آہ فیصل! تو ہمیں جلد داغ مفارقت دے گیا!!

     تحریر : عتیق الرحمن ڈانگی ندوی
     (رفیق فکرو خبر بھٹکل)

نرم مزاج ونرم خو، مسکراہٹ بکھیرتا چہرا، اپنے والدین کا فرمانبردار، دادا جان کی دل و جان سے خدمت کرنے والا، نانا جان کا داہنا ہاتھ، دوستوں کے ساتھ محبت کا برتاؤ، بہن بھائیوں کی خدمت میں ہمیشہ تھکنے والا، چچا کے کاموں میں ہاتھ بٹانے والا، غرض جب بھی گھر میں کسی کو کسی کام کی ضرورت پڑتی تو ہر ایک یہی صدا لگاتا،  فیصل! فیصل! فیصل!
آج جب اس کی تجہیز وتکفین کی تیاری ہورہی تھی، کوئی ادھر بھاگ رہا تو کوئی ادھر لیکن اس غم  میں بھی مجھے کسی کام کی حاجت ہوئی تو میرے منھ سے بے اختیار فیصل نکل پڑا اور یک لمحہ ہی یہ احساس ہوا  کہ اب زندگی بھر فیصل کی صدا نہیں لگائی جاسکتی کیونکہ وہ اپنے مسکن حقیقی کی طرف کوچ کر چکا ہے۔
آہ فیصل! تو ہمیں بہت جلد داغ مفارقت دے گیا ۔ ابھی تجھ سے بہت کچھ امیدیں باقی تھیں! عین شباب کے دن تھے،  تیرے سر سہرا  بندھابھی دیکھنا تھا ، تیرے بچوں کو گود میں اٹھانا تھا۔ تیری ادھیڑ عمر کی زندگی کی بہاریں دیکھنی تھی، اور بتدریج بڑھتی عمر میں زندگی کے اتار چڑھاؤ دیکھنے تھے، والدین ، بہن بھائیوں کو بھی تجھ سے بہت کچھ امیدیں وابستہ تھیں۔
لیکن!!! ہماری امیدیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ تیری قضا نے تجھے سمندر میں آواز لگائی اور تو اس کی طرف دیوانہ وار بڑھتا چلاگیا اور تو ہمیں اشارہ دئے بغیر ہی اس سے گلے لگ گیا۔
تو جانتا بھی ہے کہ تیرے بغیر گھر کتنا سونا سونا لگ رہا ہے۔ تیرا اچانک گھر آجانا اور پھر دوسرے ہی لمحہ گھر سے غائب ہوجانا ہمیں رہ رہ کر یاد آرہا ہے، اس دروازے سے تو داخل ہوتا اور دوسرے سے نکل جاتا۔ ہم تجھے پکارتے ہی رہتے۔ فیصل! فیصل! جب کوئی جواب نہ آتا تو کسی سے معلوم کرنا پڑتا تو پلٹ کر جواب آتا ابھی دادا جان کو گھر لے آیا تھا اور اسی لمحہ نانا جان کا فون آگیا۔ وہ کام نمٹا بھی نہیں کہ بہن نے فون کردیا اور یوں دن گذر جاتا۔ اس سے تجھے فرصت کہاں تھی؟ تجھے معلوم بھی ہے کہ یہاں گھر کا ہر فرد کتنا غمگین ہے ، بچے بار بار تیرے آخری دیدار کا تذکرہ کرکے پوچھ رہے کہ فیصل بھائی کب واپس آرہا ہے! ان ننھوں کو کیا معلوم کہ اس سوال کے جواب کی وہ حقیقت جان لیں تو ان پر کیا بیتے گی۔ خاندان کا ہر فرد تیری ایک ایک ادا کا تذکرہ کررہا ہے ، محلہ کے نوجوان تیری خوبیوں کا تذکرہ کرتے نہیں تھک رہے ہیں۔ تجھے معلوم بھی ہے کہ تو نے اس مختصر سی مدت میں کتنے عظیم کارنامے انجام دئیے ، اپنی پورے زندگی والدین کی فرمانبرداری میں گذاردی۔ اپنے گھر کے کاموں کو تو نے اپنے دوستوں کے کاموں اور ان کی خواہشات پر ترجیح دی، کبھی اف تک تیری زبان سے نہیں نکلا۔
لیکن اے فیصل ! ہم قضا و قدر پر راضی ہیں۔ ہمیں اس بات کا مکمل یقین ہے کہ انسان جو زندگی ماں کے پیٹ سے لے کر آتا ہے اس سے زیادہ ایک سکینڈ بھی دنیا میں نہیں گزار سکتا۔ وہ مجبور ہے ، نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اس دنیا کو چھوڑکر جانا ہے، وہ تو صرف امیدیں لگا سکتا ہے اور اسے  یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ اس کی ان امیدوں کو پورا کرنے کے لئے اس کے پاس وقت ہے بھی کہ نہیں، اے فیصل!  ہمیں اس کا بھی احساس ہے کہ یہ زندگی فانی ہے اور کس کی اجل کب آجائے کچھ کہا نہیں جاسکتا، اے فیصل! اپنی موت کے ذریعہ تو نے ہمیں آخرت کی تیاری کی طرف توجہ دلائی۔ اے فیصل! ہم لاکھ چاہتے کہ تو ہمارے درمیان چند دن اور رہتا تو کبھی ہماری یہ خواہش پوری نہیں ہوتی۔ ہم لاکھ جتن کرتے لیکن اللہ کے فیصلوں کے سامنے ہم بے بس ہیں۔ موت و حیات کا مالک وہی ہے، اس کا حکم ، حکم آخری ہے۔ اس کی تدبیر کے سامنے ہماری کسی  تدبیرکی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس کے فیصلے کو دنیا کی  کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی۔
اے فیصل! تیرے انتقال پر بس ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم بھی اللہ کے لیے ہیں اور ایک دن ہمیں بھی اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

«
»

ماہنامہ پھول سے ادارہ ادب اطفال تک (قسط ۲)

مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش ”سلسلہ عقائد اسلام“ کا آغاز!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے