وابستہ افراد کی کارکردگی کس حدتک درست راہ کی تعیین کنندہ ہے ؟محض شک کی بنیادپرسلاخوں کے پیچھے کردیناسراسرجمہوریت او رجمہوری اقدارکیلئے بھی منافی ہے ۔دیرہی سے سہی سپریم کورٹ کا فیصلہ ان معصوموں کے حق میں آیاکہ ان کو باعزت رہا کیاجائے رہائی تو ان کو مل گئی لیکن عمرعزیزکے وہ قیمتی لمحات جو زنداں کی نذرہوگئے ہیں ان کو کون واپس لائے گااوراس دوران لگے زخموں پر کون مرہم رکھے گا؟
بی جے پی کا ایجنڈہ ہمیشہ سے ہی مسلم مخالف رہا ہے اوریہ امیدکرنا بھی خطا ہو گی کہ کبھی مستقبل میں ان سے ایسے کلمات صادرہوں گے جوکم ازکم مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ ہندوستانیت کے حق میں ہی ہوں کیونکہ جس تنظیم کی پشت پناہی میںیہ جماعت کاربند ہے وہ ہمیشہ سے ہی سیکولرزم مخالف شوشہ چھوڑتی رہتی ہے جس سے ملک کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا رہتا ہے او رآپسی مصالحت و مفاہمت کے بجائے عصبیت اور بوالہوسی بیدارہوجاتی ہے اور خوابیدہ شیطنت سرابھارنے لگتی ہے جس سے ملک مین زعفرانی رنگ کا صیقل ہواہے فضاعجیب صورت اختیارکرگئی ہے اوراس تلون مزاجی کے اثرات بھی دفعتا ظاہر ہونے لگے دارالعلوم وقف دیوبند کے دو طالب علموں پرقاتلانہ حملہ ہواجس کے نتیجہ میں مولوی مبارک چنددنوں کے بعد ہی زخموں کی تاب نہ لاکراپنی جان جاں آفریں کے سپردکر دی اور ابھی بھی مولوی ابوصباح حیات و موت کی کشمکش میں ہیںآخر ان معصوموں کی خطا کیا تھی بس یہی نہ کہ وہ مستقبل میں قوم مسلم کے قائد ہوتے اور یقیناملت اسلامیہ کو ان سے توقعات وابستہ تھیں لیکن افسوس یہ تعلیمی مراحل سے فارغ ہوکرعملی جدوجہدکے میدان میں قدم رکھتے قبل اس کے ان پر اندھادھندفائرنگ کرکے موت کی نیند سلادینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔پھرا س طرح کی شیطنت کا اظہارشہرپونہ میں ہواجب انل تکول نامی نوجوان نے سازش کے تحت شیواجی او ربال ٹھاکرے کی توہین آمیزتصاویر سوشل سائٹس فیس بک اور واٹس ایپ پراپلوڈکرکے ماحول خراب کرنے کی ناپاک کوشش کی ،ماحول بالیقین خراب بھی ہوا شیواجی کے عقیدت مندوں نے یکلخت ا س ناپاک حرکت کو مسلمانوں کی طرف منسوب کرکے توڑپھوڑ،مارپیٹ او رافراتفری مچائی گناہ کسی او رکا تھامگر اس کی سزا کسی او رکو ملی اس شرارت کی پاداش میں نوجوان مسلم انجینئرکو اپنی جان سے ہاتھ دھوناپڑاصرف یہ دوہی دل خراش واقعات نہیں ہیں بلکہ جیسے ہی مودیتواکے جنون نے اپنی منزل حاصل کرلی اسی وقت سے اس نے اپنی کارستانیوں کا آغاز کردیا دفعہ370 کو کالعدم قراردیے جانے کی سیا سی جوڑتوڑشروع ہو گئی تو مسلم ریزرویشن پربھی سوالات اٹھنے لگے حتی کہ یونیفارم سول کوڈکے نفاذپربھی لاحاصل مباحثہ اوراورتکرارکو بھی لازمی خیال کیا جانے لگا یعنی یہ تصویرعیاں ہوگئی کہ شام غم میں خواب سپیدی سحر کسی بوم کی شب ہنگامی کی نذرہوگیااور ملک بھر میں قبل سحربوم کی شب ہنگامی کی نحوست پھیل گئی اور پھر اس بوم کی شب ہنگامی کو اس وقت شرمندگی اور ذلت کا احساس ہوتا لیکن افسوس!ندامت کیسی؟خفت کیونکر؟ندامت و شرمندگی ان کو ہوتی ہے جن کی سرشت میںآدمیت ہو جو انسانیت سے ازل ہی سے عاری ہواسے ان چیزوں کا کوئی بھی اثر نہیں ہواکرتابلکہ اس ذیل میں مزیدکج کلاہی اوربدعقلی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
اکشردھام مندرپرحملہ جن لو گو ں نے کیا تھااورجن لو گو ں کی پشت پناہی میںیہ قبیح فعل انجام پذیرہوابالیقین یہ ان مخالف قوتو ں کا کارنامہ ہے جو اس عظیم بھارت کے مزیدٹکڑے ٹکڑے دیکھنا چاہتے ہیں او رخون کی سرحدیںآپس میں کھنچ جانے کے متمنی ہیں۔کسی بھی مذہب میںآپسی منافرت ،دہشت گردی اور تشدد کی تعلیم نہیں ہے تو پھرمذہب اسلام کیو نکر اپنے ماننے والوں کو اس پر اکسائے اسلام میں تو دوران جنگ بے مقصد ہرے بھرے درخت کے کاٹنے پر زجروتو بیخ اور سخت وعید ہے لیکن برادران وطن کا یہ زعم خودساختہ ہے یا پھربیرونی طاقتوں کا پڑھایا ہواسبق کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔دہشت گردی تو یہ ہے کہ مدارس کے طلبہ کو اپنی گو لیوں کا نشانہ بنایاجائے جن کو ملک و قوم کی سلامتی او رتحفظ عزیز ہے ،دہشت گردی تو یہ ہے کہ بلا ل خان کے فرضی نام سے انل تکول نامی شخص آئی ڈی بناکر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچائے اور ملک کو آتش نمرود میں جھونکنے کی ناپاک جرأت کرے اور دہشت گر دی تو یہ ہے کہ جمہوریت کے لاغر اور نحیف جسم میں فرقہ پرستی کا خنجر گھونپ کر یونیفارم سول کو ڈکے نفاذکیلئے راہیں ہموار کی جائیں اور بالآخران معصوم افراد کا کیا قصورتھا کہ وہ اکشردھام مندرحملہ میں ملوث تھے ؟بارہا ہماری خفیہ ایجنسیاں اپنے فرائض کے تئیں ناکام ہوئی ہیں لیکن پھر بھی ملک کے ارباب حل و عقد اس کی کارکردگی پر مطمئن ہیں اگرملک کے ارباب حل و عقد ان کی کارکردگی پرفکر مند ہوتے تو ان معصومو ں کو زنداں میں ایڑیاں رگڑنی نہ پڑتی لیکن افسوس جب مسیحاہی قاتل ہو جائے تو اس کا شکوہ کس سے کریں او رالم خاطرکی دواکس سے مانگیں کو ن رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھے گا؟یقیناًاس صورتحا ل میں کوئی بھی ہماری طرف نظر غلط بھی اٹھاکر دیکھنا گوارہ نہ کرے گا ۔
بے قصور افراد جن کو اکشردھام پرحملہ کے الزام میں زنداں کی تاریک کوٹھری کے حوالے کردیا گیا جن کے اسماء کی فہرست تو بہت لمبی ہے جوکہ ہر ایک نام اپنے اندر کرب والم ،رنج وغم او رسوزونم کی ایک وسیع دنیا آبادرکھتا ہے ان کو اس قدراذیتیں دی گئیں کہ الامان والحفیظ اگر پتھر کو بھی سماعت میسر ہوتو سن کر پگھل جائے گا لیکن گجرا ت پولس کو ان بے قصورافراد پر ظلم ڈھاتے ہوئے کچھ بھی رحم نہ آیا ،دن جہاں تڑپ کر گذاردیا جاتاتو شب بھی الم انگیز ہواکرتی ملزمین میں سے ایک عبدالقیوم کی رودادزنداں ملاحظہ کریں:
’’جیل میں کئی بارخودکشی کرنے کی طبیعت چاہی مگرامید جاگ جاتی کہ سپریم کو رٹ سے تو انصاف ملے گاوہ مزید کہتے ہیں پورے معاملہ میں ثبوت کے طور پرکرائم برانچ نے صرف دو خط پیش کیے جو ان کے مطابق میں نے لکھ کر فدائین کو دیا تھاجنھوں نے اکشردھام پر حملہ کیا تھاجب سپریم کورٹ نے فدائین کی پینٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھی تو پوچھا کہ ان کی لاشیں خون اور مٹی میں لت پت ہیں پیر میں اتنی گو لیاں لگی ہیں اور خطوں پر خون کا قطرہ تک نہیں؟؟؟‘‘
(بی بی سی کی رپورٹ سے اقتباس)
یہ صرف ایک عبدا لقیوم کی روداد ستم نہیں ہے بلکہ اس ہندوستان میں ہزاروں عبدالقیوم ہیں جن کی روداد بھی اس عبدالقیوم کی ہی طر ح ہے اب اس تلخ مذاق کا اندازہ لگائیے کہ اس جرم میں بے گناہ آدم اجمیری ،محمد سالم ،مجید پٹیل اور شوکت اللہ غوری جیسے فرشتہ صفت لو گ بھی ہیں جن کی عمر کے قیمتی گیارہ سال زنداں میں بسر ہوگئے آخر ان تمام واقعات کی روشنی میں ایک سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ کیا اس ہندوستان میں اگرکسی کاخون سستااو رزندگی بے معنی اور خوشی بے کیف ہے تو وہ مسلمان ہیں؟معصوم طلبہ پر قاتلانہ حملہ اور حکومت کی خاموش تماشائی کی تصویراور پولس محکمہ کے افراد قاتل تک پہونچنے میں ناکام ،فیس بک اور دوسرے سماجی نیٹ ورک پر اہانت آمیز مواد کی اشاعت اور پھراس کے ذریعہ ماحول میں سمیات گھولنے کی ناپاک کوشش آخر یہ کیا ہے ؟ یہ امورکس امر کی طرف مشیر ہیں اور اشارہ کس صنم قدآور کی طرف ہے ؟کرم کا فیضان اگر کمل نوازی کی طرف سے ہے تو پھر جمہوریت کے فیصان کے کیا معنی؟آخر جمہوریت کا فیضان بھی تو اپناایک مقام رکھتا ہے جو کسی بھی بھٹکے ہوئے اور زندگی سے برگشتہ افراد کو جینے کا شعوراور ہونٹو ں پر مسکراہٹ دیتاہے مگر کمل نوازی کافیضان اپنی جگہ دل آزار ہے جو باربارزندگی کو ایسے مقامات کی سیر کراتا ہے کہ جہاں فیضان کے اصلی معنی مفقودہوجاتے ہیں اور اس کی جگہ کسی دوسرے فیضان کا ادراک ہواکرتا ہے ،یہ ہندوستان ہے اور یہاں جمہوریت کا ہی فیضان عام جاری رہے توملک کی دلکش ودلربا تصویرسامنے آئیں گی ورنہ پھر تو امید نے کب سے ہی اپنی رمق کو خیرآباد کہہ دیا ہے اور اس سے نالاں ہو کر اس کے فیضان کاشکوہ کررہی ہے ۔
اگر ملک میں امن وامان اور آپسی مصالحت کی راہ ہموار کرنی ہے تو اولاًان افراد پر نکیل کسی جائے جو بسااوقات اپنی ناپاک فطرت کا اظہارکرتے رہتے ہیں اوروہ یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں مزیدافراتفری قائم ہو موجودہ حکومت ویسے باربار تو یقین دہانی کراتی ہے کہ ملک میں کسی بھی فرقہ وایت کو کوئی جگہ نہیں ہے لیکن کاش یہ یقین دہانی عملی جامہ بھی پہن لے اورخوف وہراس کے ماحول کو ختم کردے لیکن اصل مسئلہ ان نظریا ت کا ہے کہ جن نظریات نے مودی جیسے مشتبہ اورفرقہ پرست شخص کو وزیراعظم بنایا ہے اگر ان نظریات میں تبدیلی یا ملائمت کا کوئی عنصر شامل ہوجائے تو پھر اس ہندوستان کو گلزار بننے سے کوئی روک نہیں سکتا لیکن اصل مسئلہ او ربنیادی کمزوری تو یہ ہے کہ اب اس ہندوستان میں ان نظریا ت کابول بولا ہوگیا ہے اور سیکولرزم اپناسامنھ لیکر محوماتم ہے ع
آخرکب ہوگی اس ظلمت شب کی سحر
جواب دیں